ایم کیو ایم سیاسی فیصلوں میں کتنی آزاد
ایم کیو ایم کی اس حکومت کو قائم رکھنے میں ایک کلیدی حیثیت ہے۔
ایک طرف حکومت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم ٹوٹ جائے۔ لیکن دوسری طرف ہم حکمران اتحاد میں دراڑیں روز بروز بڑھتی دیکھ رہے ہیں۔ سردار اختر مینگل تو ہمیں اپوزیشن کے جلسوں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن اب ہم ایم کیو ایم کے تیور بھی بدلتے دیکھ رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کی اس حکومت کو قائم رکھنے میں ایک کلیدی حیثیت ہے۔ اور اگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے تو بظاہر عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر صادق سنجرانی کو اکثریت کے بغیر سینیٹ کا چیئرمین رکھا جا سکتا ہے تو پھر عمران خان کو اکثریت کے بغیر وزیر اعظم کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔ بہرحال پھر بھی ایم کیو ایم کی ایک کلیدی حیثیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔
ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کے لیے جمہور سے مشاورت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوستوں کو یہ بات بہت مبہم لگ رہی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ وہ جمہور سے کیسے مشاورت کریں گے۔ کیا وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے ایم کیو ایم کو کوئی عمران خان سے اتحاد کے لیے تو ووٹ نہیں دیے تھے جو وہ دوبارہ عوامی مینڈیٹ کے لیے استعفیٰ دے دیں۔
اور کہیں کہ اب ہم عمران خان سے علیحدگی اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے مینڈیٹ لینے جا رہے تھے۔ اور اگر لوگوں نے دوبارہ ووٹ دے بھی دیے تو یہ کیسے فیصلہ ہو گا کہ یہ ووٹ عمران خان کی مخالفت میں ملے ہیں۔ اس لیے جمہور سے رائے لینے کے فیصلے میں استعفوں کا آپشن درست نہیں ہے۔ حالانکہ اگر آج ایم کیو ایم بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کر دے تو سب سے زیادہ فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا۔ اور عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں دوبارہ ایم کیو ایم کو سپورٹ کرنے کا بھی سوچ لے۔ لیکن پھر بھی ایم کیو ایم کو یہ تجویز نہیں دی جا سکتی۔
ماضی میں ایم کیو ایم عوامی حمایت سے فیصلہ کرنے کے لیے جلسہ میں لوگوں سے رائے لینا کا ڈرامہ کرتی رہی ہے۔ لیکن کسی ایک جلسہ میں لوگوں کی رائے کوئی مکمل عوامی رائے کی عکاس نہیں قرار دی جا سکتی۔ کیا ایم کیو ایم اپنے تمام انتخابی حلقوں میں بڑے بڑے عوامی اجتماعات منعقد کر کے وہاں لوگوں سے رائے لے گی کہ کیا اسے حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے۔
ویسے تو لوگ پوچھیں گے کیا ہم سے پوچھ کر شامل ہوئے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ کوئی قابل عمل تجویز نہیں۔ ایک خاص رائے کہ لوگ اس کو ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس سے بھی کوئی حقیقی عوامی رائے سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ ویسے بھی جلسوں میں شریک لوگوں کو لیڈر شپ کی رائے معلوم ہوتی ہے اور وہ لیڈر شپ کی رائے کے مطابق ہی رائے دیتے ہیں۔
کیا ایم کیو ایم کراچی کی سطح پر کوئی بڑا ریفرنڈم منعقد کر سکتی ہے جس میں لوگ اپنی رائے دے سکیں۔ لیکن اس میں پھر ایک مسئلہ ہوگا کہ اس بات کا کیسے تعین ہوگا کہ صرف ایم کیو ایم کے ووٹر ہی رائے دے رہے ہیں۔ جنھوں نے 2018کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیا تھا وہی رائے دے رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف اپنے حامیوں سے کہہ دے کہ آپ بھی اس ریفرنڈم میں جا کر ووٹ ڈالیں اور کہیں کہ ایم کیو ایم کو حکمران اتحاد کا حصہ رہنا چاہیے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنے کارکنوں کو ہدایت کریں کہ آپ نے ریفرنڈم میں جا کر ووٹ ڈالنا ہے کہ ایم کیو ایم کو حکمران اتحاد سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ طریقہ بھی نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے۔ اس میں بھی ابہام باقی رہے گا کہ کیا یہ رائے ایم کیو ایم کے ووٹر اور کارکن کی ہے یا اس میں دوسری پارٹیوں نے اپنی ملاوٹ کر دی ہے۔ خالص ایم کیو ایم کے ووٹر کی رائے اس میں آنا موجودہ ملکی حالات میں ممکن نہیں ہے۔
