27 دسمبر کی ایک منحوس شام
تین دن لوٹ مار جاری رہی ریلوے کے سگنل توڑ ڈالے، گاڑیوں، ٹرینوں اور اسٹیشنوں کو جلا دیا گیا۔
یہ 27 دسمبر 2007 کی ایک منحوس شام تھی جب ہم ہندوستان کے شہر دہلی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تین روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے جوکہ 29دسمبر 2007 کو ہورہی تھی سو ہم گیارہ ساتھیوں کے ہمراہ جس کی قیادت راحت سعید کر رہے تھے جن میں تین خواتین کے علاوہ پانچ افراد ترقی پسند مصنفین کے اراکین شامل تھے۔
خواتین شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی ٹیم میں محترمہ حمیرا خلیق، حبیب حیات، برکت اللہ ان کی بیگم سماجی رہنما شاعرہ بیگم نگار برکت، سعدیہ بلوچ، ڈاکٹر محمود، حمید قریشی، شاعر ندیم سبطین، مزدور رہنما ایوب قریشی اور میں منظور رضی نے بھی جانا تھا ہم نے شام 4 بجے قراقرم ایکسپریس میں ریزرویشن کرائی ہوئی تھی سو ہم سب 4 بجے سے قبل ہی کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے تھے میں اپنے بیٹے کامران رضی کے ہمراہ اسٹیشن پہنچا راحت سعید سمیت سارے ہی دوست موجود تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے ٹرین ابھی پلیٹ فارم پر لگی نہیں تھی اور اس میں تاخیر ہو رہی تھی خیر ساڑھے چار بجے ٹرین پلیٹ فارم پر آگئی اور ہم سب اپنی بوگی میں اپنی اپنی سیٹ اور برتھ پر بیٹھ گئے۔
ترین چار بج کر 50 منٹ پر روانہ ہوئی کہ ابھی ٹرین پلیٹ فارم پر رینگ رہی تھی میرے فون پر گھنٹی بجی کامران رضی نے کہا ہے کہ ابو راولپنڈی میں محترمہ کے جلسے پر حملہ ہو گیا ہے۔ بم بلاسٹ ہو گیا آپ ٹرین سے اتر جائیں میں نے سب کو اطلاع دی کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے میں نہیں جاؤں گا۔ خیر ایوب قریشی چلتی ہوئی ٹرین سے اپنا بیگ لے کر اتر گئے۔ میں نے ریل کی زنجیر کھینچی مگر ٹرین تیز ہو گئی کسی بھی مسافر کو کچھ پتا نہیں تھا۔ اور لوگ آرام سے بیٹھے سفر کر رہے تھے، صرف ہمارے دوستوں کو یہ خبر ملی تھی میں نے کامران کو فون کرکے پوچھا کہ بی بی تو خیریت سے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہاں بی بی اپنی گاڑی میں گراؤنڈ سے نکل رہی ہیں میں ٹرین کی زنجیر بار بار کھینچتا رہا اور آخر کار ڈرگ روڈ پر ٹرین رک گئی۔
حالانکہ اس کا اسٹاپ نہیں تھا وہ حیدرآباد جا کر کھڑی ہوتی میں نے راحت سعید اور دوستوں سے کہا کہ میں نہیں جا رہا۔ آپ بھی اتر جائیں راحت سعید نے کہا کہ ہم کل صبح پہنچ جائیں گے ہم نے لاہور جانا ہے واہگہ کے راستے۔ میں نے کہا نہیں آپ بھی اتر جائیں پھر بیٹے کا فون آیا کہ بی بی پر حملہ ہو گیا ہے آپ ٹرین سے اتر گئے ہیں، میں نے کہا کہ ہاں ہم ڈرگ روڈ پر اتر گئے ہیں۔ پھر میرے ساتھی اور دوست بھی پلیٹ فارم پر اتر گئے اور ٹرین کھڑی ہوگئی باقی تمام مسافر ٹرین میں بیٹھے رہے کسی کو کچھ معلوم نہ تھا، ٹرین نے وسل بجائی آگے کی طرف روانہ ہوئی پھر موبائل فون بند ہوگئے اور مجھے خطرہ محسوس ہو گیا میں سمجھ گیا کہ کوئی بڑا سانحہ ہو گیا ہے کچھ دور جا کر ٹرین بھی کھڑی ہوگئی۔ وقت تقریباً ساڑھے پانچ بجے کا تھا۔
میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلیں جلدی سے اپنے گھروں کو ٹیکسی میں جائیں، ہم سب ساتھی ڈرگ روڈ اسٹیشن کے باہر شارع فیصل پر آگئے۔ ٹریفک بڑی تیز رفتاری سے رواں دواں تھی اسٹیشن کے باہر کئی ٹیکسیاں کھڑی ہوئی تھیں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ پھر چھ بجے فون کھل گئے اطلاع ملی کہ بی بی کو زخمی حالت میں اسپتال لے گئے ہیں اللہ خیر کرے۔
میں نے تمام دوستوں کو ٹیکسیوں میں روانہ کیا اب میں اور ندیم سبطین رہ گئے تھے اسے بھی تھوڑی دیر میں شیر شاہ کا رکشہ مل گیا اب میں اکیلا تھا ٹرین کھڑی ہوئی تھی کچھ مسافر اتر کر آگئے تھے ہم پریشان تھے دو چار اور مسافر بھی مجھ سے پوچھ رہے تھے میں نے کہا کہ آپ نے کہاں جانا ہے انھوں نے کہا کہ واپس کینٹ اسٹیشن جانا ہے، ایک دو ٹیکسی والوں سے پوچھا انھوں نے کہا کہ کینٹ اسٹیشن کے 800 روپے لیں گے ہم چار مسافر دو دو سو روپے دینے پر تیار ہوئے اور ٹیکسی میں سوار ہوگئے۔ معمول کے مطابق سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا۔
خیر نرسری کے بعد ٹیکسی رک گئی ٹریفک جام تھا ڈرائیور نے ہم سے پیسے وصول کیے اور چل پڑا۔ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے عدنان کو فون کیا اس نے کہا کہ ابو میں آ رہا ہوں آپ پیدل چل کر آہستہ آہستہ FTC بلڈنگ تک آجائیں۔ ہر طرف آگ ہی آگ لگی ہوئی ہے آپ بچ بچا کر آتے رہیں، میں آ رہا ہوں۔ ہم نے دیکھا نرسری سے آگے آگ ہی آگ لگی ہوئی ہے، لوگ پیدل ہی فٹ پاتھ پر آ اور جا رہے تھے، سو میں بھی چل پڑا، کئی منی بسوں، کاروں میں آگ لگی ہوئی تھی اور لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہو رہا تھا۔
