’’ہرکمال راہ زوال…امریکا‘‘
امریکا اس وقت مجموعی طور پر 15ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہے۔
تاریخ اقوام عالم مختلف تہذیبوں اور قوموں کے عروج و زوال سے بھری پڑی ہے۔ ان تہذیبوں اور اقوام کے عروج و زوال کی داستانیں محققین اور صاحب نظر افراد کے لیے بڑے سبق لیے ہوئے ہیں۔ قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، یہ قانون ہر حکمران، قوم اور تہذیب پر لاگو ہے۔ تاریخ میں صرف وہی حکمران، قومیں اور تہذیبیں زندہ رہتی ہیں جنھوں نے اپنے دور میں حقوق العباد کو مقدم سمجھا اور قانون قدرت پر عمل کیا۔
تاریخی کتابوں اور آثار قدیمہ میں ان تہذیبوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں جن کا جادو کبھی سر چڑھ کر بولا کرتا تھا۔ یونان اور روما کی تہذیبیں، میسو پو ٹیمیا کا دور، بابل اور نینوا کے کھنڈرات ، ہاروت و ماروت، قارون، ہمورابی، بخت نصر، سکندر اعظم، سائرس، سومیری، اکاڈی، اشوری، کلدانی، حطی، آرمینی، سیتھائی اور فرجیائی اقوام ،چنگیز اور ہلاکو خان کے عروج و زوال کے قصے اور کہانیاں اب تاریخ اقوام عالم کا حصہ بن چکی ہیں۔اموی، عباسی، ۔خلجی اور مغلیہ دور اب قصہ پارینہ ہے۔
امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔مجھے امریکا جانے کا بارہا موقعہ ملا ، میں جب پہلی مرتبہ امریکا گیا تو ٹوئن ٹاور بھی محفوظ تھا اور پورا امریکا امن و سکون کا ایک گہوارا لگتا تھا۔ ٹوئن ٹاور کی لفٹ (Lift) نے جس سرعت سے چند لمحوں میں سیکڑوں فٹ بلند عمارت تک ہمیں پہنچایا وہ امریکا کی تیز ترین ترقی کا مظہر تھی۔ نیو یارک، واشنگٹن، کیلیفورنیا، لاس اینجلز، اٹلانٹا غرضیکہ میں جہاں بھی گیا امریکا اور امریکی چھائے ہوئے نظر آئے۔ نائن الیون سے پہلے میںجب بھی امریکا سے واپس وطن روانہ ہوا تو میرے میزبان ائیر پورٹ کے ایپرن تک چھوڑنے آئے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں مسافر جہاز کی سیڑھیوں کے بجائے ایک Walk way( متحرک سرنگ) کے ذریعے جہاز میں داخل ہوتے ہیں، اس جگہ تک میزبانوں اور مسافروں کی کوئی سیکیورٹی چیکنگ نہ تھی۔ نائن الیون واقعے کے بعد میں جب امریکا گیا تو ایسا لگا کہ ہم ایک سیاح یا مسافر نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ امیگریشن اور چیک ان کے مراحل ایک سزا سے کم نہیں۔نائن الیون سے پہلے میں جب امریکا گیا تو میرے تحت الشعور میں یہ بات کئی بار ابھری کہ یہ تہذیب اب اپنی Perfection پرہے۔اور یہ خیال بھی آیا کہ جو چیز Perfect ہو جاتی ہے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے لیکن اس وقت یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ عمل کب اور کس طرح شروع ہو گا۔
مجھے ایک رپورٹر کی حیثیت سے صومالیہ کی خانہ جنگی، عراق اور افغانستان کی جنگ کو رپورٹ کرنے کا موقعہ بھی ملا ہے۔ ان ممالک میں امریکا کے جارحانہ عزائم اور انسانی حقوق کی پامالی کے جو مناظر میں نے دیکھے ان کا خمیازہ بھی تو آخر امریکا نے ہی ادا کرنا ہے۔ امریکا، عراق جنگ کے چشم دید واقعات تو میں نے اپنی تصنیف ''میں نے بغداد جلتے دیکھا'' میں رقم کر دیے ہیں لیکن صومالیہ اور افغانستان میں جس بربریت اور سفاکی سے انساسیت کا قتل ہوا،دنیا بھر کے ممالک میں Black Water کے ذریعے جو آپریشنز اور ظلم کیے گئے ہیںان کو ضبط تحریر میں لانا ابھی باقی ہے۔
امریکا کو ان سب اقدامات کا جواب تاریخ کو دنیا ہے؟ یہی وہ عوامل ہیں جو امریکا کے زوال کا سبب ہیں۔ افغانستان میں امریکا اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سر نگوں ہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سپر پاور ہونے کے باوجود امریکا کو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ امریکا کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ عام امریکی پریشان ہے۔امریکا اور یورپی طاقتوں کو اپنی جس سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر زون تھا تھا اس کا سر نگو ں تو ایک ایسے وائرس نے کر دیا جسے خوردبین سے بھی نہ دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکا اس وقت مجموعی طور پر 15ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہے۔ امریکا کو سب سے زیادہ قرض چین نے دیا ہے جو ایک اعشاریہ پندرہ ٹریلین ڈالرز ہے۔ دوسرا بڑا ملک جاپان ہے ان کے علاوہ امریکا برطانیہ،برازیل، تائیوان، ہانگ کانگ، روس، سوئیزرلینڈ، کینیڈا، لگسمبرگ، جرمنی، تھائی لینڈ، سنگاپور کا مقروض ہے۔ امریکا کی اسٹاک ایکسچینج بھی مندی کا شکار ہے۔ ا ن تمام حقائق کا جائزہ لینے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکا اب ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں۔
رہی سہی کسر امریکا کے صدر ٹرمپ نے پوری کردی۔ صدر ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے جس طرح امریکی جمہوریت، رواداری اور سپر پاور کے بھرم کا پردہ چاک کیا ہے، وہ امریکی نظام معاشرت کو مقافات عمل کی طرف لے گیا ہے۔تاریخ اقوام عالم پر نظر رکھنے والے اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی معاشرتی،سیاسی اور معاشی نظام زوال پذیر ہے او ر اس کی دھاک ختم رہی ہے۔
تاریخ کا عمل شروع ہو چکا ہے! ہر کمال راہ زوال...