حکومت پر اپوزیشن کے ساتھ ’’اپنوں‘‘ کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے

حکومت کی سب سے بڑی دشمن حکومت ہے۔


رضوان آصف January 20, 2021
حکومت کی سب سے بڑی دشمن حکومت ہے۔ فوٹو : فائل

حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو ''فتح'' کرنے کا مضبوط تاثر بنانے کی کوششیں مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

براڈ شیٹ کے معاملہ پر شادیانے بجانے والی حکومتی ٹیم اب بیک فٹ پر جا چکی ہے جبکہ اپوزیشن سست رفتاری سے ہی سہی لیکن اپنے ہدف کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے اور ہر آنے والا دن حکومت کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

اس کی ایک واضح مثال گزشتہ روز اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی ریلی ہے ۔حکومت کی سب سے بڑی دشمن حکومت ہے کیونکہ ڈھائی سال کے دور اقتدار میں کارکردگی کے حوالے سے حکومتی ٹیم نہ تو عوام کو مطمئن کر سکی ہے اور نہ ہی اپنے ''سرپرستوں'' کی امیدوں پر پورا اتری ہے۔ جس طرح کام چور بیل گردن ہلا کر گلے میں بندھی گھنٹی بجا کر اپنے مالک کو کام کرتے رہنے کا دھوکہ دیتا ہے بالکل ویسے ہی اس حکومت نے بھی اپنی آنیاں جانیاں اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کی من پسند تشریح دکھا کر بہت کام کرنے کا تاثر دیا لیکن عوام سب جانتی ہے۔

ڈھائی سال کا وقت ضائع کرنے کے بعد اب حکومت کے پاس آئندہ ڈھائی سال کا عرصہ باقی ہے لیکن عملی طور پر اس کے پاس کارکردگی دکھانے کیلئے صرف یہی سال یعنی 2021 ہے جیسے ہی 2022 کا آغاز ہوگا ملکی سیاست ''الیکشن موڈ'' میں چلی جائے گی ۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنما اور کارکن شدید ترین مایوسی اور عدم توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ،صرف وہی لوگ سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہے ہیں جن کے ہاتھ کوئی عہدہ لگ گیا ہے باقی بیچارے کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت تحریک انصاف کی حکومت نہیں بلکہ تحریک انصاف کو سپر سیڈ کر کے آنے والوں کی حکومت ہے ۔عمران خان کی وفاقی وصوبائی کابینہ پر نگاہ ڈالیں یا پھر اہم ترین عہدوں پر براجمان لوگوں کو دیکھیں تو دو تہائی سے زیادہ ایسے لوگ نظر آئیں گے جو عمران خان کی اس 22 سالہ جدوجہدمیں عملی طور پر شریک نہیں رہے جس کا ذکر ہمیشہ خان صاحب بہت جوش وجذبے سے کرتے ہیں۔

2018ء کا الیکشن جیتنے کے بعد ایک یا ڈیڑھ ماہ کا عرصہ نہایت اہم ثابت ہوا،حقیقی تحریک انصاف پس منظر میں چلی گئی اور انگلی کٹا کر شہید بننے والوں نے کپتان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے عمران خان کے تمام قریبی اور با اعتماد ساتھیوں کی سیاسی طور پر ''ٹارگٹ ہٹنگ'' کی گئی، عمران خان اپنے بعد سب سے زیادہ جہانگیر ترین پر بھروسہ کرتے تھے ،مخصوص لابی نے رائی کا پہاڑ بنا کر اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے جہانگیر ترین پر چینی سکینڈل بنا کر انہیں فارغ کروا دیا۔

شاہ محمود قریشی کی سیاسی فہم وفراست ہمیشہ عمران خان کے مفاد میں رہی لیکن آج شاہ محمود قریشی بھی بمشکل اپنا ''بھرم'' قائم رکھے ہوئے ہیں ورنہ انہیں بھی ''افسر بکار خاص'' بنانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے ۔عبدالعلیم خان پنجاب میں کپتان کا سٹار کھلاڑی سمجھا جاتا تھا لیکن سنٹرل پنجاب میں انتخابی شکست کا ملبہ علیم خان پر ڈال کر اور سردار عثمان بزدار کو بدگمان کر کے سازشی کھلاڑیوں نے اسے بھی سائیڈ لائن کردیا۔

کہنے کو تو چوہدری محمد سرور پنجاب کے گورنر ہیں لیکن انتخابی سیاست بالخصوص حلقوں میں برادری ازم کی شطرنج کے اس ماہر کھلاڑی کی صلاحیتوں کو گورنر ہاوس کی چار دیواری تک محدود کر کے حکومت نے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔سندھ میں فردوس نقوی بھی ''انا'' کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی ''راندہ درگاہ'' قرار دیئے جانے والے اپنوں کی طویل فہرست ہے۔

