سیاسی کلچر
اپوزیشن ہر قیمت پر حکومت کو گرانا چاہتی ہے لیکن اسے کوئی ایسا موقعہ نہیں مل رہا ہے جو حکومت کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔
MUMBAI:
دنیا میں جمہوری کلچر متعارف ہے اور ہر ملک میں عموماً جمہوریت رائج ہے لیکن ہمارے ملک کی اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ ہمارا ملک ابھی مغل امپائر کے دور سے باہر نہیں نکلا، چند ایلیٹ کے قائدین ہیں جو سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں اور اللہ کے فضل سے سیاست پر آج بھی قابض ہیں لیکن ایک سرپھرے مڈل کلاسر نے ایلیٹ سے اقتدار بذریعہ ووٹ چھین لیا ہے۔
مڈل کلاسر کی اس گستاخی پر ساری اشرافیہ سخت ناراض ہے اور پہلے تو اس کی ایسی بے عزتی کر رہی ہے کہ اشرافیہ کی اس حرکت پر انسان غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے گو ایلیٹ کے ساتھیوں میں کچھ مڈل کلاس کی پارٹیاں شامل ہیں لیکن کیونکہ یہ مڈل کلاس کی پارٹیاں ایلیٹ کی پارٹیوں کی اتحادی ہیں لہٰذا وہ مڈل کلاسر وزیر اعظم کی توہین بھی برداشت کرتی ہیں اور اس کے خلاف زبان بھی بند رکھتی ہیں اس لیے کہ اس اتحاد میں انھیں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان بالکل نہیں۔
یہ کلچر عشروں سے جاری ہے اور کامیابی سے چل رہا تھا کہ عمران خان بیچ میں ٹپک پڑے ہماری یہ سیاسی ایلیٹ کسی قیمت پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور چاروں طرف سے مسائل کے ایسے انبار لگا رہے ہیں کہ حکومت ان میں ڈوب کر رہ گئی ہے۔
ایلیٹ کے دور حکومت کے دوران انھوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے بندوں کو ایسی ایسی اہم جگہوں، ایسے ایسے اہم اداروں میں لگا دیا ہے کہ اگر ایلیٹ کوئی ڈائریکشن دیتے ہیں تو پورے ملک میں اس پر عملدرآمد ہونے لگتا ہے ابھی کچھ دنوں پہلے گندم اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک میں ایک بے چینی کی فضا قائم ہوگئی تھی اور ہماری سیاسی اشرافیہ نے پوری کوشش کی کہ اس بے چینی کو استعمال کرکے ملک میں لاک ڈاؤن کی فضا قائم کردی جائے لیکن چونکہ پاکستانی عوام اشرافیہ کی کارگزاریوں سے پوری طرح واقف ہے لہٰذا وہ ایلیٹ کی اس سازش سے دور رہے یوں اپوزیشن ملک میں غیر یقینی کی فضا پیدا کرنے میں ناکام رہی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایلیٹ نے سیاست اور اقتدار پر اس مضبوطی سے قبضہ کر لیا ہے کہ اس قبضے کو چھڑانا آسان نہیں۔ مڈل کلاس پر مشتمل تحریک انصاف اس اتحاد کے مقابلے میں تنہا کھڑی ہوئی ہے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ ایلیٹ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ایجنٹ بھر رکھے ہیں لہٰذا وہ حکومت کو پریشان کرنے کے لیے آئے دن نت نئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک حکومت کو اقتدار سے نکال باہر نہ کریں۔
جمہوری کلچر میں برسر اقتدار حکومت کو ہٹانے کا ایک ہی معروف طریقہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے لیکن ایلیٹ کی کمزوری یہ ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے سو اس نے سارے جمہوری طریقوں کو روند کر حکومت کو یہ تڑی دی ہے کہ وہ حکومت نہ چھوڑدیں ،ورنہ لانگ مارچ شروع کردیا جائے گا اس غیر جمہوری غیر اخلاقی تڑی کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح ڈرا دھمکا کر اقتدار سے الگ کرنے پر مجبور کردیا جائے۔ یہ ساری حرکتیں ایلیٹ اس لیے کر رہی ہے کہ سیاست اور اقتدار پر اس کی بالادستی ہے۔
ایلیٹ کی سیاست میں ماضی کے وہ نامور سیاستدان شامل ہیں جو ایک عرصے سے اقتدار سے باہر ہیں یہ سینیٹر سیاسی مفادات کی خاطر ایلیٹ کے ساتھ متحد ہوگئے ہیں کسی حکمران جماعت کو اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے اس پر ایسے الزام ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام میں مقبول ہوں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے ان پر کرپشن کے الزامات تلاش کرنے کی سر توڑ کوشش کی گئی لیکن نہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام لا سکے نہ ان کی کابینہ کے خلاف ہی کرپشن کے کوئی الزام ثابت کرسکے۔
اپوزیشن ہر قیمت پر حکومت کو گرانا چاہتی ہے لیکن اسے کوئی ایسا موقعہ نہیں مل رہا ہے جو حکومت کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ اب اپوزیشن نے حکومت کو تڑی دی ہے کہ وہ 31 جنوری تک استعفیٰ دے ورنہ اس کے خلاف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ یہ تڑی بھی باسی تڑی ہی ثابت ہوئی۔
اب ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن والے مایوس ہو رہے ہیں۔ اب تک جن عوام کے ہجوم لگائے جاتے رہے وہ حکومتی موقف کے مطابق کرائے کے کہلاتے رہے۔ ہم کو امید ہے کہ اب حکومت مخالف سیاسی جماعتیں خوب سوچ بچار اور دم درود کے بعد جو لائنیں دیں گی وہ ہو سکتا ہے ان کے ایجنڈے کے آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اس حوالے سے چھوٹے میاں صاحب سے بھی رائے لی جائے، ہو سکتا ہے وہ کوئی معقول مشورہ دیں۔