سینیٹ میں شو آف ہینڈ کا ریفرنس
آج کل پھر جمہوریت کو آمریت بنانے کی بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں آمرحکمران جمہوری بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور جمہوری حکمران آمر بننے کی۔یوں آمر آمر یت قائم نہ کر پائے اور نہ جمہوریت پنپ سکی۔
آج کل پھر جمہوریت کو آمریت بنانے کی بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سینیٹ انتخابات کو شو آف ہینڈ سے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جس کو بھی ان کی کسی بھی پالیسی سے اختلاف ہے، وہ اختلاف کا اظہار کرنے سے پہلے وزارت سے استعفیٰ دے اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔یوں اختلاف کرنے کی قیمت مقرر کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں اس سے پہلے بھی ایسی آئینی ترامیم کی گئی ہیں جن سے سیاسی جماعتوں کی قیادت نے آمرانہ اختیارات حاصل کیے ہیں۔ پارٹی پالیسی سے اختلاف کو بغاوت کا نام دے دیا گیا ہے۔ ایک ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اگر آپ کو پارٹی پالیسی سے اختلاف ہے تو اختلاف کا اظہار کرنے سے پہلے انھیں پارٹی سے استعفیٰ دینا چاہیے۔یعنی پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج کل سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ سے کرانے کے حکومتی ریفرنس کی سماعت ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ابتدائی ریمارکس تو یہی سامنے آئے ہیں کہ معاملہ سیاسی ہے، اس میں عدلیہ کو کیوں ملوث کیا جا رہا ہے۔
لیکن ریفرنس کی سماعت سے قطع نظر میں سمجھتا ہوں کہ شو آف ہینڈ سے بھی سینیٹ انتخابات کرانے کی کیوں کوشش کی جا رہی ہے۔سیدھا سیدھا قانون بنایا جائے کہ سینیٹ میں سیاسی پارٹیوں کی پارلیمانی عددی اکثریت کی بنیاد پر سیٹیں دے دی جائیں گی۔ جیسے خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں کی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت نے ہی پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کیا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں فرد واحد کی حکومت یا خاندانی آمریت قائم ہے، سب نے اپنی اپنی سیاسی جماعت میں بادشاہت قائم کی ہوئی ہے۔ وفاداری کا ایک ہی معیار ہے کہ آپ ہاں میں ہاں ملاتے رہیں اور وقت آنے پر جان دینے سے بھی گریز کریں۔ اگر آپ اپنی سوچ کا اظہار کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو سائیڈ لائن کر دیا جائے گا۔ گھر بھیج دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں عملی طور پر سوچ سمجھ کر بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
اسی طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی مکمل آمریت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حاکم اپنی مرضی سے ٹکٹوں کی تقسیم کرتے ہیں۔ کسی بھی سطح پر مشاورت اور کارکنوں کی رائے کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ جس کو چاہے ٹکٹ دیا جائے کوئی پوچھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ آج سینیٹ انتخابات میں بھی پارٹی قیادت مرضی سے ٹکٹیں دیتی ہے۔
ارکان پارلیمنٹ سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی۔ تا ہم یہ خواہش ضرور ہے کہ ارکان پارلیمنٹ شاہی خاندانوں کی مرضی سے دی جانے والی ٹکٹوں پر آنکھیں بند کر ووٹ ڈالیں۔ سیاسی جماعتوں کے حاکم شاہی خاندانوں کو تو پیسے لے کر اور دیگر مفادات کو سامنے رکھ کر ٹکٹ دینے کی کھلی اجازت ہونی چاہیے۔ تا ہم ارکان اسمبلی کو ایسی کوئی اجازت پارٹی سے غداری اور کرپشن ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب جب کیس سپریم کورٹ پہنچ ہی گیا ہے تو ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے گند اور آمریت ختم کرنے کا یہ نادرموقع ہے۔ میری عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے درخواست ہے کہ صرف ارکان اسمبلی ہی پارٹی کو ووٹ دینے کے پابند نہیں ہونے چاہیے بلکہ پارٹی کے اصل حاکموں کو قواعد وضوابط اور جمہوری اصولوں کاپابند بنایا جانا چاہیے۔
اگر ارکان اسمبلی کو سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی کے تحت ووٹنگ کا پابند بنانا ہے تو ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کی رائے کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا ایک شفاف نظام موجود ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی خاندانوں نے اپنی آمریت قائم کی ہوئی ہے۔
کیوں سینیٹ انتخابات کی ٹکٹوں کی تقسیم میں ارکان اسمبلی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ جب ارکان اسمبلی اپنی اپنی پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم میں شامل نہیں تو ان پر ووٹ دینے کی پابندی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ سے ملک میں نہ تو جمہوریت مضبوط ہو گی اور نہ ہی کرپشن ختم ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں جمہوریت کمزور ہو گی۔ شو آف ہینڈ شفافیت نہیں لا سکتا۔
آپ امریکا میں ٹرمپ کے حالیہ مواخذہ کی کارروائی کو سامنے رکھیں۔ ٹرمپ کی اپنی جماعت کے ارکان کانگریس نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا ۔ ٹرمپ کی اپنی جماعت اس کی مخالفت کر رہی ہے اور ایسا صرف مواخذے پر نہیں ہوا بلکہ امریکا میں ہر قانون سازی کے موقعے پر ارکان کانگریس اور سینیٹ اپنی مرضی اور رائے سے ووٹ دیتے ہیں۔
وہاں تو پارٹی پالیسی سے انحراف کو غداری نہیں کہا جاتا۔ وہاں تو کسی سیاسی جماعت کو یہ ضرورت پیش نہیں آتی کہ ار کا ن کو شو آف ہینڈ سے پابند کیا جائے۔ پارٹی پالیسی کو مارشل لائی طاقتوں سے نافذکرنے کی کوئی بھی کوشش دنیا میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔اب کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر امریکا میں مواخذے پر پارٹی پالیسی کی کوئی شرط نہیں اور جمہوریت چل رہی ہے تو ہمارے ملک میں ایسی شرائط کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے۔
مجھے عمران خان سے یہ امید نہیں تھی۔ وہ تو اپنی مخالف سیاسی جماعتوں میں خاندانی آمریت کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی تو سیاست کا محور ہی خاندانی آمریت کی مخالفت ہے۔ ایسے میں ان کی جانب سے ایسے اقدمات کی امید نہیں تھی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حالیہ ریفرنس سے سیاسی جماعتوں کی خاندانی آمریتیں مضبوط ہوںگی ،کیا عمران خان کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ موجودہ ریفرنس سیاسی جماعتوں میں خاندانی آمریت ختم کرنے کا سنہرا موقع ہے۔ اگر ان سے ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار ختم ہو جائے تو ان کی آمریت خود بخو د ختم ہو جائے گئی۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں متعلقہ حلقوں میں پارٹی کارکنان کی مشاورت سے دی جانی چاہیے اور سینیٹ انتخابات کی ٹکٹیں ارکان پارلیمنٹ کی مرضی سے دی جانی چاہیے۔ اس سے بہتر اس ریفرنس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