متنازعہ مردم شماری کے نقصانات
سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ حقیقی مردم شماری کا انعقاد ہو تو سندھ کی خاص طور پر کراچی کی آبادی سب سے زیادہ ظاہر ہوگی۔
وفاقی کابینہ نے 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار کے اجراء کا فیصلہ کرلیا۔ وفاقی کابینہ میں شامل ایم کیو ایم کے ایک وزیر امین الحق نے ان اعداد و شمار پر عدم اعتماد کو ریکارڈ پر لانے کے لیے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے وفاقی کابینہ کے اس فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفاد ات کونسل کے فیصلے کے تحت سندھ میں ایک مردم شماری کا آڈٹ (پائلٹ مردم شماری)ہونا ضروری تھا تاکہ 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی معروضیت کی تصدیق ہوسکے،مگر صوبہ سندھ کے اعتراض کو اکثریت کی بناء پر وفاق نے مسترد کردیا۔
وفاقی کابینہ نے مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار گزشتہ تین برسوں سے روکے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور سابق ناظم کراچی مصطفی کمال نے 2017 میں ہونے والی مردم شماری پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ ان وفاقی حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کا مدعا تھا کہ مردم شماری کے نتائج کو مرتب کرتے ہوئے کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔
معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مردم شماری کے وقت سیف سندھ کمیٹی کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں Pakistan Bureau of Statistics کے کا رویہ ہمیشہ امتیازی نوعیت کا رہا ہے، یوں یہ مردم شماری بھی نئے تضادات پیدا کرے گی۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور 19سال بعد ہونے والی مردم شماری متنازعہ بن گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت وفاقی کابینہ مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار کے اجراء کے بارے میں ابہام کا شکار رہی، اس بناء پر تین سال گزر گئے۔ اس سال سندھ سمیت چاروں صوبوں کے بلدیاتی اداروں کی آئینی معیاد ختم ہوگئی۔
بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد کی ذمے داری الیکشن کمیشن کے سر ہے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کی منتخب قیادت کے رخصت ہونے کے بعد سرکاری افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ جب یہ مطالبہ ہوا کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے تو حکومت سندھ کے ترجمانوں نے واضح کیا کہ مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار کے اجراء کے بعد ہی بلدیاتی حلقوں کی حد بندی ممکن ہے۔ پھر کچھ عرضداروں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد وفاقی کابینہ نے سندھ حکومت کی تجویز پر پائلٹ مردم شماری کرانے کے بجائے مردم شماری کے حتمی اعدادو شمار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں 1951، 1961، 1972، 1981 اور 1998 اور پھر 2017 میں مردم شماری ہوئی تھی۔ پہلی 1951، 1961 اور 1972 میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد وشمار پر زیادہ تنقید نہیں ہوئی تھی، مگر ان تینوں مردم شماری کے اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا تھا کہ سندھ کی آبادی خاص طور پر کراچی کی آبادی میں اضافہ کا رجحان زیادہ ہے۔
1981 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں مردم شماری ہوئی۔ اس وقت کراچی کے میئر عبدالستار افغانی تھے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ انھوں نے مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات کیے تھے اور دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس مطالبہ کو تسلیم کیا مگر کراچی میں مکمل مردم شماری کے بجائے محدود بلاکس میں مردم شماری ہوئی اور شماریات کے بیورو نے پہلی مردم شماری کے اعداد و شمار کی توثیق کردی تھی۔
1998 کی مردم شماری سے پہلے مکانات کی گنتی ہوئی اور ہر مکان کے حدود و اربع کے مطابق مکان میں آباد مکینوں کی تعداد معلوم کی گئی مگر جب ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا تو خوب انکشافات ہوئے۔ 120 گز کے احاطہ میں 100 کے قریب افراد کے قیام کے اعداد و شمار ظاہر ہوئے، یوں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے مکان کی شماری کا عمل مخدوش قرار پایا اور پہلی دفعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے 1998میں مردم شماری ہوئی۔
