سلیم مانڈوی والا کیخلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں نیب

تفتیش میں تعاون کے بجائے خود کو بزنس کمیونٹی کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی


Numainda Express/APP January 18, 2021
تفتیش میں تعاون کے بجائے خود کو بزنس کمیونٹی کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی

نیب نے واضح کیاہے کہ بعض میڈیا رپورٹس میں نیب کی کارکردگی کے حوالے سے یکطرفہ تاثر پیش کرکے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان میڈیا رپورٹس میں جو سیاق و سباق استعمال ہوا اس کی بنیاد دانستہ قیاس آرائی پر مبنی ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں اور اسکا مقصد نیب کو بدنام کرنا ہے۔ نیب نے بار بار وضاحت کی ہے کہ اسکی وابستگی کسی جماعت، فرد یا گروہ سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے ہے۔ نیب کی کارکردگی مثالی ہے۔

نیب اپنے شفاف، منصفانہ اور میرٹ کے کاموں کے بارے میں کسی پروپیگنڈا مہم کے سامنے سر نہیں جھکائے گا اور بدعنوان عناصر کو گرفت میں لانے کا عمل جاری رکھے گا۔ کڈنی ہل ایریا کی اراضی پبلک پارک کے لیے مختص تھی۔ اعجاز ہارون نے مختلف ٹھیکیداروںکے نام پر اوورسیز سوسائٹی کے 12 پلاٹوں کی پرانی تاریخوں میں غیرقانونی الاٹمنٹ کی اور اوپن ٹرانسفر لیٹرکے ذریعے انکی ملکیت کا انتظام کیا۔ بعد میں سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون نے جان بوجھ کر عبد الغنی مجید کے ساتھ جائیداد کا معاہدہ کیا اوراے ون انٹرنیشنل اور لکی انٹرنیشنل کے نام پر جعلی بنک اکاؤنٹس سے144ملین روپے وصول کیے۔

اعجاز ہارون اور سلیم مانڈی والا کا جرم میں حصہ بالترتیب 80 ملین روپے اور 64.5 ملین روپے ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے اپنے بھائی کی کمپنی اور اس کے بنک اکاؤنٹ کو استعمال کیا تاکہ کاروباری لین دین کے طور پر چھپایا جاسکے۔ پلاٹ بیچنے والے احسن کو سلیم مانڈوی والا کے دستخطوں سے 20ملین کا پے آرڈر جاری کیاگیا۔ احسن کوجعلی اکاؤنٹ کے ذریعے 30 ملین روپے کی براہ راست ادائیگی کی گئی۔ دعوت ہدایت کراچی کو آخری قسط 4.6 ملین روپے ادا کی گئی۔

کسی شخص نے ٹیکس ریکارڈ میں متعلقہ رقم ظاہر نہیں کی تاہم جے آئی ٹی انکشاف کے بعد اعجاز ہارون نے ٹیکس گوشواروں میں ترمیم کرکے حقائق بدلنے کی کوشش کی اور رقم کو قرض کا رنگ دیا۔ سلیم مانڈوی والا نے 6 سے 8 ماہ بعد وہ پراپرٹی فروخت کردیاور آمدنی کو پھرکمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا جس کوانہوں نے 2013 سے چلانے کا اختیار حاصل کیا تھا۔ اکاؤنٹ کو دوبارہ سلیم مانڈوی والا نے اپنے ملازم طارق محمود کے نام پر31ملین روپے مالیت کے منگلا ویو ریزارٹ کے 30 لاکھ حصص کی خریداری میں استعمال کیا۔

یہ حصص 24ستمبر2020 کو احتساب عدالت نے منجمد کردیے ہیں۔ تمام ادائیگیاں سلیم مانڈوی والا کے اپنے دستخطوں سے کی گئی تھیں۔ طارق محمود سلیم مانڈوی والا کا ملازم اور بظاہر انکا بے نامی دار ہے۔ سلیم مانڈوی والا کو نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ 18 اکتوبر 2019 کو پیش ہوکر رقم کی وضاحت کریں۔تفتیش میں تعاون کے بجائے ملزم نے بزنس کمیونٹی کے پیچھے خود کو چھپانے کا سہارا لیا۔

گواہوں کی گواہی سے یہ ناقابل تردید نتیجہ سامنے آتاہے کہ سلیم مانڈوی والا جرم کی ایک بڑی رقم کے وصول کنندہ ہیں جس کا استعمال انھوں نے ذاتی فوائد کیلئے کیا۔معاملہ عدالت میں ہے۔ نیب اپنا مقدمہ احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش کرے گا۔ امید ہے کسی بھی خبر کو شائع یا نشر کرنے سے قبل نیب سے حقائق کی تصدیق کی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں