قومی اداروں کے ملازمین کی حالت زار
سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی زبانی کلامی ہمدردی اور بیان بازی کا سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد صنعتکاروں نے اس نوزائیدہ ملک کے مستقبل اور اس کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے گراں قدر ، بیش بہا قربانیاں اور خدمات سرانجام دیں جس سے لگتا تھا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔ لیکن پھر بدقسمتی سے سیاسی نا اہلی، بے جا دخل اندازی، غلط پالیسیوں،کرپشن اور سیاسی لوٹ مارکی وجہ سے ترقی سے تنزلی کا سفر شروع ہو گیا جس کی طویل داستان ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آج حکومتی ادارے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں، ان کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے خودکشی اور دیگر جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ نو ماہ میں یہ ادارے مزید 294 ارب روپے کے مقروض ہوگئے ہیں۔
ریلوے، پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے عوامی اور دفاعی نوعیت کے ادارے ختم ہونے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں، دوسری جانب سیاسی اشرافیہ کی اپنی ایئرلائنز اور اسٹیل ملیں ترقی کی منزلیں چھو رہی ہیں۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بھی دن دگنی رات چو گنی ترقی کر رہی ہے مگرریلوے کو بندکرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی لوٹ مار، کرپشن و نااہلی کی بنا پر خسارے سے دوچار ہونے والے اداروں کو منافع بخش بنانے کے بجائے ان کی نجکاری کا جواز تلاش کیا جا رہا ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے، حکمران، سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کے افراد اپنے اپنے مفادات اور عزائم کے ساتھ شریک ہیں۔
ایک فضائی حادثے کے بعد پاکستانی پائلیٹس کے جعلی لائسنسوں کا انکشاف کرکے نہ صرف دنیا بھرکی ایئرلائنوں میں ملازم پاکستانی پائلیٹس کے لیے مشکلات کھڑی کردیں گئیں بلکہ پاکستانی ایئرلائنوں کو بھی مسائل سے دوچارکردیا گیا، جس کی وجہ سے وہ غیر ضروری جانچ پڑتال اور پابندیوں کا سامنا کر رہی ہیں جن میں مزید توسیع ہوتی جا رہی ہے جس سے انھیں اربوں روپے کا خسارہ پہنچ چکا ہے، ہر حکومت اور حکمران کی طرح موجودہ حکومت بھی اقتدار میں آنے سے قبل قومی اداروں اور اسی سے وابستہ افراد کی خیر خواہی کا دم بھرتے نہیں تھکتی تھی اور ان اداروں کو خسارے سے نکال کر منافع بخش بنانے کے دعوے کرتی تھی۔
ملائیشیا کے رول ماڈل کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں لیکن عملی طور پر اب تک کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسٹیل ملز کو تو تقریباً ختم کردیا گیا ہے گوکہ یہ کام آمر پرویز مشرف بھی نہیں کرسکا تھا اس کے علاوہ ریلوے، پی آئی اے و دیگر اداروں کو بھی ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چند ماہ پیشتر اسد عمر نے یہ نوید سنائی تھی کہ وہ حکومتی اداروں کی اصلاح احوال کے لیے نیا قانون لا رہے ہیں لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
اسٹیل ملزکو پرائیویٹ کرنے کے لیے کاؤنسل آف کامن انٹرسٹ میں پالیسی وضع کرنے کے بجائے وزیر اعظم کے زیر صدارت وفاقی کابینہ میں اس کی نجکاری کی منظوری لے لی گئی۔ قانونی ماہرین اس اقدام کو غیر آئینی اور معاشی ماہرین اسٹیل ملزکی بندش کو معاشی غلامی سے تعبیرکررہے ہیں۔ سندھ حکومت کی نظریں اسٹیل ملز کی اراضی پر ہیں تو وفاق کی نظریں اس کے اثاثوں پر ہیں، سیاسی اشرافیہ اور بیورو کریسی کے بھی اپنے عزائم و مفادات ہیں۔ 2013 سے اسٹیل ملزکے ریٹائرہو جانے یا مر جانے والے ملازمین کی واجبات کی ادائیگی تاحال نہیں ہو پائی ہے نہ اس دوران ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ ہوا ہے ملازمین کو تنخواہیں بھی تین یا چار ماہ بعد ادا کی جاتی ہیں۔
اب عدالت عالیہ کی کاوشوں کے نتیجے میں ریٹائر ہو جانے والے اور وفات پا جانے والے ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وصولی کے لیے ملازمین اور ان کے لواحقین کا جمگھٹا عدالتوں میں نظر آتا ہے ان سات سالوں میں وفات پا جانے والے ملازمین کو واجبات کی وصولی کے لیے عدالتوں میں وراثت کے لیے کیسز داخل کرنا پڑ رہے ہیں جن میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر بروقت ادائیگیاں کر دی جاتیں تو یہ لوگ مالی مشکلات اور ان غیر ضروری قباحتوں سے بچ جاتے۔ اب بیک جنبش قلم 5 ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے جو سراسر زیادتی و ظلم ہے۔
ملز ملازمین کا موقف ہے کہ اسٹیل ملز کا معاملہ دیگر صنعتوں سے قدرے مختلف ہے یہاں ہیٹ، ڈسٹ، ہیزرڈ اور مضر صحت ماحول اور گیسوں کی موجودگی میں کام کرنے کی وجہ سے ملازمین کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی جگہوں پر محنت کشوں سے چند سال سے زیادہ کام نہیں لیا جاتا ہے ان کی صحت اور طبی ضروریات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں ان معیارات پر عمل نہیں کیا جاتا ہے دوسرے یہ کہ مخصوص ٹیکنالوجی ہونے کی وجہ سے باہر کے صنعتی اداروں میں ان ملازمین کو ملازمت کے مواقع بھی میسر نہیں آتے ہیں ہزاروں ملازمین کو جبری بے روزگار کرنے پر ملازمین سراپا احتجاج اور نوحہ خواں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو کام فوجی ڈکٹیٹر نہیں کر پایا وہ کام عوامی حکومت کر رہی ہے۔ اسٹیل ملز کے برطرف ملازمین نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے سامنے مظاہرہ اور نعرے بازی کی اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری طلب کرلی گئی تھی۔ ملازمین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس مسئلے پر ازخود نوٹس لینے کے لیے تحریری درخواست جمع کرائی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جبری برطرفیوں کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
پرویز مشرف کے دور میں جب اسٹیل ملز کو 20 ارب روپے کے عوض فروخت کرنے کی کوششیں کی گئیں تو سپریم کورٹ نے ازخود کارروائی کرتے ہوئے اس کی نجکاری رکوائی تھی اور اس کی نج کاری کی صورت میں اس کے قانونی طریقہ کار کو بھی واضح کیا تھا اس مرتبہ بھی اسٹیل ملز کے ملازمین اور عوام کی نگاہیں عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کے مسئلے کے حل کے لیے حکومت سندھ نے ایک آفیشل کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے کنوینر ناصر حسین شاہ جب کہ صوبائی وزیر سعید غنی، وقار مہدی اور مرتضیٰ وہاب اس کے ممبر ہوں گے جو ادارے کی مجوزہ نجکاری اور ملازمین کی جبری برطرفیوں سے متعلق وفاقی حکومت سے بات کرے گی۔
سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی زبانی کلامی ہمدردی اور بیان بازی کا سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے آیندہ چند ماہ میں صورتحال سامنے آجائے گی کہ پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کا مستقبل کیا بنے گا۔