راوی کنارے شہر اور عدلیہ

حکومت کی سنجیدگی سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا، مگر عدلیہ آڑے گئی


لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے، محکمہ ماحولیات کے مکمل جائزے اور منظوری تک کام روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے صرف دو سال بعد 1949 میں ڈپٹی کمشنر لاہور ظفرالاحسن نے راوی کے کنارے ایک نیا شہر بسانے کا خاکہ پیش کیا۔ مگر پھر وسیع تر ملکی مفاد میں یہ منصوبہ سردخانے کی نذر ہوگیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ نوے کی دہائی میں ایک بار پھر اس منصوبےکا چرچا ہوا، مگر بات صرف باتوں تک ہی محدود رہی۔ 2005 میں چوہدری پرویز الٰہی کے وزارت عظمیٰ کے دور میں اس منصوبے پر باقاعدہ منصوبہ بندی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے کہ بات قول سے نکل کر فعل تک آتی، وطن عزیز کی بدقسمتی کہ چوہدری صاحب کی حکومت کا وقت پورا ہوگیا، اور یوں ایک بار پھر یہ شہر بسنے سے پہلے ہی یتیم ہوگیا۔ 2011 میں شہاز شریف کے دور حکومت میں ایک بار پھر یہ منصوبہ زیر بحث آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بار بھی بات نوٹیفکیشن اور ویڈیو ڈاکومنٹری سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور پھر یوں ہوا کہ خان صاحب کی حکومت آگئی۔

خان صاحب کو یہ منصوبہ اس لیے بھی سوٹ کرتا تھا، کیونکہ آپ نے اقتدار میں آنے سے قبل 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ اس بار بات کتابوں اور باتوں سے نکل کر عمل تک آئی۔ منصوبے کا افتتاح ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت راوی ریور فرنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کردیا گیا (حالانکہ راوی ریور اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے نام سے ایک ادارہ پہلے سے موجود ہے)۔ حکومت کی سنجیدگی سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب کی بار یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا، مگر پھر یوں ہوا کہ عدلیہ آڑے گئی۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے، محکمہ ماحولیات کے مکمل جائزے اور منظوری تک کام روکنے کا حکم دے دیا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ وہی عدلیہ ہے جہاں زیر التوا کیسز کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، جہاں غریب آدمی کا کیس چلا جائے تو کئی ماہ، بلکہ بعض اوقات تو سال تک کیس کا نمبر ہی نہیں آتا۔ انصاف کی رفتار اس قدر سست ہے کہ 'دادا کیس کرے اور پوتا فیصلہ لے' کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ زندہ لوگ کیس کرتے ہیں، مگر فیصلہ آنے تک مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ غریب کا جج کبھی گرما کی چھٹیوں پر ہوتا ہے تو کبھی وکلا کے عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے غریب انتظار کی سولی پر لٹک جاتا ہے۔ لیکن اس تعفن اور بدبودار نظام میں بھی طاقتور اور ایسے کیسز کا نہ صرف نمبر آجاتا ہے بلکہ مسلسل شنوائی ہوکر ان پر فیصلہ بھی آجاتا ہے۔ اس طرح کے فیصلے عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثبت کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس پہلے لاہور ہائی کورٹ نے جنوری 2016 میں اورنج لائن ٹرین پر کام روکنےکا حکم دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے اس منصوبے پر 22 ماہ تک کام بند رہا۔ عدلیہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ مفادعامہ کے کیسز میں کام روکنے کا حکم دینے کے بجائے، کچھ ایسی صورت اختیار کی جائے کہ کام جاری رہے اور غلطیوں کی درستگی بھی ہوجائے، نہ کہ کام روکنے کا حکم جاری کرکے منصوبے کو غیرضروری طوالت کا شکار کرکے ملکی وسائل کا ضیاع کیا جائے۔ مزید برآں کوشش کی جائے جیسے خواص کےلیے چھٹی کے دن بھی عدالت لگادی جاتی ہے، عوام کو بھی یہ سہولت میسر ہو۔

بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ منصوبے کے متعلق ہونے والے حالیہ جائزہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ماحولیاتی تحفط کے تمام تقاضے پورے کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ خان صاحب کی سنجیدگی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ منصوبہ ماضی کی طرح سست روی کا شکار ہوکر سردخانے کا شکار نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی سرکار نہ صرف اس منصوبے کو بطریق احسن تکمیل تک پہنچائے گی بلکہ اس شہر کو قبضہ مافیا، پانی کی فراہمی، زرعی زمینوں کا تحفظ، اور دیگر مسائل سے بچانے پر بھی توجہ مرکوز کرے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے، کچھ اس طرح قانون سازی کی جائے کہ آنے والی حکومتیں اس منصوبے پر کام نہ روک سکیں اور یہ منصوبہ بلاتاخیر پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ مستقبل میں عدالتی مداخلت سے بچا جاسکے۔ میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے تاکہ ملکی ترقی کے ضامن اس منصوبے کو کرپشن اور اقربا پروری سے داغدار نہ کیا جاسکے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر عدلیہ کی غیر ضروری مداخلت اور حکومت کی نیک نیتی شامل رہی تو یہ منصوبہ ملکی معیشت کو عروج دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں