کپتان تھوڑا سا مصروف ہے
میں نے اپنے گھرسے کپتان کی پارٹی کا جھنڈا اُتار دیا ہے لیکن اس کے باوجود میرادل کہتاہے کہ کپتان اچھاانسان ہے۔
میرانام افضل ہے اورعمرتقریباً پچھتربرس ہے۔معمولی نوکری سے ریٹائرہوکرکراچی میں آباد ہوں۔ معمولی سے گھرمیں رہتاہوں۔تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔سب شادی شدہ ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ میری تمام ذمے داریاں مکمل ہوچکی ہیں۔بس اب آگے جانے کی فکرہے۔آگے جاکرکیا ہوگا، اس کا توپتہ نہیں۔لیکن دنیامیں سب کچھ دیکھ چکاہوں۔
ہمارے ملک میں اتناجھوٹ کیوں ہے،مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں۔گزشتہ کچھ برسوں سے پورا سچ بولنے کی کوشش کرتاہوں۔میرے سچ یا جھوٹ سے کسی کو کیافرق پڑناہے۔ کئی بارسچ بولنے سے نقصان ہوا ہے۔مگرکوئی پروا نہیں۔زندگی رہ کتنی گئی ہے جوڈرکر گزاروں۔ تینوںبیٹے میٹرک بھی نہ کرسکے۔ گھر کے نزدیک گاڑیوں کی مرمت کاایک گیراج ہے۔ سارے بچوں نے وہاں سے گاڑیاں ٹھیک کرنے کاکام سیکھااوردس سال پہلے دبئی چلے گئے۔وہاں بھی یہی کام کرتے تھے۔
ان کے بال بچے بھی وہاں چلے گئے۔سال، دوسال بعد آتے، توگھرمیں رونق آجاتی۔ بیٹی، ایک اسکول میں پڑھاتی ہے۔شادی کے بعد،اسے روز بیس کلومیٹردور،ایک نجی ادارے میں ٹیچر کا روزگارملاہے۔وہ کتنی تکلیف سے آتی جاتی ہے وہ کہانی بالکل الگ ہے۔گھرمیں،ہم دو لوگ ہیں۔ میں اورمیری اہلیہ۔
آپ سوچ رہے ہوںگے کہ میں یہ عام سی باتیں کیوں کررہاہوں لیکن اس کی ایک خاص وجہ ہے۔گزشتہ تیس برسوں میں ہرسیاسی پارٹی کو ووٹ ڈال کردیکھ لیا۔کسی نے انتخابی وعدے پورے نہیں کیے۔ کوئی تبدیلی یابہتری نہیں آئی۔ ایک دن گھر میں ٹی وی دیکھ رہاتھاکہ لاہورمیں عمران خان کا بہت بڑاجلسہ چل رہا تھا۔
مینارِ پاکستان پرلوگوں کا ہجوم درہجوم تھا۔ یہ چندبرس پہلے کی بات ہے، عمران خان کی تقریرسنی تودل خوش ہوگیا۔من پہلے ہی روایتی سیاسی جماعتوں سے متنفرتھا۔لہٰذامحسوس ہوا کہ یہ شخص دردِدل والاہے اورسچی باتیں کر رہا ہے۔اسی دن سے فیصلہ کیاکہ باقی زندگی عمران خان کے لیے کام کروںگا۔پھرمیںاس کی ہرتقریرسننی شروع کردی۔ جب عمران خان کراچی آیاتواسکے ہرجلسے میں جاتا تھا۔ایک دن اس نے کہا،کہ میں ایسا پاکستان بناؤنگا، جس میں باہرکے لوگ نوکریاں کرنے آئیں گے۔
کسی بھی پاکستانی نوجوان کو نوکریوں کے لیے ملک سے باہرنہیں جاناپڑے گا۔ یقین کریں،عمران خان کی بات سن کر جھوم اُٹھا۔ پورے محلے کوبتایاکہ دیکھو لیڈر ایساہوتاہے، مجھے محسوس ہواکہ شائدمیرے تینوں بیٹے واپس آکر یہاں باعزت روزگار شروع کر دیں۔ شائد ہمارے اپنے پاکستان میں اتنی نوکریاں ہوں جائیں کہ میراخاندان بھی سکھی ہوجائے۔
میں اتناجذباتی ہوگیاکہ تحریک انصاف کا جھنڈا گھر پر لگا لیا۔ ہر وقت،ہرجگہ،یہی کہتاتھاکہ یہ لیڈر اقتدارمیں آگیا توملک کی قسمت بدل جائے گی۔ سیاسی لٹیروں سے جان چھٹ جائے گی۔ ہر سیاسی جماعت کے لٹیروں کا ایسا احتساب ہوگاکہ ان کی چیخیں سنائی دیں گی۔ ایک دن،ایک سیاسی جماعت کے ورکرز نے بازار میں روکااور زدوکوب کیا۔لیکن میں کہتا رہاکہ دیکھو! جس دن میرا لیڈرحکمران بن گیا،تمہارے جیسے جیل پہنچ جائیں گے۔ میںتھانے گیاتوچھوٹے تھانیدار نے میری بات نہیں سنی۔ میں نے اسے بھی کہاکہ جس دن میرالیڈروزیراعظم بنا تو تمہارے جیسے تھانیداروںکی پیٹیاں اُتر جائیں گی۔
ایک دن عمران خان نے تقریرمیں کہاکہ جس وقت میں وزارتِ عظمیٰ کاحلف اُٹھارہاہوںگا تو گورنر ہاؤس کی دیواروں کوبلڈوزرتوڑرہے ہوں گے۔ خداکی قسم، میںاپنی تمام تکلیفیں بھول گیا۔ صرف یہ خواب دیکھنے لگاکہ کب ہماراکپتان وزیراعظم بنے گا۔ 2018کے الیکشن والے دن کرائے پر موٹر سائیکل لی اورمحلے والوں کوخود پولنگ اسٹیشنوں تک مفت لے جاتارہا۔شرط صرف یہ کہ تم نے عمران خان کی جماعت کوووٹ دیناہے۔ نتائج آئے تو، ایسا لگا کہ میں دوبارہ جوان ہوگیا ہوں۔ہماراہیرو، ہمارا لیڈروزیراعظم بن گیا۔اب پاکستان درست ہوجائے گا۔ہمارے علاقے سے جوایم این اے بناتھا، سوچا یہ تواپنا ہی بندہ ہے۔
ہمارے ووٹ سے جیتا ہے۔ اسے مبارک باددینے اس کے گھرچلاگیا۔وہاں بھی نکا تھانیدار اور پولیس اہلکار دارڈیوٹی پر تھے۔مجھے دیکھ کرکہنے لگاکہ اوئے،تم کدھر آئے ہوئے ہو۔ مجھے بہت بُرالگا۔ میں بولا، اب ہمارے لیڈر کی حکومت ہے۔لہٰذا تم اوقات میں آجاؤ۔ یہ سن کر وہ خوب ہنسا۔کہنے لگا، تم بیوقوف بوڑھے ہو،جاؤ اپنا کام کرو۔ایم این اے صاحب،اسلام آبادگئے ہیں۔ دوسرے صاحب نے سرگوشی کے انداز میں بتایاکہ ایم این اے صاحب گھرمیں ہی ہیں اور اندر الیکشن جیتنے کاجشن ہورہاہے۔
میں مایوس واپس آگیا۔سائیکل چلاتے ہوئے سوچ رہاتھاکہ یہ شخص میرے جیسے لوگوں کے ووٹوں سے ایم این اے بنا ہے،میں اسے کیوں نہیں مل سکتا؟ دل میں وسوسے اُٹھنے لگے۔نہیں نہیں،اپناکپتان ہے،سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس ایم این اے کا مزاج بھی درست کر دیگا۔اوریہ چھوٹاتھانیدارتوویسے ہی اب نوکری سے جائے گا۔اپنے آپ کودلاسہ دیتارہا۔ایک بات بتانا بھول گیا، جس دن ہمارا لیڈرجیتا، میری جیب میں دو سوروپے تھے۔ جلیبیاں خریدیں اور لوگوں میں تقسیم کردیں۔میںکہتاتھا، کپتان آئیگا اور دیکھنا ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی۔
دومہینے گزرگئے۔ایک دن ٹی وی پر دیکھا کہ وزیراعظم عمران خان کراچی آرہے ہیں اور گورنر ہاؤس میں اہم لوگوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ عجیب سالگا۔ میں نے سائیکل اُٹھائی اور گورنرہاؤس دیکھنے چلاگیا۔گورنرہاؤس تووہیں کاوہیں تھا۔اس کی کوئی بھی دیوارگری نہیں تھی،مجھے گمان ہواکہ کہیں کپتان اپنا وعدہ بھول نہ گیاہو۔ ایک گھنٹہ سائیکل چلاکرواپس آرہاتھاتوایک جگہ پولیس نے پوری ٹریفک روکی ہوئی تھی۔ وزیراعظم کاقافلہ گزررہا تھا۔ایسے لگاکہ کسی نے مجھے پہاڑسے نیچے دھکا دیدیا ہے۔
