’’عہد زریں‘‘ تمام ہوا
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اب ہمیشہ کے لیے سابق ہو گئے ان کے عہد منصفی کا ’’زریں دور‘‘ قصہ پارینہ ہو گیا
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اب ہمیشہ کے لیے سابق ہو گئے ان کے عہد منصفی کا ''زریں دور'' قصہ پارینہ ہو گیا۔ ان کے متنازعہ و غیر متنازعہ فیصلے، اقدامات، احکامات، ریمارکس سب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئے۔ چیف صاحب کی آیندہ زندگی اب یاد ماضی کے ساتھ گزرے گی، جسے وہ کبھی بھلا نہ سکیں گے۔ وہ کبھی کبھی اس منظر کو یاد کر کے شاید افسردہ بھی ہوں گے کہ جب 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی اقدام کے بعد ان کے بعض ساتھی ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر کے تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے درج کرا لیا تھا لیکن چیف صاحب نے اپنے ''ہم خیال'' دیگر محترم ججز صاحبان کے ہمراہ آمر وقت کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر دست آمریت پر ''اقرار'' کیا تھا۔ لیکن چیف صاحب کو شاید وہ لمحات زیادہ مسرور و مخمور کریں گے کہ جب اسی جنرل پرویز مشرف کے سامنے شدید دباؤ اور اصرار کے باوجود مستعفی ہونے سے دو ٹوک ''انکار'' کر کے چھ دہائیوں سے آمر حکمرانوں کی قید میں تڑپتے و سسکتے انصاف کو رہائی دلانے کا ''نعرہ مستانہ'' بلند کیا تھا اور وہ تاریخی لمحات، ساعتیں اور گھڑیاں صبح و شام قوس و قزح کی مانند انھیں اپنے اطراف رنگ بکھیرتی نظر آتی ہوں گی
جب آمر وقت کے سامنے صدائے حق ''بلند کرنے اور جرأت اظہار کے صلے'' میں وکلا برادری، سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں، رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور عوام الناس نے چیف صاحب کو عزت، احترام اور مقبولیت کے براق پر بٹھا دیا تھا اور بغیر ہمارے تیز رفتار پرنٹ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے انھیں وہ شہرت دوام بخشی کے جس کا شائبہ تک ان کو نہ تھا، کہتے ہیں کہ شہرت کا نشہ سر چڑھ کے بولتا ہے اور پھر دیکھنے والوں نے ایسے ہی نشے میں سرشار کئی دلفریب منظر بھی دیکھے جب ہماری عدلیہ نے چھ دہائیوں کے دباؤ سے نجات کے لیے ''آزادی'' کی ایسی کروٹ لی کہ سب ششدر و حیران رہ گئے۔ عدلیہ کے ''آفتاب آزادی'' کی کرنیں 11-12-2013 تک ناانصافیوں کے پاتال تک ''انصاف'' کی ''مخصوص روشنی'' پہنچاتی رہیں۔ انصاف کو ایسی ''آزادی'' ملی کہ جس کا تصور آزاد عدلیہ کی تحریک چلانے والے وکلا و دیگر ہمنواؤں کے وہم و گمان میں نہ تھا نتیجتاً وہ جو تحریک عدلیہ کے دوران قدم قدم عوام کو سستے، فوری اور یقینی انصاف کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے کرتے نہ تھکتے اور چیف صاحب کی مداح سرائی میں رطب اللسان رہتے تھے ''خوف توہین'' سے سہم کر لب بستہ وقت کے انتظار میں گوشہ نشین ہو گئے اور اگر کبھی کبھار کوئی خوش فہم جرأت اظہار کر بیٹھتا تو ''مداحوں'' کا جم غفیر اس کا جینا دوبھر کر دیتا لیکن 11 دسمبر کے بعد ''خوف توہین'' کی قبائیں اترتے ہی ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور خاموش لبوں کو اظہار کی ''آزادی'' مل گئی۔
دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر صبح و شام ایک میلہ سا لگا رہتا ہے جہاں 11 دسمبر سے پہلے کی ''آزاد عدلیہ'' کے حامی و ناقد آئینی و قانونی دلائل کی روشنی میں ''آزادی انصاف'' کی پرتیں الٹ رہے ہیں اور اپنی اپنی دانش، حکمت، بصیرت، علم، تجربے اور مشاہدے اور حوالوں سے ''آزاد عدلیہ'' کی درست سمت متعین کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک جانب الزامات کی بوچھاڑ ہے تو دوسری طرف صفائیوں کا انبار۔ ''دور آزادی'' میں کیا کچھ ہوا اور کیا کچھ ہونا چاہیے تھا کی بحث مختلف زاویوں کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ منظر بھی چیف صاحب کے لیے یقینا حیران کن اور کسی حد تک پریشانی کا باعث بھی ہو گا کہ بعد از رخصتی ایسی ''پذیرائی'' کا تصور ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
