فلاحی ادارے یا کباڑ کی دکانیں
کاغذی کارروائی مکمل کر کے میں باہر نکلی تو بے اختیار نظریں اس وجود پر جم گئیں۔
اسٹریچر پر پڑا یہ جسم ساٹھ سالہ بوڑھا نسوانی وجود ہے۔ پیدا کرنے والے نے اسے بھی ایسے ہی رشتوں کے درمیان زمین پر اتارا ہوگا جیسے مجھے اور آپ کو۔ لیکن رشتے اور وارث کے لفظ میں اتنا فرق ہوتا ہے اس کا مجھے آج سے پہلے اندازہ نہ تھا۔
اس حقیقت سے بھی آج ہی شناسائی ہوئی کہ بے شمار رشتوں میں گھرے ہونے کے بعد بھی ممکن ہے کہ آپ کا کوئی وارث نہ ہو اور ایسے بدقسمت لوگ وقت کی کسی بھی دہلیز پر فالتو سامان کی طرح کہیں بھی جمع کروانے جاسکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک وجود کو جمع کروانے کے لیے آج میں ایدھی سینٹر میں بیٹھی بلقیس ایدھی کے نام درخواست لکھ رہی تھی۔ میرے آس پاس موجود چہرے اس کے حقیقی رشتے تھے اور باہر ایمبولینس میں پڑی وہ عورت اپنی اس تقدیر سے سرے سے بے خبر تھی جو قدرت میرے ہاتھوں لکھوا رہی تھی۔
کاغذی کارروائی مکمل کر کے میں باہر نکلی تو بے اختیار نظریں اس وجود پر جم گئیں۔
بے بسی بوڑھی کلائیوں میں لرز رہی تھی۔ سفید بال چہرے پر بکھرے زندگی کی تیز دھوپ کا دکھڑا سنا رہے تھے اور بالوں کے پیچھے سے جھانکتی آنکھیں ساکت تھیں۔ یوں جیسے کچھ کہنے کو نہ بچا ہو۔ قوت گویائی شاید وقت کے ہاتھوں ایسے ہی سولی پر لٹک جاتی ہے۔
آخری کوشش، ہاں شاید آخری کوشش کے طور پر کم زور کلائیوں نے اسٹریچر پر لیٹے لیٹے گاڑی کی چھت پکڑ لی کہ شاید وقت کو مزید ظالم ہونے سے روک سکے، لیکن بوڑھی عقل کو کیا پتا کہ وقت ظالم نہیں ہوتا بلکہ لوگ ظالم ہوتے ہیں۔ ایک جھٹکے سے ہاتھ واپس اسٹریچر پر تھا اور بوڑھا وجود ایدھی سینٹر کے اندر کہیں غائب ہوچکا تھا۔
اس کو آہستہ آہستہ نظروں سے دور ہوتا دیکھ کر میں سوچتی رہی کہ اگر اس عورت کی لمبی چوڑی جائیداد ہوتی تو اب تک بے شمار وارث جانے کہاں کہاں سے نمودار ہوچکے ہوتے۔ کتنے ہاتھ اس کے خدمت گزار بن گئے ہوتے۔ ہر کوئی اسے اپنے گھر رکھنے کے لیے بے چین ہوتا۔ بہنیں آپس میں لڑتیں، بھاوجیں نند کی محبت میں منہ پھلا لیتیں، بھائی گاڑی لیے دروازے پر کھڑے ہوتے، بڑھاپے میں ناز برداریاں ہوتیں، لاڈ اٹھائے جاتے۔ لیکن یہاں تو وہ بے سرو سامان تھی، گویا کسی کے کام کی نہیں تھی۔ ایسے بے مصرف لوگوں کے لیے فلاحی اداروں کی صورت میں گویا کباڑ کی دکانیں کھلی ہیں، جہاں اپنے کسی ایسے ہی فالتو رشتے کو لا کر بہ آسانی پھینکا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ دولت بھی ایک بہت بڑا سہارا ہوتی ہے۔ جہاں اپنے اور پرائے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں وہاں دولت سہارا بن جاتی ہے اور انسان کو بہت سی پریشانیوں سے بچا لیتی ہے۔
اس وقت بہت سی سوچیں ہیں جو دماغ میں جھکڑ کی طرح چل رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان میں اوسط عمر نہایت کم ہونے کے اعدادوشمار پر بڑی بڑی بحثیں تو کی جاتی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہاں زیادہ جی کر آخر کرنا کیا ہے۔ بزرگ افراد جو ہر معاشرے کا لازمی حصہ ہیں ان کے لیے ریاستی سطح پر بھلا کون سے فلاحی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ خاندانی اقدار کی حفاظت کے لیے کون سی تربیت کی جارہی ہے؟ اگر جواب ندارد ہے جو یقیناً ہے تو پھر کیوں اس سفاک معاشرے کے رحم و کرم پر اپنا بڑھاپا چھوڑا جائے اور کیوں نہ اوسط عمر کم ہونے پر شکرانہ ادا کیا جائے۔
