وہ اندھیری رات
حکومت کو اب اپنے اگلے ڈھائی سال عوامی مسائل کو حل کرنے میں صرف کرنا ہوں گے بجلی کے شعبے پر خاص توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
اسے پاکستان کی تاریخ کی سیاہ ترین رات ہی کہا جاسکتا ہے۔ 9 جنوری کی سرد رات میں جب لوگ سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک گیارہ بج کر اکتالیس منٹ پر پورا ملک یک لخت اندھیرے میں ڈوب گیا۔
کراچی سے کشمیر تک اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اکثر لوگوں نے رات جاگ کرگزاری اس لیے کہ اس اچانک اندھیرے نے انھیں کئی وسوسوں میں مبتلا کردیا تھا۔ سب سے بڑا وسوسہ یہ تھا کہ کہیں دشمن نے سازش کے تحت یہ کام تو نہیں کیا ہے، کیونکہ اس نے حال ہی میں امریکا اور اسرائیل سے جو مختلف قسم کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے اس کے ذریعے ہمارے ملک کو اندھیرے میں ڈبو دیا ہو اور اس اندھیرے کی آڑ میں وہ وطن عزیز پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہو یا پھر ہماری جانب سے ہی جان بوجھ کر اندھیرا کیا گیا ہے تاکہ دشمن کو فضائی حملے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔
بہر حال رات تو کسی طرح گزر ہی گئی مگر لوگوں کو بجلی جانے کی اصل وجہ معلوم نہ ہوسکی پھر صبح پاور ڈویژن کے ترجمان نے بتایا کہ گدو پاور پلانٹ میں فنی خرابی پیدا ہونے سے نیشنل گرڈ ٹرانس میشن لائن ٹرپ کر گئی اور پاور فریکوئنسی پچاس سے صفر پر آگئی جس سے ملک بھر کے پاور پلانٹس بند ہوگئے۔ این ٹی ڈی سی نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے دھند کے سبب بجلی کا ترسیلی نظام متاثر ہوا ہو تاہم واپڈا کے لائن اسٹاف نے شدید سردی میں بھی رات بھر ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے کم سے کم وقت میں بجلی بحال کرنا شروع کردی ہے۔
یہ اتنا بڑا بجلی کا بریک ڈاؤن تھا کہ تیسرے روز کہیں جا کر پورے ملک کی بجلی بحال ہو سکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی کے اچانک بریک ڈاؤن کا بھارت پر بھی اثر پڑا۔ بھارت کے ٹی وی چینلز نے ہمارے ہاں کے بجلی کے بریک ڈاؤن کو خاص خبر بنا لیا۔ وہ اپنے ہر بلیٹن میں پاکستان کے خلاف پہلے سے زیادہ زہر اگلنے لگے۔ ان چینلز نے پورے بھارت میں کھلبلی مچا دی۔
مودی ملک میں اپنی گرتی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیے پاکستان پر حملے کی دھمکیاں ضرور دیتا رہتا ہے مگر بات سرجیکل اسٹرائیک سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ دراصل بھارتی حکمران اپنی فوج کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بھارتی فوج ڈوکلام میں چینی فوج سے مارکھا چکی ہے اور ابھی حال میں گلوان وادی میں چینی قبضے کو ختم کرانے کی ناکام کوشش میں اپنے چالیس سے زیادہ جوان کھو چکی ہے۔
بھارتی وزراء لداخ میں چینی قبضے کو ختم کرانے کے لیے چین کو دھمکیاں ضرور دیتے رہتے ہیں مگر مودی چین سے اس قدر خائف ہے کہ اس نے آج تک چین کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ وہ چین کا نام لینے سے بھی خائف ہے۔ گزشتہ سال 27 فروری کو پاکستانی فضائیہ نے بھارت میں گھس کر جو تباہی مچائی تھی اسے بھی کبھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ ہمارے بریک ڈاؤن کے ردعمل میں بھارت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر پھر کبھی پاکستان میں ایسا ہوا تو وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ اب جہاں تک 9 جنوری کو ہمارے ہاں رونما ہونیوالے بریک ڈاؤن کا تعلق ہے اس کی حقیقی وجوہات کا تعین کرنا ملکی سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔
ابتدائی طور پر اس بریک ڈاؤن کی وجہ گدو پاور اسٹیشن کے اہلکاروں کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے اور ان میں سے کچھ کو معطل بھی کردیا گیا ہے تاہم اصل وجوہات کا تعین حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی ہی کرے گی۔ یہ کمیٹی نیشنل ٹرانس میشن این ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے جنرل منیجر نارتھ کی سربراہی میں بنائی گئی ہے۔ ظاہری طور پر اس افسوس ناک واقعے کی وجہ بجلی کے نیشنل گرڈ میں حفاظتی نظام کی ناکامی، ناقص مینٹی نینس اور بدانتظامی کا نتیجہ کہی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ایڈہاک بنیادوں پر پاور سیکٹر میں کام چلا رہی ہے۔
ملک میں بجلی کے شعبے کی نگران تین بڑی کمپنیاں ہیں ان اداروں کے مستقل ایگزیگٹیو مقرر نہیں کیے جاسکے ہیں اسے حکومت کی ایک بڑی غفلت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان اداروں کے سربراہوں کے نہ ہونے سے یہاں جو کام ہو رہا ہے اسے کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا۔ بجلی کے بارے میں یہ شکایت کافی عرصے سے کی جا رہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے معاہدوں کے مطابق پروڈکشن سسٹم کو اپ گریڈ نہیں کیا ہے۔ بجلی کے اس بڑے بریک ڈاؤن کو حکومت ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی غفلت کا نتیجہ قرار دے رہی ہے اس کا کہنا ہے کہ 2015 میں بھی ایسا ہی بجلی کا بریک ڈاؤن ہو چکا ہے اگر اسی وقت ٹرانس میشن لائنیں درست کرلی جاتیں تو حالیہ بریک ڈاؤن نہ ہوتا۔
ادھر اپوزیشن نے بھی حکومت کو اس بریک ڈاؤن کا ذمے دار قرار دے کر الزام لگایا ہے کہ بجلی ہی کیا اس کے ڈھائی سالہ دور میں ملک کے ہر شعبے میں بریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے وہ ملکی اداروں کی جانب توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپوزیشن پر جھوٹے کیسز بنانے اور جھوٹے بیانات دینے میں اپنا وقت ضایع کر رہی ہے۔ بہرحال حکومتی اور اپوزیشن کی باہمی چپقلش اپنی جگہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بجلی ہماری معیشت اور صنعت ہی کیا ہر شعبے کے لیے لازم و ملزوم بن چکی ہے اس کی رکاوٹ کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ایک طرف ملک میں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف ملک میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کو اب اپنے اگلے ڈھائی سال عوامی مسائل کو حل کرنے میں صرف کرنا ہوں گے بجلی کے شعبے پر خاص توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کی پیداوار بڑھانا ہوگی اور اس کے نرخ بھی عوامی پہنچ کے مطابق رکھنا ہوں گے، اسی طرح گیس کے شعبے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہمارے ہاں توانائی کا اہم جزو ہے اس کا بجلی کی پیداوار میں بھی اہم کردار ہے۔