خیر میں ایک گھنٹہ بعد FTC بلڈنگ پر پہنچ گیا۔ آگے پھر کالا پل پر بھی آگ ہی آگ تھی۔ بیٹا عدنان دور کھڑا تھا وہ فٹ پاتھ پر موٹرسائیکل پیدل لے کر آ رہا تھا۔ خیر وہ مجھے مل گیا اور پھر رات 8 بجے ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔ ٹی وی چل رہا تھا میری بیوی اور بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے اور رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ظالموں نے بی بی بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کردیا ہے میری بھی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
رات بھر ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہے اور روتے رہے۔ پھر میں نے دو گھنٹے بعد دوستوں کو فون کرکے خیریت معلوم کی سب خیریت سے پہنچ گئے تھے صرف ندیم سبطین نہیں پہنچا تھا بعد میں اس نے بتایا کہ مجھے ٹاور کے پاس لٹیروں نے لوٹ لیا اور رکشے کو بھی آگ لگا دی۔ میں نے اپنا فون اپنے جوتے میں چھپا رکھا تھا میرے بیگ کو کھولا اور رقم لے کر چھوڑ دیا میں اب گھر پہنچا ہوں تم بھی گھر پہنچ گئے ہو؟
وہ 27 دسمبر کی شام میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ تین دن لوٹ مار جاری رہی ریلوے کے سگنل توڑ ڈالے، گاڑیوں، ٹرینوں اور اسٹیشنوں کو جلا دیا گیا، پنو عاقل پر کھڑی ہوئی ٹرین کو آگ لگا دی گئی، کراچی تا پنو عاقل، دادو، کوٹری، لاڑکانہ سمیت کئی اسٹیشن اور انجنوں کو آگ لگا دی گئی اور اس طرح چار دن تک ٹرین آپریشن مکمل طور پر بند رہا ریلوے کو 10 ارب کا نقصان اٹھانا پڑا۔ کئی لوگ ہنگاموں میں مارے گئے تمام سندھ کے شہر مایوسی، ٹم، تشدد کی وجہ سے بند رہے کراچی کا پورا شہر بند رہا کاروبار بند، ہوٹل، دکانیں بند ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا، بس تین دن ٹی وی دیکھتے رہے، اخبار پڑھتے رہے اور آنسو بہاتے رہے، ظالموں نے یہ کیا کردیا، پہلے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا، پھر میر مرتضیٰ بھٹو کو گھر کے قریب تل اور اب 27 دسمبر کو قوم کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کردیا گیا۔
18 اکتوبر 2007 کو کارساز کے مقام پر بم دھماکے کرکے 260سے زائد پیپلز پارٹی کے جیالوں کو شہید کردیا گیا کیا ہو گیا ہے ہمارے ملک کو، ہمارا کیا بنے گا، ملک کا کیا بنے گا۔ بھٹو خاندان کو شہید کردیا گیا اور ان کے لاشے گڑھی خدابخش میں منوں مٹی تلے دبے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ یہ ملک کیسے آگے بڑھے گا۔اور پھر دسمبر 2007 میں ملک بھر میں ہلچل ہے، مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، بھوک ہے، کورونا جیسی مہلک بیماری، قومی صنعتی اداروں کی نجکاری ہے۔
اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، ریلوے، پاکستان پوسٹ، سوئی سدرن سمیت کئی اداروں کے ہزاروں ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ اور اداروں کو نجی اہلکاروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کے احکامات کے ذریعے ڈیزل، پٹرول، گیس، بجلی کے بلوں میں بے پناہ اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری پی ڈی ایم کے جلسے جلوس اور ریلیاں تمام صوبوں کے بڑے بڑے شہروں میں دھوم دھام سے ہو رہے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان استعفیٰ دیں اور اپنے گھر جائیں۔ حکومت کہتی ہے کہ چوروں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
ملک کی لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے لوگ پریشان ہیں حکومت ریاست مدینہ کا خواب دکھا رہی ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے اور 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ مگر ملازمتیں چھینی جا رہی ہیں، گھر توڑے جا رہے ہیں پاکستانی عوام کہاں جائیں۔ ترقی پسند جمہوریت پسند، لیفٹ کی پارٹیاں خاموش ہیں، کیا ہم یہ خلا پورا نہیں کرسکتے کیا ہم ایک پوائنٹ ایجنڈے پر متحد نہیں ہوسکتے۔ جاگیرداری کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام اور اشرافیہ کی جمہوریت خلاف ہمیں اب نکلنا ہوگا اپنی بقا کے لیے اور عوامی جمہوریت کے لیے۔ محنت کاروں، ترقی پسندوں، شاعروں اور ادیبوں، صحافیوں، طالب علموں کا اتحاد، زندہ باد!