میرا خیال ہے وہ لوگ ٹھیک کرتے ہیں جو ساری عمر صرف جائیدادیں کھڑی کرنے کو زیست کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ شاید بڑھاپے اور ہمارے سماج میں اس لفظ سے جڑے خوفناک خدشات کا کم سے کم شکار ہوتے ہیں۔ ان کو یہ خوف موت سے پہلے مارنے کو تلا نہیں ہوتا کہ بڑھاپے میں بے آسرا رہ کر رُل جائیں گے، کیوں کہ آج کی دنیا کے اصول کے مطابق جتنا سامان زیست ہوتا ہے اتنے ہی بڑھاپے کے وارث نکلتے چلے آتے ہیں اور جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ بس چار سطروں کی مار میں لاوارث قرار دے کر کہیں بھی جمع کروا دیے جاتے ہیں۔
اس وقت دل چاہ رہا ہے کہ اس جنگل نما دنیا سے کہیں دور بھاگ جائوں۔ تصور میں بہت سے کم زور اور بوڑھے چیختے چلاتے بزرگوں کے درمیان خود کو گھرا محسوس کر رہی ہوں۔ کیسی بے بسی ہے۔ سالوں ساتھ رہ کر بھی انہیں یہ نہیں پتا کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ کون ساتھ دے گا کون چھوڑ جائے گا، بگڑتا خانگی منظرنامہ افراد میں اس خوف کو بڑھاوا دیے جا رہا ہے کہ ان کا بڑھاپا انسانی کباڑ کی کس دکان میں گزرے گا۔
پاکستان میں تیزی سے ہونے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں نے یہاں بسنے والوں کی قسمت بھی بدل ڈالی ہے۔ ان تبدیلیوں کے لازمی نتیجے کے طور پر جہاں ہر فرد آگے کے سفر کے لیے غیریقینی صورت حال کا شکار ہے ایسے ہی بزرگ افراد کے لیے شیلٹر ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ساری زندگی بدترین حالات جھیل کر ان بزرگوں کی ذہنی صحت بھی ایسی نہیں رہتی کہ جیون گاڑی کو آپ ہی دھکا لگا سکیں۔
میرے خیال میں جہاں جائیداد کے بے شمار وارث ہوں لیکن انسان کا کوئی والی وارث نہ ہو ایسے میں انسان کا وارث بس ایک تالی رہ جاتی ہے۔ وہ تالی جو سماج ان پر بجاتا ہے، جس کی آواز سماعتوں کو چیرے ڈالتی ہے۔ اس تالی کو بجانے والے اپنے بھی ہیں اور غیر بھی، حاکم بھی ہیں اور مُلا بھی۔ ان سب کی تالیوں میں ہم بچپن سے جوانی اور پھر جوانی سے اس دہلیز میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں موت سے بدتر بڑھاپا ہمیں اپنا منتظر ملتا ہے۔
میرے لیے اس وقت زیادہ تشویش کا باعث وہ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2023 تک پاکستان میں اوسط عمر بَہَتّر سال تک پہنچ جائے گی۔ میں اگر مغربی معاشرے کا حصہ ہوتی تو یہ رپورٹ مجھے خوابناک دنیا میں لے جاتی جہاں میں اپنا بڑھاپا خوب صورتی سے پلان کرتی لیکن میں جس لاوارث معاشرے کا حصہ ہوں وہاں یہ خبر پڑھ کر سر پیٹنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ وقت تو بیت گیا جب بزرگوں کی تکریم ہماری سب سے قیمتی سماجی قدر سمجھی جاتی تھی، اب یہ ذمہ داری مختلف این جی اوز اور کیتھولک چرچز کے کاندھوں پر آتی جارہی ہے۔ اولڈ ہومز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور رشتوں کی بے حسی کے بارے میں اگر اب بھی کچھ نہ سوچا گیا تو سمجھئے کہ مستقبل قریب میں بڑھاپا سوائے درد بھری کہانی کے کچھ بھی نہیں ہو گا۔