سیاحت کا فروغ کیسے ممکن ہوگا
حکومت نے سیاحت کوترقی دینے کے لیے بہت سی نئی پالیسیاں لانے کا اعلان کیا تاہم ابھی تک ہم ان کے نتائج نہیں دیکھ سکے ہیں۔
پاکستان میں سیاحت کے لا تعداد مواقعے موجود ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو لازوال حسین وادیوں سے مالامال کیا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ابھی تک ان مواقعے سے فائدہ اٹھا نہیں سکا ہے۔
موجودہ حکومت نے سیاحت کو ترقی دینے کے لیے بہت سی نئی پالیسیاں لانے کا اعلان کیا تا ہم ابھی تک ہم ان کے نتائج نہیں دیکھ سکے ہیں۔ سیاحت کو ترقی دینے کے لیے شمالی علاقہ جات میں انفرا سٹرکچر میں جس ترقی کی ضرورت ہے،اس کی بھی کوئی پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔
اس سے پہلے کہ میں پاکستان میں سیاحت کے مواقعوں اور اس حوالے سے دیگر پہلوؤ ں پر بات کروں۔ میں ایک حال ہی میں ہونے والے ایک واقعہ کی طرف حکومت پاکستان کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں لاہور سے یونیورسٹی سطح کے طلبا و طالبات کا ایک گروپ سیاحت اور برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے مالم جبہ گیا۔ طلبا و طالبات کا یہ گروپ وہاں ایک مقامی ہوٹل میں ٹھہرا۔ سارا دن برفباری اور خوب سردی سے لطف اندوز ہونے کے بعد شام کو نوجوانوں نے ہوٹل کے اندر میوزک پروگرام کا اہتمام کیا۔ ڈی جے لگایا اور گیت سنے گئے اور ساتھ ساتھ طلبا و طالبات نے موسیقی پر ڈانس بھی کیا۔
پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے جو آفیشل ڈیجیٹل اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں، ان اکاؤنٹس سے ان طلبا و طالبات کی ڈانس کرتی ایک ویڈیو بھی شئیر کی گئی ۔ جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک سیاحتی مقام مالم جبہ ہے۔ جہاں اس وقت سردی اور برفباری ہو رہی ہے۔ اور ایک نجی یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کا گروپ وہاں پر شام کو نہ صرف میوزک انجوائے کر رہا ہے۔ یہاں یہ امر واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ طلبا وطالبات کھلے آسمان کے نیچے ہلہ گلہ کر رہے تھے، کسی بند کمرے میں یہ کام نہیں ہو رہا تھا۔ تاہم پاکستان کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اس ڈیجیٹل آفیشل اکاؤنٹ میں نیچے یہ بھی لکھا گیا کہ یہ امریکا یورپ نہیں ہے بلکہ پاکستان ہے۔
لیکن شائد تصویر کا دوسرا رخ کسی کو معلوم نہیں۔ مالم جبہ کی پولیس نے اونچی آواز میں میوزک لگانے اور طلباو طالبات کو ڈانس کرنے کی اجازت دینے پر ہوٹل انتظامیہ کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر کاٹ دی بلکہ مالک کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ فحش حرکات کی ایف آئی آر کاٹی گئی۔ میں نے بھی وہ ویڈیو دیکھی ہے۔ اس میں کسی قسم کوئی ایسی حرکت یا بات نہیں جسے نازیبا کہا جاسکے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ ڈانس کرنا غلط یا درست ، اس بارے میں سب کی اپنی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی ایف آئی آر کا اندراج کس قدر درست ہے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔
دنیا بھر کے بڑے بڑے سیاحتی مقامات کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ کیا وہاں آنے والے سیاحوں کے لیے میوزک انجوائے کرنے کے مواقعے نہیں رکھے جاتے۔ کیا ہم اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کو دینی درسگاہوں کی طرح دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم سیاحوں کو پابند کریں کہ ایک تو وہ ہمارے علاقے میں سیاحت کے لیے آئیں، یہاں اپنے پیسے خرچ کریں لیکن انھیں تفریح کے مواقعے بھی میسر نہیں ہوںگے۔اگر سیاحت کو صنعت کا درجہ دینا ہے اور سیاحت سے روزگار اور زر مبادلہ کمانے کی آرزو ہے تو ہمیں اپنے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کھلے ذہن سے کام کرنا پڑے گا جو ہمارے دیگر برادر اسلامی ممالک نے سیاحت کے فروغ کے لیے کیا ہے۔ ہمیں دنیا کے مروجہ قواعد رسم و رواج کے تحت ہی اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینا ہے۔
اس سے قبل بھی مری میں ایک نوجوان شادی شدہ جوڑے کے ساتھ یہ سمجھ کر بد تمیزی کی گئی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہیں۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ گھر سے مری میں سیاحت کے لیے آنے سے پہلے انھوں نے اپنا نکاح نامہ ساتھ نہیں رکھا تھا اور شادی کے فوری بعد ابھی شناختی کارڈ پر بھی اسٹیٹس تبدیل نہیں ہوا ہوتا۔ وہ نیا شادی شدہ جوڑا منتیں کرتا رہا کہ ان کی شادی ہوئی ہے لیکن پولیس کو بلا لیا گیا۔
غرض کہ ان کے گھر والوں کو اطلاع دی گئی اور گھر سے تصدیق ہونے کے بعد کہ وہ شادی شدہ ہیں، انھیں جانے کی اجازت ملی۔ کیوں ہمارے ملک میں نوجوان جوڑوں کے نکاح نامے چیک کیے جاتے ہیں؟ کس قانون میں یہ اجازت ہے؟ ہوٹلوں میں نکاح ناموں کو چیک کرنے اور شناختی کارڈ چیک کرنے کی رسم بھی ختم ہونی چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دینی ہوگی تب ہی ملک کے اندر سیاحت فروغ پا سکے گی۔ جس کی گونج سے بین الاقوامی سیاحت بھی پاکستان آسکے گی۔
بہر حال مالم جبہ کا واقعہ پاکستان کی عالمی ساکھ اور پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کھلے آسمان تلے میوزک انجوائے کرنے کو بھی فحاشی کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جب تک پولیس کو ہوش آیا کہ یہ فحاشی ہے بیچارے طلبا و طالبات وہاں سے نکل آئے تھے اور پولیس نے کارروائی پوری کرنے کے لیے ہوٹل مالکان کو پکڑ لیا ہے۔ کیا اب کوئی ہوٹل مالک طلبا و طالبات کے کسی گروپ کو رہنے کے لیے کمرے دے گا۔ کیا کوئی ہوٹل مالک اپنے ہوٹل کے اندر میوزک لگانے کی اجازت دے گا۔ ہم کیسا پاکستان بنا رہے ہیں۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہماری خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔ وہ کوہ پیما بنیں۔ ہر کھیل کھیلیں۔ دوسری طرف ہم ابھی تک نکاح ناموں کے چکر سے باہر نہیں آئے ہیں۔
کیا حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات کے باوجود ہمارے ملک میں سیاحت کیوں فروغ نہیں پا رہی۔دن میں لوگ موسم انجوائے کریں تو شام میں ان کے وقت گزارنے کا بھی کوئی بندوبست کرنا ہوگا۔ وہاں تھیٹر بنانے ہوںگے۔ میوزک کا بندو بست کرنا ہوگا۔ فائیو اسٹار ہوٹل میں میوزک کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر مالم جبہ کے ایک ہوٹل میں کھلے آسمان تلے میوزک لگ گیا ہے اور طلبا و طالبات نے ڈانس کر لیا ہے تو قانون حرکت میں آگیا ہے۔ دنیا آپ کے اندر کے تضاد کو جانتی بھی ہے اور سمجھتی بھی ہے۔ اس لیے ہمیں دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرنے کے بجائے خود کو بدلنا ہوگا۔