دوسرے مباحث سے قطع نظر چیف صاحب کے اس بیان کے تناظر میں کہ ''جسٹس تصدق جیلانی میرے قریب ہیں'' اور فرمایا کہ ''عدلیہ محفوظ ہاتھوں میں جا رہی ہے'' پھر ارشاد کیا کہ ''عدلیہ نے اپنی راہ متعین کر لی ہے''، ان کے جا نشین عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فرمان نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ ''از خود نوٹس (سوموٹو ایکشن) کے معاملے پر نظرثانی کی ضرورت ہے یہ اختیار آئین کی حدود میں استعمال کیا جائے گا''۔ ان بیانات میں دانشمندوں کے لیے غور و فکر کا بڑا سامان موجود ہے اگر وہ کچھ سمجھنا چاہیں تو۔ گویا سابقہ ''عہد زریں'' میں جو 118 از خود نوٹس لیے گئے ان کی آئینی حدود پر اب جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان میں بحث کی گنجائش موجود ہے اور پھر موجودہ چیف جسٹس تصدق جیلانی صاحب نے سابقہ ''عہد زریں'' کا ''شاہی پروٹوکول'' لینے سے بھی انکار کر دیا کہ جس پر قوم کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ ہر جانب سے چیف صاحب کے اس مستحسن فیصلے کی توصیف کی جا رہی ہے جو قابل فہم ہے۔
آپ چیف صاحب کے ''عہد منصفی'' کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اول 9 مارچ 2007ء سے پہلے کا دور جب ہماری عدلیہ انصاف کے روایتی راستوں پر محو سفر تھی دوئم 9 مارچ کے بعد کا عہد جو چیف صاحب کے حرف انکار سے شروع ہو کر ان کی معطلی و برطرفی اور دو مرتبہ بحالی کی تاریخی جدوجہد اور چیف صاحب کے عدالتی احکامات، فیصلوں، ریمارکس اور سوموٹو ایکشن سے ہوتا ہوا 11 دسمبر 13 کو ان کی متنازعہ رخصتی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ پہلے دور میں انھوں نے جسٹس سعید الزماں کی طرح آمر کے حکم کو ماننے سے انکار کی بجائے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور پھر اس معزز بینچ کے رکن بھی رہے جس نے پرویزی آمریت پر مہر تصدیق ثبت کی تھی بعد ازاں چیف جسٹس بننے کے بعد بھی '' روایتی انصاف'' کی فراہمی کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ پھر وہ تاریخی لمحہ آیا کہ جب اسٹیل ملز کی نجکاری کے تاجرانہ حکومتی فیصلے کے خلاف ادارے میں پیپلز پارٹی کی سی بی اے کے چیئرمین جناب شمشاد قریشی نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور چیف صاحب نے حکومتی خواہش کے خلاف اسٹیل ملز کی نجکاری کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا یہی فیصلہ حکمرانوں کو گراں گزرا اور اسی فیصلے کی وجہ سے چیف صاحب کے مستقبل کے عزائم کو بھانپتے ہوئے ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا تھا۔
جس پر وہ حرف ''انکار'' ادا کر کے سیاستدانوں جیسی عوامی پذیرائی، مقبولیت، عزت اور شہرت کے تاریخی سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر اسٹیل ملز کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی نجکاری کے حکومتی فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج نہ کرتے تو چیف صاحب کے ''حرف انکار'' کی راہ کیسے ہموار ہوتی؟ آج وہ جس مقام اوج پر ہیں وہ درحقیقت اسٹیل ملز میں پیپلز پارٹی کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی کے نجکاری کے حکومتی فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کے جرأت مندانہ اقدام کی مرہون منت ہے اور اس حوالے سے تو چیف صاحب کو پیپلز پارٹی اور شمشاد قریشی کا ممنون و احسان مند ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی ہی نے معزز ججز صاحبان کی نظربندی ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا لیکن صلہ کیا ملا کہ اسی وزیر اعظم گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا، حکومتی امور چلانا عذاب بن گیا ''آزادی'' کے چلن نے بہت سوں کو ناآسودہ کیا بقول شاعر:
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زبان ملی تو ہم ہی پر برس پڑے
بہرحال چیف صاحب ''عہد زریں'' تمام ہوا اور اب عدلیہ کا ایک نیا سفر شروع ہو رہا ہے۔