وفاق کی صوبے کو ضروری وسائل مہیا کرنے کی یقین دہانی

وزیراعلیٰ بلوچستان اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا


رضا الرحمٰن January 01, 2014
وفاقی حکومت امن وا مان کی مزید بہتری کا ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے تمام ضروری وسائل اور قوت مہیا کرے گی۔ فوٹو : فائل

وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت امن وا مان کی مزید بہتری، ترقیاتی عمل میں تیزی لانے ،صوبے میں امن و آشتی اور مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے تمام ضروری وسائل اور قوت مہیا کرے گی۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سیاسی گفت و شنید ، مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا عمل جاری رہے گا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا اہم کردار ہوگا۔ ملاقات میں بلوچستان میں عمومی سکیورٹی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے سکیورٹی اداروں اور پولیس کے کردار کی تعریف کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی گروپوں کے ساتھ گفت و شنید کے عمل میں تیزی لائی جائے گی۔ ماضی کی حکومتوں کی حکمت عملی کے برعکس موجودہ حکومت کسی خاص پارٹی یا گروپ کو سکیورٹی کے نام پر مسلح کرنے کی پالیسی کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ اور ان مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ ملاقات میں بلوچستان میں پرامن بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبے کے سیاسی مستقبل کیلئے نیک شگون قرار دیا گیا۔

دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بلوچستان حکومت نے صوبے میں قیام امن اور ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیلئے جو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اسے فی الحال موخر کردیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مخصوص سیاسی گروپوں کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل خوش آئند ہے کیونکہ مستقبل میں اس فیصلے کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے گفت و شنید کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے پہلے حکومت کی جانب سے ایسے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ماحول سازگار ہو اور پھر اس کے بعد مذاکرات کے عمل کیلئے کوئی راہ نکلے۔ ان حلقوں کے مطابق حکومتی سطح پر بعض گروپوں کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ بھی ایک مثبت قدم تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے قبل ان گروپوں کو حکومتی سطح پر آشیر باد حاصل تھی جس کے باعث حالات بہتری کے بجائے مزید خرابی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ ان حلقوں کے مطابق حکومت کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھی ٹھوس اور مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے ارباب عبدالظاہر کاسی کی بحفاظت بازیابی اور صوبے میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے یکم جنوری کو وزیراعلیٰ سے ملاقات اور دس جنوری کو صدر ، وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے ملاقات کیلئے روانگی جبکہ بارہ جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، جماعت اسلامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، تحریک انصاف شامل ہیں۔

ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے صوبے میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جس کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ارباب عبدالظاہر کاسی کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے، اغواء کاروں جنہوں نے اغواء برائے تاوان کو منافع بخش کاروبار کی شکل دے رکھی ہے کی بیخ کنی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اور اس سلسلے میں کوشش کی جائے گی کہ حکومت اور اپوزیشن اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر موجود جماعتوں کے پلیٹ فارم سے متفقہ طور پر ان مسائل سے نجات کیلئے جدوجہد کرکے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ ان سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی نے یکم جنوری سے احتجاج کا بھی پروگرام تشکیل دے دیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ اغواء برائے تاوان کی ان وارداتوں کا قلع قمع نہ کیا گیا تو عوام کے ساتھ مل کر کمیٹیاں بنائی جائیں گی تاکہ ان کا تدارک کیا جاسکے۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے مشترکہ طور پر بلوچستان میں نیٹو سپلائی روکنے کیلئے دھرنوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس سلسلے میں گذشتہ دنوں کوئٹہ شہر کے علاقے کلی خیزی میں چمن بارڈر کی طرف جانے والی نیٹو سپلائی کو روکا اور بھرپور احتجاج کیا، اسی طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بلوچستان کے سرحدی علاقے نصیر آباد میں بھی دھرنا دیا ان دونوں جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ سرحدی علاقوں پر نیٹو سپلائی کو مکمل طور پر روکا جائے گا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر سمیت بلوچستان میں گیس پریشر کی کمی اور بڑھتی ہوئی سردی کے باعث عوام الناس کیلئے مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتیں اس حوالے سے میدان میں کود پڑی ہیں اور گیس پریشر کی کمی ایک سیاسی ایشو بنتا چلا جا رہا ہے ۔ صوبائی حکومت نے بھی اس حوالے سے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے اور وفاقی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ گیس کی کمی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا وفاقی حکومت صوبے کی طلب کے مطابق گیس اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مسلسل نگرانی کی ہدایت کرتے ہوئے گیس کی کمی کو دور کرنے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تاہم ابھی تک گیس کی کمی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ کوئٹہ شہر میں گیس پریشر کی کمی کے باعث عوام اب آہستہ آہستہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پرزور احتجاج کر رہے ہیں، عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے ملک کو بلوچستان سے گیس فراہم کی جا رہی ہے لیکن کوئٹہ سمیت چند علاقوں میں جو گیس کی سہولت میسر ہے وہاں بہت کم فراہم کی جا رہی ہے جو کہ صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی اور زیادتی ہے۔ دن بدن شہر میں اس حوالے سے احتجاج بڑھتا چلا جارہا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں میں بھی اس حوالے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، عوام کے اس احتجاج میں اب سیاسی جماعتیں بھی حصہ بنتی جارہی ہیں جس کے باعث حکومت کو امن و امان کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں