پنجاب کی سیاسی بساط پر شطرنج کی چال بدل رہی ہے

حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن منقسم ہونے والی ہے اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے


رضوان آصف December 30, 2020
فوٹو : فائل

سیاست اور اقتدار کے معاملات میں جو دکھائی دیتا ہے وہ اصل حقیقت نہیں ہوتی لیکن ہمارے عوام کی اکثریت سنائی اور دکھائی دینے والی باتوں کو ہی حقیت تسلیم کرتی ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن منقسم ہونے والی ہے اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن صورتحال قدرے مختلف ہے، نہایت خاموشی اور بہت گہرائی میں بہت سی پیش رفت ہو رہی ہے، ''بادشاہ گروں'' نے ''توازن'' قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کیلئے اپوزیشن کو ریلیف مل سکتا ہے اور میاں شہباز شریف آنے والے دنوں میں اہمیت اختیار کر سکتے ہیں ۔

یہ بات تو طویل عرصہ سے کہی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف قابل قبول ہیں لیکن معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب میاں نواز شریف اور مریم نواز آگے بڑھ کر میاں شہباز شریف کی ''مفاہمت'' کی راہ میں دیوار بن جاتے ہیں ۔ تیزی سے بدلتی صورتحال میں تحریک انصاف کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔

پاکستانی تاریخ میں پنجاب ہمیشہ سے سیاسی اہمیت کاحامل رہا ہے ۔گزشتہ ڈھائی برس کے دوران وزیر اعظم عمران خان کیلئے تمام بڑے سیاسی اور انتظامی چیلنجز پنجاب سے سامنے آرہے ہیں اور ان چیلنجز کا مقابلہ بھی خود عمران خان کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار جوں جوں طاقتور ہو رہے ہیں اسی تیزی کے ساتھ جوڑ توڑ کے داو بھی آزما رہے ہیں۔

کچھ لوگوں کی دانست میں چند روز قبل صوبائی وزیر بننے والے میاں خیال کاسترو کی ''اہلیت'' وزیر اعظم کی پسندیدگی ہے لیکن واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ ڈیڑھ برس سے وزیر اعلی پنجاب ہر اجلاس میں وزیر اعظم کے سامنے خیال کاسترو کی ''لابنگ'' کر رہے تھے۔ دوسری جانب کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم عمران خان سے خصوصی ملاقات میں وزیر اعلی کے خلاف شکایتوں کا انبار لگانے والے وزیر سکول ایجوکیشن ڈاکٹر مراد راس، وزیر ہائیر ایجوکیشن یاسر ہمایوں اور وزیر لیبر عنصر مجید نیازی کے سردار عثمان سے تعلقات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔

ان وزراء کی ملاقات کے بعد ہونے والے پنجاب کابینہ کے ایک اجلاس میں ڈاکٹر مراد راس کی جانب سے اپنا سیکرٹری تعلیم تبدیل کیئے جانے پر کیا جانے والا احتجاج اور اس پر وزیر اعلی کی ڈانٹ کا واقعہ بھی اظہار ناراضگی تھا۔ وزیر آبپاشی محسن لغاری کے بھی عثمان بزدار سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں ان کی وزارت ابھی تک بچے رہنے کی صرف ایک وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور پر انہیں بہت پسند کرتے ہیں ، ان کے حوالے سے ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ وزیر اعلی سے ملاقات کیلئے انہیں طویل انتظار کروایا گیا جس پر وہ زبردستی کمرہ میں داخل ہوئے اور شدید برہمی کا اظہار کیا تھا ۔

یہی صورتحال سردار آصف نکئی کی ہے کہ وہ بھی وزیر اعظم کے سامنے اپنی سیاسی مضبوطی کی وجہ سے اب تک وزارت پر مستحکم ہیں۔ وزیر سی ایم آئی ٹی اجمل چیمہ تو طویل عرصہ سے وزیر اعلی کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جلد ہی ان کے بارے بھی کوئی بڑا فیصلہ متوقع ہے۔

دوسری جانب سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو بھی وزیر اعلی نے بالکل ''کارنر'' کر دیا ہے، دونوں کے درمیان خلیج میں وسعت آتی جا رہی ہے، علیم خان اس وقت اپنے نجی مسائل میں الجھے ہونے کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ نہیں لے پا رہے جس کا فائدہ ان کے سیاسی مخالفین اٹھانے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ چند مخالفین اپنے نمبر بنانے کے چکر میں وزیر اعظم کے سامنے موقع ملتے ہی یہ باتیں شروع کر دیتے ہیں کہ سنٹرل پنجاب میں تحریک انصاف کی کمزوری کے ذمہ دار علیم خان ہیں تاہم ابھی تک تو عمران خان اور علیم خان کے درمیان یہ مافیا کوئی دراڑ نہیں ڈال سکا ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جو صوبائی وزراء کبھی وزیر اعلی کے قریب تھے اب وہ بھی کافی فاصلے پر جا چکے ہیں۔

