بجلی کا بلیک آؤٹ
بجلی کی ترسیل کنٹرول کرنے والے کنٹرول روم میں فریکوینسی45 درجہ سے صفر کی سطح تک گری۔
9 جنوری کو رات 11:00 بج کر 26منٹ پر سرکٹ بریکر کو ارتھ ختم کیے بغیر بند کر دیا گیا، یوں500 KW کی لائن بند ہوگئی اور بلوچستان اور پنجاب کی سرحد کے قریب سندھ میں قائم گدو تھرمل اسٹیشن کے نیٹ ورک میں بحران پیدا ہوا۔
بجلی کی ترسیل کنٹرول کرنے والے کنٹرول روم میں فریکوینسی45 درجہ سے صفر کی سطح تک گری۔ اس وقت آپریشن روم میں صرف آپریٹر موجود تھے اور انجنیئرز غائب تھے، یوں بحران کی نوعیت کی گہرائی کو محسوس نہیں کیا۔ پھر گدو، ڈیرہ غازی خان، کوٹ ادو کی بجلی کی لائنوں میں ترسیل رکی تو اس بحران کے اثرات ایک طرف بجلی کی مرکزی لائنوں کو متاثر کرگئے دوسری طرف کراچی کی فراہم کی جانے والی بجلی کی سپلائی بند ہوئی۔ چند منٹوں میں چاروں صوبوں میں روشنیاں گل ہونے لگیں۔
بلوچستان ، سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے تمام شہر اور گاؤں اندھیرے میں ڈوب گئے۔ پورے ملک میں بجلی کی بحالی میں 24 گھنٹے سے زائد عرصہ لگا۔ ملک کے صنعتی ادارے گیس کی کمی کا شکار ہیں۔ اچانک بجلی بند ہونے سے کارخانوں میں کام رک گیا۔ اسپتالوں میں بجلی بند ہونے سے مریضوں کی صحت پر برے اثرات رونما ہوئے، ریلوے کا نظام ٹھپ ہوا۔
کراچی واٹر بورڈ کے پمپوں نے کام بند کردیا اور شہریوںکو پانی کی فراہمی رک گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال کا عرصہ بیت گیا مگر ابھی تک اداروں میں ایڈھاک ازم کا راج ہے۔ اہم تقریایوں کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ گدو پلانٹ NTDC تین سال سے زائد عرصہ سے اپنے مینیجنگ ڈائریکٹر سے محروم ہے۔ اگر بجلی کی پیداوار اور سپلائی کے اداروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو جو حقائق نظر آتے ہیں وہ اس بحران کے بنیادی اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 1990 سے اہم تقرریوں میں پروفیشنل انجنیئرز نظرانداز کرکے دیگر اداروں کے افسر یہ نظام چلانے لگے۔ یوں ان اداروں کا نظام جدید پیشہ وارانہ اصولوں سے روگردانی کر کے چلایا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی کی سپلائی ہی متاثر نہ ہوئی بلکہ بجلی کی چوری بھی بڑھ گئی اور لائن نقصانات 2.3 بلین تک پہنچ گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بریک ڈاؤن کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک سبب شدید سردی اور اوس کا گرنا ہے جو اس موسم میں انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔ دوسری ٹیکنالوجی میں خرابی اور ایک اہم وجہ انسانی غلطی ہوسکتی ہے۔ اس بریک ڈاؤن کے حوالے سے جو رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کی گئی ہے، اس میں متعلقہ عملے کی غلطی اور غلفت کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس ضمن میں نچلے عملے کی معطلی کی خبریں شایع ہوئی ہیں مگر بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ہر سال متعلقہ آلات اور کیبلز کی مرمت کے لیے کروڑوں روپے کا بجٹ خرچ ہوتا ہے مگر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آلات اور کیبلز کی بروقت مرمت اور صفائی نہ ہونا ایک بنیادی وجہ ہے۔ جب قوائد و ضوابط کے تحت مقررہ وقت پر آلات اور کیبلز کی صفائی نہیں ہوگی تو پھر فالٹ کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ جب ادارہ کا سربراہ نہیں ہوگا تو پھر قوائد و ضوابط کے مطابق ہر سال صفائی کا معاملہ عملی شکل اختیار نہیں کرے گا اور کسی نہ کسی وقت پھر بجلی کے نظام میں رخنہ پیدا ہوگا۔
اتوار کو بجلی کا بحران پیدا ہوا۔ پھر بجلی کے وزیر اور ایک دوسرے اہم وزیر نے مورچہ سنبھال لیا اور فوری طور پر اس بریک ڈاؤن کا ملبہ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت پر ڈالنے لگے۔ جواب میں مسلم لیگ ن کے ترجمانوں نے گولہ باری شروع کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں 24000 MW بجلی اس نظام کے ذریعہ صارفین کو فراہم کی گئی اور اتنی بھاری مقدار میں بجلی کی فراہمی کے نظام میں کوئی خلل نہیں پڑا مگر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ٹی وی اسکرین پر گولہ باری سے اصل حقائق پس پردہ چلے گئے۔ ہمارے ملک کی عجب کہانی ہے۔
پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔ یہ ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا کے چند ممالک کے پاس ہے۔ ایٹم بم بنانے کا کام کسی دوسرے ملک کی مدد کے بغیر کیا مگر پورے ملک میں ایک ریلوے لائنزکا نیٹ ورک ہے جو انگریزوں کے دور میں تعمیر ہوالیکن اس میں مزید ترقی نہیں ہوئی۔
اگر کراچی سے پشاور تک اس ریل لائن میں کوئی حادثہ ہوجائے ، کسی ریل گاڑی کا انجن فیل ہوجائے، ڈبے گاڑی سے اتر جائیں یا بارشوں اور سیلاب سے کسی ایک شہر میں ریلوے لائن پر رکاوٹ پیدا ہوجائے تو پورا ریل کا نظام معطل ہوجاتا ہے اور اس نظام کی بحالی میں کم از کم 48 اور بعض اوقات 65 گھنٹے تک لگ جاتے ہیں۔ اس طرح پورا ملک ایک بجلی کی لائن پر چلتا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ قائم ہیں اور یہ وافر مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں مگر ساری بجلی نیشنل گرڈ سسٹم سے منسلک ہوجاتی ہے۔ کچھ برس پہلے تربیلہ کے بجلی گھر میں خراب پیدا ہوئی تھی، یوں تربیلہ سے کراچی تک بجلی کی سپلائی معطل ہوئی تھی۔ اس دفعہ گدو میں خرابی پیدا ہوئی۔ اس پلانٹ میں ہونے والی خرابی سے پورا ملک متاثر ہوا اور پورے کراچی شہر میں بجلی کی فراہمی بھی بند ہوگئی۔
جب بجلی کا نظام سرکاری کنٹرول میں تھا تو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے شہر میں کئی پلانٹ تعمیر کیے۔ 1970سے پاکستان کا پہلا ایٹمی گھر کینپ ہاکس بے پر قائم ہے۔ سرکاری طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چین کی مدد سے کینپ کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا ہے مگر اس بلیک آؤٹ سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید بجلی کی پیداوار نہیں بڑھی۔
اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والے انجنیئر رشید ابراہیم کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کو اپنی ترجیحات میں زیادہ اہمیت نہیں دی۔ قیمتی تاروں کو ہلکی تاروں تبدیل کیا گیا یا پھرتربیت یافتہ ٹیکنیشن اور افسروں کی برطرفی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کراچی میں بارش ہوتی ہے یا ہیٹ ویو (Heat Wave) آتی ہے تو بجلی کا بریک ڈاؤن ہوجاتا ہے۔
وفاقی حکومت ہر چھ مہینے بعد بجلی کے نرخ میں اضافہ کردیتی ہے۔ حکومت نے آخری اضافہ گذشتہ ماہ کیا مگر کے الیکٹرک بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی فراہمی کے جدید نظام کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
کراچی میں بجلی کی فراہمی کے نظام سے 40 سال تک منسلک رہنے والے انجنیئر رشید ابراہیم اس پاور بلیک آؤٹ کے تدارک کے لیے کہتے ہیں کہ بجلی کی فراہمی کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ نیشنل گرڈ سسٹم کے متبادل نظام قائم کیا جائے، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو براہِ راست بجلی کی فراہمی کی اجازت دی جائے۔ اگر بجلی کی فراہمی کے نظام کو De-centralizedکیا جائے ۔ اس طرح کسی ایک کنٹرول روم میں خرابی ہوگی تو پورا ملک اس سے متاثر نہیں ہوگا ۔ اس بلیک آؤٹ سے یہ بنیادی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اہم اداروں کے سربراہوں کے تقرر کو التواء میں نہ ڈالا جائے
حکومت کسی حاضر سروس بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا کسی اور ادارے کے افسروںکو کسی صورت ان اداروں کا سربراہ مقرر نہ کرے۔ پروفیشنل انجنیئرز کو یہ کام سونپا جائے۔ پھر اس طرح کے بلیک آؤٹ کو مستقبل میں روکنے کے لیے احتساب کا نظام قائم کیا جائے ۔ توانائی کے وزیر عمر ایوب نے وفاقی کابینہ کو خود رپورٹ پیش کی۔ اس میں ان اداروں کے سربراہوں کی فوری تقرری اور اس طرح کے بلیک آؤٹ کو مستقبل میں رونما ہونے سے روکنے کے لیے کوئی تجویز شامل نہیں ہے۔ بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توانائی کی وزارت کی دونوں ذیلی کمیٹیوں کو اس بارے میں تحقیقات کرنی چاہیے اور پھر پارلیمنٹ کو اس بارے میں پالیسی تیار کرنی چاہیے۔