جے یو آئی ف میں ٹوٹ پھوٹ سے فائدہ کس پارٹی کو ہوگا
یہ بات سامنے ہی کی ہے کہ مولانا شیرانی ایک عرصہ سے مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آئے ہیں
جمعیت علماء اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ حیران کن نہیں تاہم ٹائمنگ ایسی ہے کہ جو ہوا وہ دھماکہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔
یہ بات سامنے ہی کی ہے کہ مولانا شیرانی ایک عرصہ سے مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں پر تنقید کرتے آئے ہیں ، پارٹی کے مرکزی انتخابات کے حوالے سے پشاورکا وہ منظر بھی سب کو یاد ہی ہو گا کہ جب مولانا محمد خان شیرانی نے پارٹی کی مرکزی امارت کے لیے مولانا فضل الرحمن کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور جب ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے کاغذات واپس لیں تو انہوں نے ساتھیوں کے کہنے پر کاغذات تو واپس لے لیے تھے۔
تاہم جو تقریر کی تھی وہ کھلی، کھلی مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں پر تنتقید تھی اور اس وقت صرف مولانا شیرانی ہی باغی کے روپ میں نظر نہیں آئے بلکہ ان کے ساتھ دیگر کئی ساتھی بھی تھے جن میں مفتی کفایت اللہ مرکزی جنرل سیکرٹری کے امیدوار تھے اور ساتھ ہی صوبائی عہدوں کے لیے بھی امیدوار موجود تھے اور وہی امیدوار آج مولانا شیرانی کے ساتھ کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
حافظ حسین احمد، مولانافضل الرحمن کے قریب سمجھے جاتے تھے اور ایک عرصہ تک وہ پارٹی کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے تاہم ہر ایک پارٹی کی طرح جے یوآئی بھی عہدوں کے معاملے میں کچھ لوگوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، حافظ حسین احمد بھی ایک عرصہ سے پارٹی کا کوئی بڑا عہدہ ملنے کے منتظر ہیں تاہم مولانا عبدالغفور حیدری کے سر پر مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ ہونے کی وجہ سے انھیں آگے آنے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے دل کا غبار بالآخر پارٹی قیادت پر تنقید کی صورت باہر نکل ہی آیا ہے۔
جہاں تک معاملہ ہے مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کا تو قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ مولانا گل نصیب خان پارٹی کے صوبائی امیر ہوتے ہوئے بھی سینٹ کا الیکشن ہار گئے تھے، 2018ء میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات میں جے یو آئی کی جانب سے مولانا گل نصیب خان کے علاوہ سینیٹر طلحہ محمود بھی میدان میں تھے اور وہ بڑی سہولت کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے کیونکہ پارٹی نے بھی ان کی راہ میں پھول بچھائے تھے جبکہ مولانا گل نصیب کے حصے میں صرف چار ایم پی ایز ہی آئے تھے۔
اور صورت حال یہ تھی کہ یہ بات صرف سینٹ انتخابات تک محدود نہیں بلکہ جب پارٹی انتخابات کا انعقاد ہوا تو مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کے مقابلے میں وہ پینل میدان میں اتارا گیا کہ جس کے حوالے سے خیال کیا جا رہا تھا کہ اسے کسی اور کی نہیں بلکہ پارٹی کی ٹاپ قیادت کی براہ راست حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور یہ پشت پناہی اس وقت بھی حاصل تھی کہ جب شیخ امان اللہ مرحوم، مولانا گل نصیب خان کے مقابلے کے لیے میدان میں تھے اور مولانا گل نصیب انٹرا پارٹی الیکشن ہار گئے تھے۔
گو کہ انہوں نے شیخ امان اللہ کے ساتھ تو حساب برابر کیا تھا تاہم جہاں تک گزشتہ انٹرا پارٹی انتخابات کا تعلق ہے تو مولانا فضل الرحمن کے برادر اصغر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو صوبائی امارت کے لیے میدان میں اتارا گیا اور ساتھ صوابی سے مولانا عطاء الحق درویش کو جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر لایا گیا، مولانا گل نصیب تو ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے مقابلے سے دستبردار ہوگئے تاہم مولانا شجاع الملک میدان میں رہے اور مارجن سے انھیں شکست کھانی پڑی تھی۔
