بلدیاتی الیکشن کھیل جاری ہے

ایم کیو ایم اور ن لیگ کے درمیان فاصلے گھٹ رہے ہیں؟


Arif Aziz January 01, 2014
فوٹو : فائل

صوبۂ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے امیدواروں کی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس ضمن میں سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آئی ہے۔

کراچی میں بھی انتخابات کے لیے پچھلے دنوں کاغذات نام زدگی جمع کرانے کے دوران خاصی گہما گہمی دیکھنے میں آئی، لیکن انتخابات کے انعقاد میں قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ معاملہ خطرے سے دوچار نظر آتا ہے، جس سے انتخابات میں حصّہ لینے والوں میں مایوسی اور عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ترامیم کو غیر آئینی قرار دے کر بلدیاتی الیکشن 2001 کی حلقہ بندیوں کے مطابق کرانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانا چاہتی ہے تو درخواست دائر کرے اور الیکشن کمشن سے بھی رجوع کیا جائے۔

ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ سمیت دس جماعتوں نے آرڈیننس میں ترامیم اور حد بندیوں کو چیلنج کیا تھا، جس کی سماعت کے بعد چند روز قبل فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ متحدہ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ حلقہ بندیوں کے تحت کراچی میں دیہی اور شہری علاقوں کو تقسیم کر دیا گیا اور جہاں کراچی کی شہری حدود میں 40 سے 50 ہزار آبادی پر مشتمل یونین کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں، وہیں شہر کے مضافاتی دیہی علاقوں میں 10 سے 15 ہزار کی آبادی پر یونین کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ عدالت نے کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ کے لیے بھی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی بات کی ہے، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اس فیصلے کو ایم کیو ایم اور کراچی کے عوام کی فتح بتایا ہے۔

حکومت کا اصرار ہے کہ اسمبلی نے آئین کے خلاف قانون سازی نہیں کی ہے، جب کہ پی پی پی کے مخالفین اس پر من مانی حلقہ بندیاں کروانے اور الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کراچی میں بلدیاتی الیکشن کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار، امین الحق، خواجہ اظہار الحسن، آصف حسنین، امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمان، مسلم پرویز اور نصر اللہ شجیع جب کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے نجمی عالم، ذوالفقار قائم خانی، بلوچ خان گبول، جمعیت علمائے پاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری مستقیم نورانی، تحریک انصاف کے عمران اسماعیل، خرم بلوچ اور دیگر نے کاغذات نام زدگی جمع کرائے ۔

پچھلے ہفتے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گورنر ہاؤس میں متحدہ قومی موومنٹ کے وفد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن پر متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے واضح کیاکہ آپریشن میں کسی سیاسی جماعت کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جارہا، تمام جماعتوں کو آزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور اس آپریشن پر ایم کیو ایم کے تحفظات کو سندھ حکومت کے ساتھ مل کر دور کریں گے۔ ایم کیو ایم کے وفد میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر صغیر احمد، بابر خان غوری اور کنور نوید جمیل شامل تھے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔

کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مختلف علاقوں میں کارروائی کررہے ہیں، لیکن بدامنی اور ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے، جس پر وفاقی حکومت کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ انہی حالات میں بلدیاتی انتخابات بھی متوقع ہیں، لیکن اب یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات میں ایم کیو ایم کے راہ نماؤں نے سیاسی صورت حال، کراچی میں امن و امان اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں، ماورائے عدالت قتل، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی،کارکنان کی ٹارگیٹ کلنگ کے ساتھ بلدیاتی انتخابات سے قبل پارٹی دفاتر پر چھاپوں پر بھی بات کی۔



باخبر ذرایع کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر داخلہ کو بتایاکہ ان کی جماعت کا مطالبہ رہا ہے کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بلاامتیاز کارروائی کی جائے اور ایم کیو ایم نے کراچی آپریشن کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ تاہم ٹارگیٹڈ آپریشن کے بعض پہلوؤں پر اسے شدید تحفظات ہیں۔ ایم کیو ایم کے وفد نے بتایاکہ آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے ایم کیو ایم کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، بے گناہ کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کردیا گیا ہے، جس سے کارکنان اور عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ کراچی آپریشن صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے اور ایم کیو ایم کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔

انہوں نے واضح کیاکہ ایم کیو ایم سمیت ہر جماعت کو سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری رکھنے کی مکمل اجازت ہے۔ باخبر ذرایع کے مطابق ملاقات میں بلدیاتی انتخابات اور سندھ کی سیاسی صورت حال پر بھی غور کیاگیا، جب کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی تعلقات پر بھی گفت گو ہوئی۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں امن اور ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں گے اور اس ضمن میں ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اس سے دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے کم ہونے کی توقع ہے۔ دوسری طرف سندھ میں بلدیاتی نظام اور حلقہ بندیوں پر پیپلزپارٹی سے اختلافات اور فاصلے بھی مسلم لیگ (ن) سے قربتوں کا ایک سبب ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ملاقات میں صوبے سمیت کراچی میں امن وامان کی صورت حال اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات میں دونوں راہ نماؤں نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن کو مزید مؤثر بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے گورنر سندھ کو وفاق کے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور شہر میں جاری آپریشن کی کام یابی کے لیے حکومت کی خواہش کا اظہار کیا۔

کراچی کے شہریوں کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں امن و امان کے قیام کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کریں اور اس سلسلے میں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں، جب کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جلد از جلد ممکن بنایا جائے تاکہ منتخب نمایندوں کے ذریعے ان کے مسائل حل ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