پنجاب کابینہ میں چند مزید تبدیلیاں ہونا ہیں لیکن سینیٹ الیکشن کے تناظر میں انہیں فی الوقت موخر کیا گیا ہے ۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بھی بہت رسہ کشی ہو رہی ہے۔ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ خفیہ بیلٹ سے الیکشن ہوا تو حکومت دو نشستیں گنوا سکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماوں کو خدشات ہیں کہ وزیر اعظم دباؤ میں آکر غیر سیاسی مشیروں کو بڑی تعداد میں ٹکٹ نہ دے ڈالیں ۔

پنجاب سے سینیٹ کے 5 ٹکٹ جبکہ اسلام آباد سے ایک ٹکٹ دیا جائے گا۔ 6 میں سے 1 ٹکٹ تو عبدالحفیظ شیخ کیلئے بک ہو چکا ہے باقی کے پانچ کیلئے جن غیر سیاسی امیدواروں کا نام زیادہ زور وشور سے سنائی دے رہا ہے ان میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل، شہزاد اکبر، ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا نام اہم ہے جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف میں سے سیف اللہ نیازی، ارشد داد اور اعجاز چوہدری کا نام لیا جا رہا ہے ۔

سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی کے باہمی اختلافات کی وجہ سے اس کا اثر سیف نیازی پر منفی ہو سکتا ہے تاہم ارشد داد کو وزیر اعظم بھی پسند کرتے ہیں ۔ اعجاز چوہدری کی تحریک انصاف کیلئے گرانقدر خدمات ہیں اور انہیں سینٹ ٹکٹ ملنا چاہئے لیکن اس وقت سینیٹ الیکشن کیلئے جس طرز کی لابنگ اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے ، یوں لگتا ہے اعجاز چوہدری جیسے حقیقی انصافین کہیں نظر انداز نہ ہو جائیں ۔ تحریک انصاف کی قیادت اپنی غلط منصوبہ بندی کے سبب اسلام آباد کے میئر کا الیکشن ہاری ہے کیونکہ طویل عرصہ سے اہم قائدین کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو عددی برتری حاصل ہے لہذا کسی صورت الیکشن کو موخر کروایا جائے لیکن فیصلہ ساز رہنماوں نے غفلت برتی جس کے نتیجہ میں اسلام آباد میئر کی نشست ن لیگ کو مل گئی ۔

آنے والے دنوں میں پنجاب کے 2 ضمنی انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور بدقستی سے تحریک انصاف نے اس معاملے میں بھی وہی غلطی دہرائی ہے جو 2013 اور 2018 کے انتخابات میں کی تھی یعنی کہ امیدواروں کا انتخاب عین وقت پر کیا گیا اور الیکشن گنوا دیا گیا ۔ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کی این اے 75 کی قومی نشست پر تادم تحریر امیدوار کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا اور اس حوالے سے منگل کی شام وزیرا عظم نے فیصلہ کرنا تھا ۔ قوی امکان ہے کہ علی اسجد ملہی، خالد عثمان اور ناصر چیمہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا ۔ یہ نشست مسلم لیگ(ن) کے اہم ترین رہنما سید افتخار الحسن عرف پیر زارے شاہ کے انتقال کے سبب خالی ہوئی ہے اور مسلم لیگ نے کئی ماہ قبل ہی پیر زارے شاہ کی صاحبزادی کو ضمنی الیکشن کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے جو بہت کامیابی سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور ان کی پوزیشن نہایت مضبوط ہے۔

تحریک انصاف کے تمام تنظیمی عہدیدار کئی ماہ سے وزیرا عظم کو امیدوار کا فیصلہ کرنے کی درخواست کر رہے تھے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اعجاز چوہدری، عمر ڈار ،عثمان ڈار اور اسلم گھمن سبھی نے قیادت کو بروقت آگاہ کر دیا تھا کہ امیدوار کا جلد از جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ سیالکوٹ کی سیاست میں ڈار برادران کو اہمیت حاصل ہے اور اس ضمنی الیکشن میں وہ مسلسل قیادت سے جلدی فیصلہ کی درخواست کرتے رہے ہیں لیکن اب جتنی تاخیر ہو چکی ہے اس کا نقصان تحریک انصاف کے امیدوار کو ہی ہوگا ۔

اسی طرح دوسرا ضمنی الیکشن سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 51 میں ہونا ہے جہاں تحریک انصاف نے بروقت چوہدری یوسف آرائیں کو امیدوار بنا کر اپنی پوزیشن بہت مضبوط کر لی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) ابھی تک امیدوار کا فیصلہ نہیں کر سکی کیونکہ شوکت منظور چیمہ کی اہلیہ بھی امیدوار بننا چاہتی ہیں جبکہ شوکت منظور کا بھائی خالد بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے دوسری جانب ن لیگی رہنما افتخار چیمہ کی حمایت اپنے قریبی رشتے دار امتیاز باگڑی کیلئے ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں