بینظیربھٹو کی برسی پر پی پی کا کامیاب پاورشو دیگرجماعتوں کے رہنماؤں کی بھی شرکت

ڈاکٹرفاروق ستارنے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی نفاست کو گروی رکھ کر مردم شماری کی منظوری دی ہے


عامر خان December 30, 2020
ڈاکٹرفاروق ستارنے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی نفاست کو گروی رکھ کر مردم شماری کی منظوری دی ہے

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش بھٹو میں پیپلزپارٹی نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی کی۔ سندھ کے عوام شہید بی بی کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں،اس کی وجہ سے ہر مرتبہ برسی کے اجتماع پر بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔

اس مرتبہ یہ تقریب اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی شرکت کی اور کارکنوں سے خطاب کیا۔ پی ڈی ایم کے اس پاور شو سے قبل کچھ اختلافی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ اپوزیشن تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کی دعوت پر جلسے میں شمولیت سے معذرت کر لی تھی تاہم جمعیت علماء اسلام کے وفد نے اجتماع میں شرکت کی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ مجرم حکمرانوں کے احتساب کا وقت آگیا ہے، اگر عمران خان نے31 جنوری تک استعفیٰ نہیں دیا تو لانگ مارچ اور دمادم مست قلندر ہوگا۔

مریم نواز نے جلسے میں پیپلزپارٹی کی جانب سے کی گئی میزبانی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے این آر او مانگنے کیلئے اپنے میسنجر کو جیل میں قید شہباز شریف کے پاس بھیجا مگر اس ہارے ہوئے اور تنہا کھڑے ہوئے شخص کو کوئی این آراو نہیں دے گا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری کا کہنا تھا کہ میرے دوستو فکر نہ کرو ان کے دن تھوڑے ہیں کیونکہ ان سے پاکستان نہیں چل رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہید بی بی کی برسی پر اجتماع کا انعقاد پیپلزپارٹی کی روایت رہی ہے۔

اس موقع پر پارٹی کے کارکن پورے ملک سے گڑھی خدا بخش میں جمع ہو کر اپنی قائد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اپوزیشن کی تحریک کی وجہ سے جلسے کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ مریم نواز شریف کی لاڑکانہ اور پیپلزپارٹی کے اسٹیج سے خطاب کو سیاسی رواداری کی ایک بہترین مثال قرار دیا جا رہا ہے تاہم ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنما ایک پیج پر ہونے کا تاثر دے رہے ہیں اور حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کی بات بھی کر رہے ہیں لیکن صورت حال کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

خصوصاً اسمبلیوں سے استعفوں اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی رائے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے مختلف نظرآتی ہے۔ خاص طور پر پیپلزپارٹی فوری طور پر استعفوں پر راضی نظر نہیں آرہی ہے۔اسی طرح وہ ضمنی الیکشن میں بھی اپنے مخالفین کے لیے میدان خالی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ 1985کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کو پیپلزپارٹی اپنی بڑی سیاسی غلطیوں میں شمار کرتی ہے اور اس کے بعد پارٹی کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ انتخابات میں بائیکاٹ کا آپشن استعمال نہیں کرے گی۔

موجودہ سیاسی تناظر میں ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے استعفے دینے پر اسی صورت میں آمادہ ہو سکتی ہے جب اس کو اس بات کا یقین ہو کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے بعد ملک کے نئے انتخابات کی طرف جائے گا بصورت دیگر پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفے دیئے جانے کے امکانات کم ہی نظرآتے ہیں۔اسی وہ کسی غیر واضح صورتحال میں سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوگی۔

2020کا سال انتہائی تلخ یادیں لے کر رخصت ہو رہا ہے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے صوبہ سندھ کی سیاسی و معاشی سرگرمیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سندھ کی بہت سے معروف سیاسی شخصیات بھی کوویڈ 19کا شکار ہوئیں۔ پاکستان میں مارچ سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے پھیلا ؤ کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن نے تمام سیاسی سرگرمیوں کو ختم کردیا تھا اور یہ صورت حال ستمبر اکتوبر تک باقی رہی تاہم اس کے بعد آہستہ آہستہ سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

معاشی لحاظ سے بھی یہ سال صوبہ سندھ کے لیے بہتر نہیں رہا۔ کوویڈ کے ساتھ مون سون کے دوران ہونے والی ریکارڈ بارشوں نے کراچی سمیت اندرون سندھ کے مختلف شہروں کو شدید نقصان پہنچایا اور عوام کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت سندھ ان نقصانات کے ازالے کے لیے حتیٰ القدور کوششیں کر رہی ہے لیکن ابھی تک ان تباہ کاریوں کے اثرات صوبے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

2020 میں کورونا وبا کے دوران عوام کا غیر سنجیدہ رویہ بھی حکومت اور طبی عملے کے لیے انتہائی چیلنج بنا رہا۔ حکومت کی جانب سے عوام کے تحفظ کے لیے ایس او پیز جاری کی جاتی رہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ۔کراچی جہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے وہاں بھی شہری ماسک لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی طرح سماجی فاصلے پر بھی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکتوبر میں ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں جو کمی آئی تھی وہ زائل ہوگئی اور دسمبر کے اختتام تک کورونا وائرس کا پھیلاؤ ایک مرتبہ پھر عروج پر پہنچ گیا اور اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی ویکسین کی فراہمی کا عمل بہت دور ہے۔ شہریوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو نئے سال کا سورج بھی ان کے لیے کورونا کے حوالے سے کوئی اچھی خبریں لے کر نہیں آئے گا۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد پر ہے۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے مردم شماری 2017 کی منظوری کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے اور سندھ حکومت سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ سندھ کابینہ نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا کیونکہ مردم شماری سی سی آئی کا سبجیکٹ ہے اور وفاقی کابینہ کو اس کی منظوری کا اختیار نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ میں دعوی کرتا ہوں کہ بطور صوبائی حکومت ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہماری آبادی کو کم گنا گیا ہے۔

ادھر پاک سرزمین پارٹی ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے مردم شماری کے معاملے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے عندیہ کو بھی یہ جماعتیں ایک سیاسی بیان سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہی ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی نفاست کو گروی رکھ کر مردم شماری کی منظوری دی ہے۔ سیاسی حلقے وفاقی کابینہ سے مردم شماری کی منظوری کے فیصلے کو ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دے رہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اب ایم کیو ایم حکومت سے ناراضی اور علیحدگی کی جتنی بھی بات کر لے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وفاقی کابینہ میں اس کے نمائندوں کی موجودگی میں مردم شماری کی منظوری دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی مضمرات ایم کیوایم کو مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