ضلعی سطح پر بات کریں تو ہزاروں ایسے نام موجود ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی کامیابی اور عمران خان کو وزیرا عظم بنانے کیلئے برسہا برس تک بے لوث اور والہانہ جدوجہد کی لیکن جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تو ان سب لوگوں کو نظر انداز کردیا گیا ۔نظر انداز کیئے جانے کا شکوہ شکایت اراکین اسمبلی میں بھی موجود ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 20 کے لگ بھگ اراکین نے ''ہم خیال گروپ'' کی صورت میں فارورڈ بلاک یا پریشر گروپ بنا لیا ہے۔

اس گروپ میں غضنفر عباس چھینہ، گلریز افضل گوندل، تیمور لالی، خواجہ داود سمیت دیگر لوگ شامل ہیں ۔یہ گروپ سردار عثمان بزدار کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہے اور اس گروپ نے وزیر اعلی کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید سے ملاقات کر کے انہیں بھی اپنے مطالبات اور تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ برس جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی مکمل حمایت اور طاقت دیکر میجر (ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری بنا کر پنجاب بھیجا تو میجر(ر) اعظم سلیمان کے معاملے پر وزیرا عظم پر دباو بڑھانے کیلئے بھی ایک پریشر گروپ بنوایا گیا تھا جس نے متعدد پریس کانفرنسز کے ذریعے اعظم سلیمان کو دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کردیا تھا اور چند ماہ بعد سردار عثمان بزدار انہیں تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے لہذا تحریک انصاف میں بننے والے ہر پریشر گروپ کے پس منظر میں کچھ اہم مقاصد ضرور ہوتے ہیں ۔باخبر حلقوں کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں سے سپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری پرویز الہی بہت اہمیت اختیار کر رہے ہیں ۔

تقریبا دو سال تک ''کٹی'' کئے رکھنے کے بعد اب عمران خان کی چوہدری پرویز الہی سے یاری ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں شاید یہ دوستی کرنا وزیرا عظم کی ضرورت اور مجبوری بھی ہے کیونکہ سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے دہی کے امکانات زیادہ ہیں اور ایسے میں تحریک انصاف کو خطرات لاحق ہیں جن سے نبٹنا ایک سیاسی دانشمند ٹیم کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

چوہدری برادران ہمیشہ سے ملکی سیاست میں وضع دار سیاستدان کے طور پر معروف ہیں اور انہیں جوڑ توڑ کرنے میں بھی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ چوہدری برادران پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایسا ستون ہیں جو ذرا بھی کھسکا تو سب کچھ تہہ وبالا ہوجائے گا۔ سردار عثمان بزدار کے حوالے سے بھی یہ اطلاعات دوبارہ زور پکڑ رہی ہیں کہ وزیر اعظم اب سنجیدگی سے اس بارے نظر ثانی کر رہے ہیں کیونکہ ڈھائی سال میں پنجاب میں تحریک انصاف ڈیلیور نہیں کر سکی ہے اور اب مشکل اور بڑے فیصلوں کا وقت قریب آرہا ہے ،پنجاب میں ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم کو چوہدری پرویز الہی کی مکمل حمایت درکار ہو گی۔ وزیر اعظم کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ''متبادل'' کی تلاش ہے۔

سردار عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور اگر کسی ممکنہ تبدیلی کیلئے سنٹرل پنجاب سے امیدوار کا انتخاب کیا جاتا ہے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے اراکین کی نمایاں تعداد ناراض ہو سکتی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اراکین اسمبلی نے اہم ترین بلکہ فیصلہ ساز کردار نبھایا ہے ،جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قائد مخدوم خسرو بختیار آج بھی اپنے گروپ کو یکجا رکھے ہوئے ہیں ۔پنجاب کابینہ میں ردوبدل بھی ہوگا لیکن سینیٹ الیکشن کے بعد ،کئی برج الٹ سکتے ہیں۔

پنجاب کابینہ کے ایک نومنخب وزیر یاور بخاری کے حوالے سے اراکین اسمبلی میں بہت دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں اور یہ قصہ سنایا جارہا ہے ( جو درست بھی ہوسکتا اور غلط بھی) کہ ایک طاقتور شخصیت کی جانب سے یہ فرمائش آئی تھی کہ یاور بخاری کو پنجاب کا وزیر داخلہ بنایا جائے ،وزیر اعظم اور وزیر اعلی تقریبا متفق بھی ہو گئے تھے اور تمام اراکین کابینہ اور اسمبلی کو بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ یاور بخاری کو وزارت داخلہ مل رہی ہے ،باخبر حلقوں کے دعوے کے مطابق جس شخصیت نے یاور بخاری کی سفارش کی تھی ،اس نے یاور بخاری کو متعدد فون کیئے لیکن بخاری صاحب نے کال اٹینڈ نہیں کی جس پر مذکورہ شخصیت ناراض ہو گئی جس کے نتیجہ میں یاور بخاری کو داخلہ جیسی طاقتور وزارت کی بجائے سوشل ویلفیئر کی وزارت دی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں