بین الاقوامی معاہدے اور ہماری استطاعت
اگریہ اسٹے ختم ہوجاتاہے تو پاکستان کے وسائل کے ساتھ کیاسلوک کیا جاسکتا ہے، اس کاقیافہ بھی ہولناک ہے۔
ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔اس میں سونے کے وسیع ذخائر موجودہیں۔ دنیا میں پانچویں نمبرپرآنے والی سونے کی کان یہیں پر موجودہے۔
ایک غیر ملکی کمپنی کو قیمتی دھات نکالنے کی اجازت دی گئی۔صوبائی حکومتی سطح پرکسی نے بھی اس بین الاقوامی سطح کے معاہدے پرغورکرنامناسب نہ جانا۔ کچھ عرصے بعدکمپنی اورحکومت کے درمیان روایتی رسہ کشی شروع ہوئی۔ہوتاہواتامعاملہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں آگیا۔فیصلہ ہواکہ اس معاہدہ کوکینسل کر دیا جائے۔
2012 کی بات ہے۔ہرطرف دادو تحسین کاشورمچ گیاکہ دیکھوہم نے ملک کا کتنا نقصان بچالیا۔ ہر جانب ایمانداری کاڈنکابجناشروع ہوگیا۔کسی بھی بزرجمہرنے یہ گزارش نہیں کی کہ بین الاقوامی معاہدے میں درج ہے کہ فریقین کے درمیان تنازعہ کی صورت میں ورلڈبینک کاٹربیونل فیصلہ دیگا۔
بین الاقوامی قوانین اورمعاہدے کے تحتICSIDیعنی ورلڈبینک کے ٹربیونل نے اس کیس کو بغورسنا۔ معاہدے میں موجودشقوں کے مطابق اس تنازعہ پر ہمارے ملک کو5.9بلین ڈالرکاجرمانہ کیا گیا۔ جولائی 2019کی بات ہے۔رقم ، ملک کے لیے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے دی جانے والی امدادکے برابر تھی۔
یہ وہی عرصہ ہے جس میں پاکستان کی ''حددرجہ قابل اورجینئس اقتصادی ٹیم''امدادحاصل کرنے کے لیے ورلڈبینک کے سامنے ایڑیاں رگڑرہی تھی۔ پورے ملک میں افسوس کی فضاتھی۔دنیاکے اسٹیج پر ہمارے بے عزتی اوردشمن ممالک کے اندر شادیانے، دونوں تکلیف دہ معاملات تھے۔ خیر 2020میں ہمیں بین الاقوامی ٹربیونل سے عارضی حکمِ امتناہی مل گیا۔ بلا تھوڑی دیرکے لیے موقوف ہوگئی۔
حالات قطعاًہماری لیے خوشگوارنہیں ہیں۔ اگریہ اسٹے ختم ہوجاتاہے تو پاکستان کے وسائل کے ساتھ کیاسلوک کیا جاسکتا ہے، اس کاقیافہ بھی ہولناک ہے۔ زرِمبادلہ کے قلیل ذخائر اورریاست کی غیرملکی جائیدادیں بھی اس جرمانے سے مصیبت میں آجائینگی۔دعاہے کہ معاملہ ہمارے لیے تکلیف دہ نہ ہو۔مگردنیاعمل کی آماجگاہ ہے۔اس میں تمام مسائل صرف اورصرف دعاسے حل نہیں ہوتے۔
مقصدریکوڈک کیس پرگزارش کرنا نہیں ہے۔ نکتہ بالکل دوسراہے بلکہ اس مقدمہ سے متضاد ہے۔ سوال ہے کہ کیاہمارے پاس بین الاقوامی سطح کے معاہدے ترتیب دینے،لکھنے،سمجھنے کی فنی استطاعت ہے۔یہیں سے دوسرا جزو شروع ہوتاہے۔کیاہمارے عدالتی نظام میں اتنی قانونی سکت ہے کہ بین الاقوامی سطح کے پیچیدہ ترین معاہدوں پر غیرجانبدارانہ فیصلے کرسکے؟ طالبعلم کاجواب نفی میں ہے۔ ہمارے پورے قانونی اور حکومتی نظام میں اتنی فہم نظرنہیں آتی،جواسطرح کے مشکل معاملات کوحل کرپائے۔نتیجہ صرف اورصرف جگ ہنسائی اورہزیمت ہے۔
اس سنجیدہ موضوع پر الیکٹرونک میڈیاپرکوئی پروگرام نہیں دیکھا۔سال میں ایک آدھی بارکوئی غیرملکی کالم نویس اس پر ہرزہ سرائی کرتابھی ہے توتوجہ دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ مگرمسئلہ یہ ہے کہ دنیامیں اسی فیصدکے قریب سنجیدہ لکھاری فرنگی زبان میں لکھتے ہیں۔جس سے ہمارا کوئی سروکارنہیں۔کیونکہ ہم تواخلاقاًیاعملی طورپر ''کافروں کی کوئی چیز''استعمال نہیں کرتے۔عرض کرنی ہے کہ بین الاقوامی معاہدے لکھنے کی قدرت کم ازکم ہمارے اندر تو ہرگز نہیں ہے۔
ہاں ایک اوربات۔ہمارے اداروں کے لیے ہراہم چیزانتہائی درجہ کارازہے۔ٹاپ سیکرٹ۔ سی پیک کی مثال سامنے رکھیے۔سارادن اور رات تک سی پیک کے حق میں ڈھول بجائے جاتے ہیں۔سیاسی قائدین تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ملک کوفائدہ ہی فائدہ کی گردان سنائی دیتی ہے۔مگرجب ٹھوس معاہدے کوجاننے کی کوشش کرتے ہیں توجواب آتاہے کہ یہ سیکرٹ ہے۔جب معصومانہ ساسوال پوچھاجاتا ہے کہ جناب ذرابتادیجیے کہ اس معاہدے کے تحت جب ایک ٹرک ہماری سرزمین سے ہوتاہوا دوسرے ملک میں جائیگا۔توہمیں کتنے ڈالر ملینگے۔ اس کا جواب نہیں ملتا۔ہم میں کسی بھی سطح پر اتنا قومی اعتمادنہیں ہے کہ سی پیک کے معاہدے میں ملکی فائدے کی شقوں کوسرِعام پیش کردیں۔یہ عجیب سی بات ہے۔
پیچیدہ معاملات پرہماری فنی صلاحیت نہ ہونے کے برابرہے۔اس نالائقی سے بین الاقوامی ماہرین اور کمپنیاں خوفناک فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ہماری ہرکمزوری ان کے لیے بے پناہ مالی منفعت کی بنیادبنتی ہے۔ غور کیجیے۔ ان کا طریقہ واردات کیاہے۔دوچارگورے سرکاری دفتر میں میٹنگ کے لیے آتے ہیں۔
گوری چمڑی سے ویسے ہی بابوحددرجہ متاثرہوتے ہیں اوراگرکوئی گوری خاتون میٹنگ کے لیے آجائے توپورادفترہی ڈھیرہوجاتا ہے۔ لاتعداد میٹنگزاورکانفرنسوں میں دیکھاہے کہ ہمارے سرکاری اور غیرسرکاری عمائدین گوروں کے حددرجہ نیچے لگے ہوئے ہیں۔ان کی کہی ہوئی ہربات پراثبات میں گردن ہلاتے رہتے ہیں۔بہت کم ہوتاہے کہ ان غیرملکی وفودکے سامنے کوئی انکارکی بات کی جائے۔ وجہ کیا ہے۔ صرف اورصرف اپنے کام پرعبورنہ ہونا۔باہرسے آنے والے وفود اس کوتاہی کوبخوبی سمجھتے ہیں اوراس سے بھرپورفائدہ اُٹھاتے ہیں۔
ایک افسوسناک سرکاری رویہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر وفدمیں کوئی گوری خاتون آجائے تو میٹنگ ہال کی اکثریت دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے گھورتے رہتے ہیں۔کئی کمپنیاں ہماری ذہنی روش بھانپ کراپنے وفدمیں خواتین کوضرورشامل کرتی ہیں۔ اس عقل مندانہ فیصلے سے ان کے کام جلدی ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ کئی پاک بازبابوؤں کوگوری چمڑی پرپھسلتے ہوئے دیکھنے کااتفاق ہوا ہے۔ ایک اورمسئلہ بھی ہے۔وہ ہے مختلف ممالک کے مفت دورے۔یہ اتناتیرہدف نسخہ ہے کہ جس سے اکثر کمپنیوں کے رُکے ہوئے کام جھٹ سے ہوجاتے ہیں۔ آپ کسی بھی سطح کی میٹنگ میں بیٹھے ہوں۔
جیسے ہی سربراہ یہ اعلان کرتاہے کہ اس معاملے کو عملاًسمجھنے کے لیے یورپ یاامریکا جاناہوگا،تواکثرکی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔پہلے سینئرافسران غیرملکی دوروں سے مستفیدہوتے ہیں اورپھر جونیئر افسران۔ کمپنیاں بیرونِ ملک ان لوگوں کی کافی آؤبھگت کرتی ہیں۔جسے انٹرٹینمینٹ کانام دیا جاسکتا ہے۔ان معاملات کے لیے بڑی بڑی کمپنیاں معقول بجٹ رکھتی ہیں۔اس طرح قیمتی تحائف ہیں۔جن سے بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ کئی افسران کوجانتاہوں جوان کمپنیوں سے اپنے خاندان کے مفت ٹکٹ اور ہوٹل کی درخواست کرتے ہیں۔ خیران تمام خوشگواراقدامات سے ذاتی معاملات بہتر ہوتے جاتے ہیں۔
ساتھ ساتھ پھرلین دین کامعاملہ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے اکثرسیاستدان،بابواورریاستی اداروں کے لوگ بلاتکلف اس میں شامل ہوتے ہیں۔حددرجہ ڈھٹائی سے ڈالرمانگے جاتے ہیں۔کمپنیوں نے اس کے لیے بھی پورااہتمام کیاہوتاہے۔انھیں ہماری دونمبرذہنیت کا بخوبی اندازہ ہے۔چنانچہ غیرملکی کمپنیاں بذاتِ خود، ہمارے عمائدین کے نام پردیارِغیرمیں بینک اکاؤنٹ کھلواتی ہیں۔
طے ہونے والی رقم خاموشی سے اکاؤنٹ میں جمع کروادی جاتی ہے۔ہاں ملک میں شفافیت، کرپشن کے نہ ہونے اورصاف ستھری حکومت کے بے دریغ اعلانات کیے جاتے ہیں۔خودفیصلہ فرمائیے کہ جب فنی استطاعت بھی نہ ہواوریہ سارے معاملات بھی دسترس میں ہوں توپھرملک کی خدمت اورعوامی فلاح وبہبودکاکیاجوازرہ جاتاہے۔ ہم صرف اورصرف نعرے ہی لگاسکتے ہیں۔
اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔اندازہ لگایے کہ چند سال پہلے بڑی بڑی چینی کمپنیاں اخباری بیان دینے پر مجبور ہوگئیں کہ تمام معاہدے اوران کے مطابق رشوت توان سے پہلے ہی دوبئی میںمتعلقہ وزیر کاخاندان وصول کرلیتا ہے۔ اسلام آبادمیں اعلیٰ سطح کی میٹنگ توصرف اور صرف انگوٹھا لگانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔اس بیان کی تردیدآج تک نہیں آئی۔کئی بارتویہ بھی ہواہے کہ ہمارے وزیراعظم ان سے پیسے وصول کرتے ہیں۔یہ تمام معاملات ہرگزہرگزخفیہ نہیں رہتے۔مگراس اثنا میں ناجائز پیسہ کئی ہاتھ بدل چکاہوتا ہے۔
لہٰذا کوئی قانونی کارروائی کرنابھی چاہے توممکن نہیں رہتا۔اسی تناظر میںبراڈ وے کمپنی کے مالک کے ہمارے بڑے لوگوں کے متعلق بیانات ہمارے لیے قابل فخرنہیں ہیں۔ گند اتنا زیادہ ہے کہ تقریباً ہراہم آدمی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے۔ بہرحال یہ بات توطے ہے کہ ہم لوگ بین الاقوامی معاہدوں کو ترتیب دینے اورسمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