چھوٹا تھانیدار وہاں کھڑامیرامذاق اُڑا رہاتھا۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کپتان کے سرکاری قافلے کے لیے عوام کی نقل وحرکت روک دی جائے۔ یہ پولیس والے خودہی ایسا کررہے ہیں۔ ضرور کپتان کوپتہ نہیں ہوگا۔ گھر آکر پوری رات جاگتا رہا۔دل میں ایک طوفان سابرپا تھا۔کہیں میں نے غلط ووٹ تونہیں ڈال دیا؟کیا کپتان بھی پرانے سیاسی لیڈروں کی طرح تونہیں؟ پھرخودہی جواب دیاکہ نہیں، عمران خان وعدوں کا پاس رکھے گا۔ یوں ایک سال گزرگیا۔کچھ بھی نہیں ہوا۔ایک دن مقامی لیڈرکے پاس گیااورگزارش کی کہ خان صاحب کوملناچاہتاہوں۔مصروفیت کی وجہ سے وہ الیکشن کے وعدے بھول سے گئے ہیں۔
اس لیڈر نے کہاکہ تم پاگل تونہیں ہوگئے۔میں آج تک نہیں مل سکاتوتمہیں کیسے ملواسکتاہوں۔یقین نہیں آیا۔ضروریہ بندہ جھوٹ بول رہاہے۔اسے کہاکہ اگرکپتان ملے تواسے کہیے گاکہ میرے سارے بیٹے،ملک سے باہررہ رہے ہیں۔وہ ایسے حالات پیداکریں کہ میرے بچے ملک میں آکراپناذاتی کام شروع کردیں۔مقامی لیڈر نے مجھے ایسے دیکھاکہ میں ایک پاگل آدمی ہوں۔ وہ کرسی سے اُٹھ کر باہرچلاگیا۔ مجھے ایسے لگاکہ میں نے کوئی بہت غلط بات کہہ دی ہے۔ خاموشی سے واپس آگیا۔پہلی باریقین ہواکہ ملکی حالات بالکل نہیں بدلیں گے۔
اسی طرح دو برس گزر گئے۔ اس عرصہ میں میری ذاتی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ میرے تینوں بیٹوں کودبئی سے نکال دیاگیا۔ وہ پیسے مانگ مانگ کر واپس گھرآگئے۔اب وہ خاندان سمیت میرے ہی تین مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ گھر میں حددرجہ بے سکونی ہے۔ میرے بیٹے، جس گیراج میں کام کرتے تھے، وہ بھی بند ہوگیاہے۔تینوں بیٹے کبھی کبھی دیہاڑی پر مزدوری کرلیتے ہیں۔دل دکھتا ہے کہ میں انھیں معمولی سی نوکری بھی نہیں دلوا سکتا۔ کئی بار،مقامی ایم این اے سے ملنے کی کوشش کی۔ صرف ایک بارملاقات ہوئی۔گزارش کی کہ بچوں کو پرائیویٹ نوکری ہی دلوادیں۔ اس نے اپنے ایک کارندے کے پاس بھیج دیا۔کارندے نے کہاکہ نوکری مل جائے گی۔ مگر آٹھ لاکھ لگیں گے۔میرے پاس توآٹھ ہزار روپے نہیں، آٹھ لاکھ کہاں سے لاؤں۔
اب سارادن،بسترپرپڑارہتاہوں لیکن اب بھی امید کی کرن نظر آتی ہے ،سوچتارہتاہوں کہ اصل میں کپتان بہت مصروف ہے۔ شائد اگلے تین سالوں میں حالات ٹھیک کردے لیکن حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں۔گورنرہاؤس ختم کرنے کاوعدہ پورا نہیں ہوا۔ بے روزگاربچوں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں توکلیجہ منہ کو آتاہے۔وعدہ تھاکہ کسی پاکستانی کوروزگارکے لیے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے۔
ملک میں ہرنوکری میسر ہوگی۔ اب توگھروالے بھی میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ بہت زیادہ طعنے دیتے ہیں۔ ہاں، میں نے اپنے گھرسے کپتان کی پارٹی کا جھنڈا اُتار دیا ہے لیکن اس کے باوجود میرادل کہتاہے کہ کپتان اچھاانسان ہے۔ وہ کوئی بات بھولا نہیں ہے۔ اقتدارکے مشکل راہداریوں کی بدولت کئی اعلانات پرعمل نہیں کر سکا۔ ابھی کافی وقت ہے۔ سارے معاملے ٹھیک ہوجائیں گے؟(افضل صاحب کاخط من وعن لکھ دیاہے)