بم بنانا کتنا آسان

انٹرنیٹ پر دستیاب تراکیب کے مطابق ایک ہلاکت خیز بم بنانے پر چند ہزار روپے لاگت آتی ہے۔


سید بابر علی December 29, 2013
کھلونا بم سے جان لیوا بم تک بنانے کی تراکیب سے مزین ویب سائٹ پر بم کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء ملک کے بازاروں میں عام دستیاب ہیں۔ فوٹو : فائل

کسی بھی بم دھماکے میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد سیکیوریٹی ''ہائی الرٹ'' کردی جاتی ہے، لیکن اس سیکیوریٹی ہائی الرٹ کے بعد بھی ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوتی اور اتنے''اونچے پیمانے'' پر حفاظتی انتظامات کے باوجود بھی دہشت گرد پہلے سے زیادہ شدت کے بم دھماکے اور تخریب کاری کی وارداتیں کرتے ہیں۔

جس سے ہر شخص کے ذہن میں یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دہشت گردوں کے پاس تخریب کاری کے لیے اتنا مواد کہاں سے اور کیسے آجاتا ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچانے والی جدید ترین ٹیکنالوجی انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور چند ہی لمحوں میں بنا کسی آئی پی رسٹرکشن (روک ٹوک) کے ایسی ویب سائٹ کا ہوم پیج سامنے تھا جہاں ایک ''ہلاکت خیزبم'' بنانے کا طریقہ اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ اس ویب سائٹ تک رسائی بھی باعث حیرت تھی، کیوں کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں حکومت نے تخریب کاری، بم اور عام کیمیکل سے دھماکا خیزمواد بنانے کے طریقوں اور اس نوعیت کی حساس معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹس پر مکمل پابندی عاید کر رکھی ہے اور بعض اوقات ان ویب سائٹس تک رسائی کی کوشش کرنے والے افراد کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی تحویل میں بھی لے لیتے ہیں۔



کھلونا بم سے جان لیوا بم تک بنانے کی تراکیب سے مزین اس ویب سائٹ پر بم کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء کی فہرست دیکھ کر اپنے ذہن میں کلبلاتے سوالوں کا کچھ حد تک جواب مل ہی گیا۔



ایک ''ہلاکت خیز'' بم بنانے کے لیے درکار اجزا کے حصول کے لیے آپ کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ان میں وہ عام کیمیکل اور تیزاب ''سلفیورک ایسڈ''،''نائٹرک ایسڈ''،''سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ''،''سلفر'' اوردیگر (جن کا نام بوجوہ سیکیوریٹی ظاہر نہیں کیا جارہا) شامل تھے۔



ان میں سے زیادہ تر کیمیکل ہارڈویئر اور کیمیکل کی دکانوں پر عام دست یاب تھے، جنہیں انٹرنیٹ پر موجود تراکیب کی مدد سے ایک خاص تناسب سے ملانے پر دھماکا خیز مواد اور گھریلو ساختہ بم بہ آسانی بنایا جا سکتا ہے۔



ہم نے ''ایکسپلوزو کیمیکل'' کی تلاش شہر قائد کے مختلف علاقوں میں موجود کیمیکل اور ہارڈویئر کی دکانوں سے شروع کی اور اس تلاش میں کافی حد تک کام یابی بھی نصیب ہوئی، ان میں سے کچھ دکانوں پر ''مطلوبہ'' کیمیکل ''مطلوبہ'' مقدار میں دست یاب تھا۔



مزید کی تلاش میں کراچی کی مرکزی کیمیکل مارکیٹ کا رخ کیا، جہاں مختلف دکان داروں کے سامنے 22 کیمیکلز پر مشتمل فہرست پیش کی گئی، جس میں سات ''ایکسپلوزو کیمیکل'' بھی شامل تھے ۔ چند گھنٹوں کی محنت کے بعد ہم ان سات ایکسپلوزو کیمیکلز کی قیمتیں جاننے کے ساتھ ان کی مطلوبہ مقدار میں فراہمی کی یقین دہانی حاصل کر چکے تھے۔



یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لمحوں میں درجنوں انسانی زندگیوں کے چراغ گل کردینے والے اس ''دھماکا خیز مواد''،''فیوز''اور اسے مزید ہلاکت خیز بنانے کے لیے شامل کی جانے والی ''کیلوں'' اور ''نٹ بولٹ'' کی قیمتیں سو روپے فی کلو گرام سے 800روپے فی کلو گرام تک تھیں۔ انٹرنیٹ پر دستیاب تراکیب کے مطابق ایک ہلاکت خیز بم بنانے پر چند ہزار روپے لاگت آرہی تھی، جس کا موازنہ بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد سے کیا جائے تو ایک جیتے جاگتے انسان کو لقمۂ اجل بنانے کے لیے محض چند روپوں کا دھماکا خیز مواد درکار تھا۔



دکانوں پر ملنے والے خطرناک اور آتش گیر کیمیکل کی نگرانی کے لیے قایم کسی مجاز اتھارٹی کی تلاش بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھی۔ کچھ دن کی تگ و دو کے بعد ''وزارت صنعت و پیداوار'' کے ماتحت ادارے ''ایکسپلوزو ڈیپارٹمنٹ'' کے بارے میں پتا چلا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ اس کام کے لیے کوئی مجاز اتھارٹی موجود تو ہے۔



ایکسپلوزو کیمیکل کی مانیٹرنگ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ایکسپلوزو انسپکٹر محمد مبین احمد سے رابطہ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا محکمہ صنعتوں خصوصاً سیمنٹ انڈسٹری میں ''مائننگ'' اور ''بلاسٹنگ'' میں استعمال ہونے والے دھماکا خیز مواد کی مانیٹرنگ کرنے کا ذمے دار ہے اور عام مارکیٹ میں ملنے والے اس نوعیت کے مواد اور کیمیکل کی خرید و فروخت کی مانیٹرنگ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے ایکسپلوزو ڈیپارٹمنٹ کی نہیں۔



انہوں نے بتایا کہ1940میں بننے والے ''ایکسپلوزو رولز'' کو بغیر کسی ترمیم ''ایکسپلوزو رولز2010'' کے نام سے نافذ کردیا گیا ہے، جس کے تحت ہمارے ادارے اور کچھ ایجنسیوں کی جانب سے دھماکا خیز مواد درآمد کرنے والی کمپنیوں کی خرید و فروخت کے ریکارڈ کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور میرے چارج سنبھالنے کے بعد سے کسی کیمیکل کے چوری یا گم ہونے کا کوئی واقعہ اب تک رپورٹ نہیں ہوا ہے۔



انہوں نے بتایا کہ ''ایکسپلوزو ڈیپارٹمنٹ '' کی جانب سے ''مائننگ'' اور ''بلاسٹنگ'' میں استعمال ہونے والے کیمیکل کو درآمد کرنے کا لائسنس پورے سندھ میں صرف 29 کمپنیوں کے پاس ہے اور ان میں سے ایک بھی لائسنس ہولڈر کا تعلق کراچی سے نہیں ہے۔ دھماکا خیز مواد کے امپورٹ لائسنس کے حصول کے بارے میں محمد مبین کا کہنا ہے کہ لائسنس کے حصول کے لیے درخواست دینے والے فرد کو ڈپٹی کمشنر سے ''این او سی'' لینا پڑتا ہے اور پھر دفاعی اداروں کی جانب سے سیکیوریٹی کلیئرینس ملنے کے بعد ہی ایکسپلوزو ڈیپارٹمنٹ لائسنس جاری کرتا ہے۔

مارکیٹ میں عام دکانوں پر ملنے والے ''ایکسپلوزو کیمیکل'' کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ''ایکسپلوزو سبٹانس ایکٹ 1908''(THE EXPLOSIVE SUBSTANCES ACT) کے تحت اس کی مانیٹرنگ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے ۔ یہ کام ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

محمد مبین کا کہنا ہے کہ پاکستان خصوصاً کراچی میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے زیادہ تر بم گھریلو ساختہ ہیں اور ''پریشر ککر بم''، ''پائپ بم'' اور ''بال بم'' اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں ایکسپریس نیوز کے دفتر پر حملہ بھی بال بم سے کیا گیا تھا۔