اس مردم شماری پر سندھ کی تمام جماعتوں نے اعتراضات کیے تھے مگر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور یہ معاملہ پس پشت چلا گیا۔ شماریات کے اصول کے تحت 10 سال بعد 2008 میں مردم شماری ہونی چاہیے تھی مگر 2008 سے 2016 تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں دیگر تنازعات میں الجھی رہیں۔ برسراقتدار جماعتیں اور مخالفین کے درمیان جنگ و جدل کا ماحول رہا۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج نے وفاق اور سندھ کے درمیان فاصلے بڑھادیے۔ شماریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے ملک سے لوگ روزگار کے لیے کراچی میں آباد ہورہے ہیں۔ گزشتہ 17 برسوں میں کچھ بستیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے، مگر ملک میں مختلف علاقوں سے تعلیم یافتہ نوجوان کراچی میں نظر آتے ہیں۔ کراچی میں صدر ٹاؤن گنجان آباد علاقہ ہے۔ اس ٹاؤن میں اس صدی کے دوران بلند و بالا عمارتوں کا جال بچھ گیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی بناء پر مکانات کی ہی قلت نہیں ہے بلکہ پانی، بجلی اور گیس سب نایاب ہورہے ہیں۔
کراچی کی سڑکوںکے مستقل فٹ پاتھ پر اب بستیاں نظر آتی ہیں مگر 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی میں اضافہ کی شرح کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ سندھ کے صرف سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ اساتذہ، صحافی اور دانشوروں کا بھی کہنا ہے کہ ایک منصوبہ کے تحت سندھ کی آبادی کو کم دکھایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر کا موقف ہے کہ سندھ میں شہری آبادی دیہی آبادی سے سائز میں بڑھ گئی ہے مگر یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔
سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ حقیقی مردم شماری کا انعقاد ہو تو سندھ کی خاص طور پر کراچی کی آبادی سب سے زیادہ ظاہر ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ متنازعہ مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ظاہر کی گئی ہے جب کہ نادرا نے ڈھائی کروڑ افراد کو شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول کا دعویٰ ہے کہ 5 فیصد آڈٹ کی بات آرٹیکل 51 کی آئینی ترمیم کے وقت تسلیم کرلی گئی لیکن ایک فیصد بھی آڈٹ نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مردم شماری کمیشن نے مردم شماری پر 120ارب روپے خرچ کیے تھے۔
اس کمیشن کی افسران کی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح غلط مردم شماری کو قبول کرالیا جائے تاکہ وہ انکوائری سے بچ سکیں۔ حقیقی مردم شماری کی انعقاد ہو تو سندھ کی آبادی زیادہ ظاہر ہوگی جس کے نتیجہ میں قومی مالیاتی ایوارڈ N.F.C میں سندھ کو زیادہ رقم دینی ہوگی۔ اسی طرح شہری علاقوں کی آبادی بڑھنے کے نتیجہ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں خاصی تبدیلی آئے گی۔
ان صاحبان دانش کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے اہلکار مردم شماری کے نتائج پر ہمیشہ اثرانداز ہوتے ہیں مگر بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ کی حکومت کو کسی یونیورسٹی کو پائلٹ مردم شماری کے لیے گرانٹ دینی چاہیے تھی تاکہ آزاد ذرایع حقائق کی جانچ پڑتال کرسکیں اور یہ فریضہ کوئی بھی یونیورسٹی ریسرچ پروجیکٹ کے ذریعہ پورا کرسکتی تھی۔ مغرب اور امریکا میں یونیورسٹیاں غیر جانبداری سے یہ فریضہ انجام دیتی ہیں۔ مگر صوبائی حکومت نے اس طرح کے کسی پروجیکٹ کے بارے میں سوچ و بچار نہیں کیا۔
وفاقی حکومت نے ملک کے دوسرے بڑے صوبہ کے اعتراضات کو ردکرکے ایک اور خلیج پیدا کردی۔ اب برسوں اس متنازعہ مردم شماری کے پس پشت مقاصد کے بارے میں مختلف نظریات جنم لیں گے۔ آبادی کی اکثریت ان نظریات پر یقین کرے گی۔ ایک طرف درست منصوبہ بندی نہ ہونے سے وسائل اور مسائل میں فرق گہرا رہ جائے گا جس کے نتیجہ میں ترقی کے اہداف پورے نہیں ہونگے اور دوسری طرف ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ مزید گہرا ہوتا جائے گا۔