گوادر کی صورت حال
برسر اقتدار حکومتوں نے ہمیشہ بلوچستان کو نظرانداز کیا ہے، اس طرح گوادر بھی ہمیشہ پسماندہ رہا۔
گوادر بلوچستان کی جنوب مغربی بندرگاہ ہے جو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع ہے، اس کی آبادی 90ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ خان قلات نے 1783 میں گوادر کو سلطنت اومان کے حوالے کیا تھا۔ 1958 میں فیروز خان نون کی وزارت عظمی میں دفاع کے وزیر مملکت اکبر بگٹی کی کوششوں سے اومان نے گوادر پاکستان کے حوالے کیا۔ حکومت پاکستان نے سلطنت اومان کو 3 ملین ڈالر ادا کیے۔
معروف صحافی عزیز سنگھور کا کہنا ہے کہ نواب اکبر بگٹی نے ایک انٹرویو میں اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا۔ ایک معروف بلوچ مصنف عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ بھارت نے پہلے سلطنت اومان کے حکمرانوں سے گوادر پٹہ پر حاصل کرنے کے لیے بات چیت شروع کی تھی۔ اومان برطانیہ کے زیر تسلط بھی رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت کو اس صورتحال سے آگا ہ کیا تھا جس پر سر فیروز خان نون کی حکومت نے اومان کے شاہ سے رابطہ کیا، یوں گوادر 1958 میں پاکستان کا حصہ بن گیا۔
برسر اقتدار حکومتوں نے ہمیشہ بلوچستان کو نظرانداز کیا ہے، اس طرح گوادر بھی ہمیشہ پسماندہ رہا۔ 80کی دہائی میں گوادر کی ترقی کے منصوبوں کی بازگشت سنائی دی اور دیکھتے ہی دیکھتے گوادر میں تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا' اس میں کراچی کے سرمایہ کاروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں گوادر کی قیمتی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی کا منصوبہ شروع ہوا۔ اس وقت کی حکومت نے بھی گوادر میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کی۔ بلوچستان کی قوم پرست تنظیموں نے گوادر کے حوالے سے اعتراضات کیے۔
ان تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں سے آبادی کی گوادر منتقلی سے مقامی افراد اقلیت کا شکار ہوجائیں گے۔ ان رہنماؤں کا مدعا تھا کہ گوادر کے حقیقی باسیوں کو امریکا کے ریڈ انڈین باشندوں کی طرح اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے آئینی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ کراچی کے سرمایہ کاروں کی رئیل اسٹیٹ میں دلچسپی کم ہوئی۔ بلوچستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے گوادر کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے، یوں یہ کاروبار ٹھنڈا پڑ گیا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں سی پیک کا پروجیکٹ شروع ہوا۔ سی پیک چین کے صوبہ سنگ کیانگ سے شروع ہو کر گوادر میں ختم ہوتا ہے۔ سی پیک منصوبہ کے تحت گوادر میں فائیو اسٹار ہوٹل سمیت دیگر تعمیرات شروع ہوئیں۔ چینی ماہرین کی مدد کی بناء پر گوادر کی بندرگاہ کی جدید خطوط پر تعمیر مکمل ہوئی۔ گوادر سڑک کے جدید نظام کے ذریعہ چین کے صوبہ سنگ کیانگ سے منسلک ہوا مگر جدید سڑکوں کی تعمیر کے باوجود گوادر کا احساس محرومی دور نہ ہوسکا۔
گوادر گزشتہ سال دہشت گردی کا نشانہ بنا اور سیکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہوئی۔ سی پیک کے منصوبہ کے ذریعہ گوادر شہر کی منصوبہ بندی کے چرچے ہونے لگے، مگر گوادر کے شہریوں کے لیے پانی کی فراہمی کی کوئی اسکیم شروع نہیں ہوئی، یوں یہ شہر پانی کی قلت کا شکار رہا۔ دسمبر کے مہینہ میں گوادر شہر کو تاروں کی باڑ کے ذریعہ تقسیم کرنے کا کام شروع ہوا۔ گوادر میں باڑ لگانے کی گونج چین تک میں سنائی دی گئی۔ عزیز سنگھور نے اپنا بلاگ میں لکھا ہے کہ گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ گوار اور در سے بنا ہے جس کے معنی ہوا کا دروازہ ہیں۔
اب یہ ہوا کا دروازہ بند ہورہا ہے، گوادر شہر کے گرد باڑ لگانے کا آغاز ہوگیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ اور کبیر شاہی نے خاردار تاروں کی تنصیب کو گوادر کو بلوچستان کے علیحدہ کرنے کے منصوبہ کا پہلا مرحلہ قرار دیا اور اس منصوبہ کا حتمی مقصد گوادر کو وفاق کی تحویل میں دینا ہے۔ ان رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ گوادر اور اس کے نزدیک کے جزائر کو وفاق کی تحویل میں دینے کے لیے کوسٹل اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ ایسا ہی مؤقف اختر مینگل نے اختیار کیا۔ اگرچہ گوادر کی ضلع انتظامیہ کا یہ دعویٰ تھا کہ گوادر میں خاردار تار لگانے کا منصوبہ 10 سال پرانا ہے اور اس منصوبہ کا گوادر کے موجودہ ترقیاتی منصوبہ سے کوئی تعلق نہیں مگر لوگوں کے خدشات دور نہ ہوئے ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے صورتحال کی سنجیدگی کو محسوس کیا اور یہ منصوبہ معطل ہوا۔
بلوچستان میں صورتحال غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے تعلق رکھنے والا نیٹ ورک بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی مذموم سازش کررہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس نیٹ ورک سے منسلک گروہوں کا قلع قمع کیا ہے ۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اختر مینگل نے وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔
دو سال قبل جب سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اختر مینگل نے حزب اختلاف کے امیدوار حاصل بزنجو کی حمایت نہیں کی تھی مگر اختر مینگل کی جماعت بی این پی بھی مخالف جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بن چکی ہے۔ حقائق کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور سابقہ ادوار میں بعض وجوہات کی بناء پر یہ مایوسی بڑھ گئی ہے۔
مگر وفاقی حکومت صورتحال کا ادراک نہیں کرپارہی اور بلوچ نوجوانوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے حقیقی اقدامات پر توجہ نہیں دے رہی۔ وفاقی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور اس کے اسبا ب کے خاتمہ کے لیے قومی مباحثہ شروع کریں۔ اس مباحثہ میں ملک کے اندر موجود سیاسی گروپوں کے علاوہ یورپ اور امریکا میں موجود گروہوں کے ارکان کو بھی شامل کیا جائے اور اس مباحثہ کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے دوررس اقدامات کرے۔ یہ پوری قوم کے لیے حکومت کی جانب سے نئے سال کا تحفہ ایک نئی تاریخ کا آغاز کرے گا۔