ویسے بھی یہ بات نا قابل فہم ہے کہ ایم کیو ایم کے منتخب اراکین اسمبلی کو یہ نہیں معلوم کہ ان کا ووٹر کیا چاہ رہا ہے۔ منتخب رکن اسمبلی کو اپنے حلقہ میں اس کے ووٹرز کی عوامی رائے کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اپنے کارکن کی سوچ کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم کو سب معلوم ہے کہ ان کا ووٹر اور سپورٹر ان سے کیا چاہتا ہے۔ تو کیا وہ سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ مخصوص سیاسی حالات میں اپنی سیاسی قیمت میں اضافہ کے خواہش مند ہیں۔
عمران خان کو مشکل میں دیکھ کر اسے اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ایک عمومی رائے ہے کہ ایم کیو ایم کو اتحادی سیاست کا بہت تجربہ ہے۔ اس لیے وہ اپنے تجربہ کے مطابق عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ کہیں نہیں جا رہے صرف ریٹ بڑھا رہے ہیں۔
لیکن کہیں نہ کہیں میں اس کو نہیں مانتا۔ حالانکہ معروضی حالات اس سوچ کے حق میں ہیں۔ ماضی بھی اس کے حق میں گواہی دے رہا ہے۔ لیکن پھر بھی نہیں مانتا کہ ایم کیو ایم کوئی ریٹ بڑھانے یا سیاسی قیمت بڑھانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ایک ایک دن ان کے لیے سیاسی طور پر زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کا اتحاد ایم کیو ایم کے لیے سیاسی موت بن رہا ہے۔ تحریک انصاف نے انھیں ساتھ بھی بٹھایا ہوا ہے اوردوسری طرف انھیں ختم کرنے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے۔ اس لیے اگر ایم کیو ایم کی قیادت کو ایم کیو ایم کی بقا عزیز ہے تو انھیں اب اس حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمومی تاثر یہی ہے ایم کیو ایم اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں۔آج بھی رائے ہے کہ ایم کیو ایم کا عمران خان سے اتحاد ایم کیو ایم کے لیے ایک کڑوی گولی تھی جو انھیں کھانے پر مجبور کیا گیا۔ مخصوص حالات میں اس کے علاوہ بقا کا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ اور آج بھی لوگ سر عام خالد مقبول صدیقی کی فائلوں کی بات کر رہے ہیں۔
باقی ساری قیادت بھی مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم کسی آزادانہ فیصلہ کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ موجودہ ایم کیو ایم قیادت کا ریموٹ اس قدر مضبوط ہے کہ یہ ان کی مرضی کے بغیر ہلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ جس جیل میں ہیں ویاں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ البتہ جیلر کی مرضی سے وہ شور ضرور مچا سکتے ہیں۔ اس لیے شائد اس وقت جیلر نے انھیں شورمچانے کی اجازت دے دی ہے۔ اور وہ شور مچا رہے ہیں۔ اس لیے مخصوص حالات میں ایم کیو ایم کی قیادت کے لیے یہ بھی بہت آزادی ہے کہ انھیں شور مچانے کی اجازت ہے۔ اس لیے ہمیں ایم کیو ایم سے جمہوری اور آزادانہ فیصلوں کی توقع رکھنے سے پہلے ان کی حالت کو سمجھنا بھی چاہیے۔
لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کے لیے اب نہیں تو کبھی نہیں کا موقع آگیا ہے۔ اگر بانی ایم کیو ایم نے جماعت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ تو موجودہ قیادت اپنی مجبوریوں سے کوئی کم نقصان نہیں پہنچا رہی ہے۔ اب یا تو انھیں مجبوریوں کی زنجیریں توڑنی ہونگی یا قیادت سے پیچھے ہٹ کر نوجوان نئی قیادت کو سامنے لانا چاہیے جو آزادانہ فیصلے کر سکے۔ ورنہ ایم کیو ایم کی زندگی دن بدن کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کبھی اس کو میٹھا زہر دیا جاتا ہے۔ کبھی کڑوی گولی کھلائی جاتی ہے۔
کبھی باندھ کر مرضی کے فیصلوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم کو جمہور کے پاس جانے کے بجائے آزادانہ فیصلہ کرنے کی ہمت پیدا کرنی چاہیے۔ اور اس کی قیمت ادا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ ورنہ پرانی تنخواہ پر کام کریں۔ اگلے انتخابات میں سیٹیں مزید کم ہو جائیں گی۔ اور پھر بس ۔ سب کو نظر آرہا ہے۔ شاید ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی معلوم ہے۔ اور وہ سرنڈر کر چکے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ابھی موقع ہے۔ کراچی کو ان کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ کراچی کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہے۔