اس وقت کی آگ جو بجھ چکی تھی اس کی چنگاریوں کو ذرا سی ہوا ملنے کی دیر تھی اور یہی کچھ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک بھی مولانا شیرانی کے ہم نوا بن کر میدان میں اتر آئے، چونکہ جے یوآئی کی مرکزی قیادت نے ان چاروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر ہی پارٹی سے باہر کردیا ہے اس لیے بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جے یوآئی کے ان چاروں رہنماؤں پر پارٹی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور انھیں اب نیا ٹھکانہ تلاش کرنا پڑے گا۔
اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ چاروں رہنما جمعیت علماء اسلام (س ) کی راہ لیں کیونکہ مولانا سمیع الحق کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی پارٹی قدآور شخصیت کی راہ دیکھ رہی ہے اور اگر مولانا شیرانی کی صورت میں جے یوآئی (س) کو یہ بڑی شخصیت مل جاتی ہے تو اس سے جے یوآئی (س ) بھی پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی اور ساتھ ہی جے یوآئی ( س ) اور اس پلیٹ فارم سے مولاناشیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کو مولانا فضل الرحمن اور جے یوآئی پاکستان سے حساب برابر کرنے کا خوب ،خوب موقع مل جائے گا ۔
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مردان میں ریلی اور جلسہ کی صورت میں بڑے شوکا انعقاد ہوا ہے جس کا اصل کریڈٹ جے یوآئی اور اے این پی کو جاتا ہے کیونکہ مردان شو بنیادی طور پر ان ہی دو پارٹیوں کا شو تھا جس میں دیگر پارٹیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا، مردان میں ریلی اور جلسہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ پی ڈی ایم شہروں کے اندر اس طرح کی ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے نظام زندگی کو مفلوج کر سکتا ہے جو یقینی طور پر شو آف پاور کی ایک قسم ہے اور اسی طرح کا شوآف پاور دیگر صوبوں میں بھی ہوگا۔
تاہم پی ڈی ایم کا اصل معاملہ اسلام آباد لانگ مارچ،دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفوں کا ہے اور بات اس طرف نہیں جا رہی اور پھر خصوصی طور پر استعفوں کی طرف کیونکہ پیپلزپارٹی استعفے دینے کی راہ پر نہیں آرہی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) بھی لٹکی ہوئی ہے اور یہی صورت حال دیگر پارٹیوں کی بھی ہے جسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سینٹ انتخابات کو چھوڑیں گی بلکہ یہ ان انتخابات میں ضرور حصہ لیں گی۔
پیپلزپارٹی کا انکار ہی شاید وہ وجہ ہو کہ جس کے باعث مولانا فضل الرحمن بے نظیر بھٹو کی برسی تقریب میں شریک نہیں ہوئے حالانکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے خود انھیں فون کرتے ہوئے دعوت دی تھی اور امکان تھا کہ بے نظیر بھٹو کی برسی بھی پی ڈی ایم کا بڑا شو ثابت ہوگا تاہم مولانا فضل الرحمن کی مذکورہ تقریب میں عدم شرکت ان کی ناراضگی ظاہر کر رہی ہے جس کے تناظر میں 2 جنوری کو پی ڈی ایم کا منعقد ہونے والا سربراہی اجلاس گرما گرم ہوگا جس میں یقینی طور پر سارے معاملات زیر بحث لائے جائیں گے۔
انہی حالات میں خیبرپختونخوا اسمبلی سے لیگی ایم پی اے سردار اورنگزیب نلوٹھہ اور قومی اسمبلی سے لیگی رکن مرتضیٰ جاوید عباسی کے استعفوں کے حوالے سے عجیب صورت حال پیدا ہوئی کیونکہ مذکورہ ارکان کے بقول انہوں نے اپنے استعفے پارٹی قیادت کو ارسال کیے جبکہ دوسری جانب یہی استعفے قومی اور خیبرپختونخوااسمبلی کے سپیکرز کو بھی موصول ہوئے جو سب کے لیے باعث حیرت ہے جس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے کہ یہ استعفے سپیکرز چیمبرز تک کیسے اور کن کے توسط سے پہنچے؟
اب چونکہ موجودہ حکومتوں کا تیسرا سال جاری ہے اس لیے خیبرپختونخواکی حکومت اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے اہم اقدامات کرنے جا رہی ہے جن میں انصاف سہولت کارڈز کا اجراء تو یقینی طور پر بڑا اقدام ہے ہی تاہم اس کے علاوہ وزیراعلیٰ محمودخان نے دیگر بڑے منصوبوں پر بھی پورا فوکس کر رکھاہے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ ایک سے زائد بار سرکاری محکموں کو ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ ترقیاتی منصوبے اپنی ٹائم لائن کے اندر ہی رہتے ہوئے مکمل کیے جائیں جس سے نہ صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی آئندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھا پائے گی بلکہ ساتھ ہی چوتھے اور پانچویں وآخری سال کے دوران تھروفارورڈ بھی کم ہوگا اور نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