ایکسپلوزو کیمیکل کی تیاری، فروخت اور اس کی مانیٹرنگ کے بارے میں کسی قانون کے بارے میں جاننے کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ سندھ سید ممتاز علی شاہ سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہر بار ان کے پی اے کی جانب سے یہی جواب ملا کہ صاحب ابھی میٹنگ میں ہیں آپ اپنا فون نمبر لکھوادیں ۔ تا دم تحریر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا اور نہ ان کی جانب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایکسپلوزو کیمیکل کی مانیٹرنگ کے لیے قایم کسی مجاز اتھارٹی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمۂ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس قسم کے مواد کی نگرانی کی ذمے داری مقامی پو لیس اسٹیشن کی ہوتی ہے، لیکن پولیس کی روایتی غفلت کی وجہ سے ایسی دکانوں کا ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا، جب کہ اسپیشل برانچ کے ایک افسر نے اس ذمے داری کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپلوزو کیمیکل کی مانیٹرنگ ہماری ذمے داری نہیں ہے ہم صرف انفارمیشن کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں محکمۂ پولیس کا آن ریکارڈ موقف لینے کے لیے ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی شاہد حیات سے بھی رابطے کی کوششیں کی گئی، لیکن ہر بار جواب ملا کہ وہ میٹنگ میں مصروف ہیں۔



دوسری جانب انٹرنیٹ پر عام کیمیکل کی مدد سے دھماکا خیز مواد اور گھریلو ساختہ بم بنانے کی تراکیب سے مزین ویب سائٹ پر پابندی کے حوالے سے جب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن خرم مہران سے بذریعہ ٹیلے فون رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے براہ راست کسی بھی ویب سائٹ کے URLاور لنک کو بند کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس بات کا فیصلہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ''انٹر منسٹریل کمیٹی '' کرتی ہے کہ کس ویب سائٹ کو بلاک کرنا ہے اور کس کو نہیں۔

جہاں تک بم اور دھماکا خیز مواد بنانے کی راہ نمائی فراہم کرنے والی ویب سائٹ کی بات ہے تو اس کو بند کرانے کی ذمے داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عاید ہوتی ہے، کیوں کہ اگر وہ انفارمیشن منسٹری سے درخواست کریں تو وہ اپنی کمیٹی کے اجلاس میں مشاورت کے بعد پی ٹی اے کویہ ویب سائٹس بند کرنے کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔



اس بارے میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انٹرنیٹ پر تو ایٹم بم بنانے، پاکستان مخالف، اسلام مخالف اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والی بھی ہزاروں ویب سائٹس موجود ہیں اور ان تمام ویب سائٹس تک رسائی ناممکن بنانے کے لیے ایک جامع قانون بنانے کی ضرورت ہے، اور یہ نہ پی ٹی اے کی ذمے داری ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی، یہ تو ایک پالیسی میٹر ہے اور پی ٹی اے بھی ان ویب سائٹس تک رسائی روکنے کے لیے متعلقہ وزارت کو درخواست دے سکتی ہے۔ اس حوالے سے قانون بنانا وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ذمے داری ہے، اور اگر قانون بن جاتا ہے تو پھر یقیناً متعلقہ ادارے اس کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد کرانے کے ذمے دار ہیں، لیکن جب اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں ہے تو پھر اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے۔

دھماکا خیز مواد
دھماکا خیز مواد بہت زیادہ توانائی ( energy potential) پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ توانائی خارج کرنے پر عموماً روشنی، آواز، حرارت اور دباؤ کے ساتھ دھماکا کرسکتا ہے۔

دھماکا خیز مواد کی درجہ بندی اس کے پھیلنے کی رفتار کے حساب سے کی جاتی ہے۔ اگر مواد کے پھیلنے کی رفتار آواز کی رفتار سے تیز ہو تو اسے بہت شدید دھماکا کرنے والا مواد کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی درجہ بندی ان کی حساسیت کے حساب سے بھی کی جاسکتی ہے۔

یہاں حساسیت سے مراد ہے کہ وہ مواد نسبتاً کم درجہ حرارت یا دباؤ پر بھی دھماکا کر سکتے ہیں۔ ایسے مواد کو بنیادی دھماکا خیز مواد ( explosive primary) کہتے ہیں۔ وہ مواد جس کی حساسیت نسبتاً کم ہوتی ہے اسے ثانوی دھماکا خیز مواد (explosives secondary) یا ثالثی دھماکا خیز مواد ( explosive stertiary) کہتے ہیں۔ بنیادی دھماکا خیز مواد سے عموماً کم حساسیت والے ثانوی دھماکا خیز مواد کو متحرک کیا جاتا ہے۔

عسکریت پسندوں نے بم کو مزید مہلک بنانے کے لیے دیگر کیمیائی عناصر بھی شامل کرنا شروع کردیے ہیں، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرنا ہے۔ بم بنانے والوں کے پیشِ نظر اس کی اہلیت زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانا ہے۔ اور ان کیمیکلز کی پیداوار اور فروخت کی نگرانی کے لیے ریاست نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں، جس کی واضح مثال کیمیائی کھاد (فرٹیلائزر) کی شکل میں ہے، جو ملک میں کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔ اس کیمیائی کھاد کی تھوک اور پرچون منڈی میں فروخت کی سطح پر نگرانی کے لیے کوئی کوشش یا اقدامات نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی کبھی کیمیائی کھاد تیار کرنے والے کارخانوں اور انہیں فروخت کرنے والے دکان داروں سے رابطے کیے گئے، جن سے کسی مشتبہ خریدار اور مشکوک سرگرمیوں کا پتا چل سکا ہو، یا غیرمعمولی خریداری کی گئی ہو۔



دوسری جانب عسکریت پسندوں نے انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس کی مدد سے دھماکوں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کو مزید مہلک بنا دیا ہے جو زخمی افراد کے جلد رو بہ صحت ہونے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان دھماکوں میں استعمال ہونے والے زہریلے کیمکلز زخموں میں پیچیدگی کی وجہ بن رہے ہیں، کیوں کہ یہ زخم اینٹی بایوٹکس سے بھی ٹھیک نہیں ہوتے اور جلد پر بہت گہرے نشانات بھی چھوڑتے ہیں۔

اور انہیں ہلاکت خیز بنانے میں بھی عام ملنے والے کیمیکلز پوٹاشیم، نائٹروجن، یوریا، میگنیشیم، پوٹاشیم، سوڈیم اور فاسفورس کا اہم ہاتھ ہے۔ بم حملوں میں زخمی ہونے والے دس فی صد افراد زخم کے ناسور بن جانے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ایکسپلوزو سبٹانس ایکٹ 1908
ایکسپلوزوسبٹانس ایکٹ 1908 کے مطابق دھماکا خیز مواد بنانے کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل، آلات اور مشینوں کو دھماکا خیز مواد کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی شخص دانستہ طور پر دھماکا خیز مواد استعمال کرکے پراپرٹی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے یا اُس کی اِس حرکت سے انسانی جانوں اور پراپرٹی کو شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہوں تب بھی اس کی سزا موت یا عمر قید ہے۔

یہ قانون در حقیقت ''شیڈولڈ ڈسٹرکٹ ایکٹ 1874'' کی دفعہ 5 کے نوٹیفکیشن کے تحت بلوچستان میں نافذ کیا گیا تھا، بعدازاں1950کی ''لاء ریگولیشن'' کے تحت اسے یکم جون 1951سے N.W.F.P (موجودہ خیبر پختون خوا) میں بھی نافذ کردیا گیا۔

اس قانون کے تحت انسانی جان کو خطرے میں ڈالنے اور پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے دانستہ طور پر دھماکا خیز مواد بنانے یا اسے رکھنے کی سزا عمر قید یا کم سے کم سات سال قید ہے، جب کہ دھماکا خیز مواد بنانے یا اسے غیرقانونی طور پر رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر عدالت مجرم کی تمام جائیداد حکومت کی تحویل میں دینے کی فرد جرم عاید کرسکتی ہے، اس مجرمانہ فعل میں پیسوں کی خاطر دھماکا خیز مواد کے لیے جگہ فراہم کرنے، میٹریل کی فراہمی یا کسی بھی طرح اعانت کرنے والے فرد پر بھی وہ ہی فرد جرم عاید کی جائے گی جو مرکزی مجرم پر کی گئی ہے۔

ایکسپلوزو رولز 2010
1884میں بننے والے اس قانون کو ''ایکسپلوزو رولز 2010'' کے نام سے دوبارہ نافذ کیا گیا ہے، جس کی شق 5اور6 کے مطابق کوئی بھی شخص ممنوعہ ایکسپلوزو کو رکھنے، خریدنے، بیچنے، تیار کرنے، نقل و حمل اور درآمد یا برآمد کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
لائسنس ہولڈر کے علاوہ کوئی بھی فرد ایکسپلوزو کے زمرے میں آنے والی اشیاء کو پاکستان میں کسی کو فروخت نہیں کر سکتا، جب کہ کوئی بھی شخص لائسنس یافتہ فرد کے علاوہ کسی سے ایکسپلوزو نہیں خرید سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں