لاہورکے دو سرخ پوش
اب تک میرے ذہن کی پٹاری میں کسی نہ کسی زاویے سے محفوظ ہیں۔
مجھ پرکمیونسٹ تحریک کے ایک ساتھی کے طور پرکمیونسٹ نظام حکومت قائم کرنے کی جدوجہد میں بہت سے قرض واجب ہیں اور ان سوشلسٹ سرفروشوں کے ساتھ بیتنے والے وہ شب روز جن سے میرا شعورصیقل ہوا۔
اب تک میرے ذہن کی پٹاری میں کسی نہ کسی زاویے سے محفوظ ہیں ، ان میں بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال لاہورکے ان چار سیاست کے گرم جوالا نوجوانوں کا قرض بھی باقی ہے، جن کا ایک فرد فرخ سہیل گویندی خود ہے، جو اب تک عوام کے مسائل حل کرنے کی ڈگر پر اپنے سیاسی اور تجرباتی شعور سے خراماں، خراماں اپنے خواب کی تکمیل کی جانب گامزن ہے، بسا اوقات میں فرخ کی وجہ سے بہت گم گشتہ مارکس وادیوں سے جڑکر خودکو نہ صرف توانا بلکہ ماضی کی نہ بھولنے والی صورتحال میں رچا بسا لیتا ہوں۔
فرخ سہیل گویندی اور اس کے احباب کی اس وقت کے سیاسی شعور پرگفتگو اب بھی میرا موضوع نہیں، مگر یہ مجھ پر قرض ضرور ہے،جب کہ مقروض ہونا مجھے بالکل پسند نہیں، سو یہ قرض بہت جلد اترنے کے مرحلے میں ہے۔
میری لاہورکی سیاسی ،ادبی اور صحافتی مصروفیات میں ماضی کے جھروکوں کا درکھولنے کا سہرا بھی فرخ سہیل ہی نے فراہم کیا تو میری یاد میں اسلم رحیل مرزا اور قمر یورش کود آئے۔ میں اس دم 90 کی دہائی کی ایک سرمئی شام کو نہ بھلا سکا،جس میں میرے ساتھ گھٹے ہوئے قدکے چوڑے،کشادہ چہرے اور مضبوط جسم کے قمر یورش تھے اورہم دوست بس صرف ان کی جدوجہد کی داستانوں میں گم ہوجاتے سورج کی پرواہ کیے بغیر رات کے سایوں میں خود کو پانے کے باوجود مجال کہ ٹس سے مس ہو جاتے ، قمر یورش ان دنوں پانی والا تالاب کے قریب تنگ وتاریک گلیوں کے ایک گھر میں اپنا مسکن بنائے ہوئے تھے، اورکسی بھی سماجی طعنہ ودشنام کی پرواہ کیے بغیر انتہائی مطمئن زندگی گذار رہے تھے۔
ان دنوں قمر یورش، شعیب بھٹی اور فاروق طارق کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد قائم کیے ہوئے تھے اور غالباً ان کے رسالے میں باقاعدگی کے ساتھ لکھتے بھی تھے۔ قمر یورش بنیادی طور پر محنت کشوں کو منظم کرنے میں کمیونسٹ پارٹی کے مزدور فرنٹ سے وابستہ رہے،قمر یورش حسن ناصرکی نظریاتی جدوجہد کے گرویدہ تھے اور ان کو کمیونسٹ تحریک کا سب سے مضبوط محرک گردانتے تھے،اور اسی بنا انھوں نے مزدور تحریک میں سیاسی شعور پھیلانے کا سب سے اہم کام ریلوے مزدوروں میں مرزا ابراہیم کے ساتھ کیا،جب کمیونسٹ پارٹی پر ریاستی تشدد اور جبر پوری قوت سے جاری تھا تو یہ نڈر اور بے خوف سرفروش لال جھنڈا بلندکیے ریاستی ظلم و جبر کے سامنے ہمیشہ سینہ سپر رہا،جبرکے منہ میں سیاسی شعورکے جبڑے سے ریاست کے ایوانوں میں دراڑ ڈالتے رہا۔
قمر یورش نے گاؤں گاؤں قریہ قریہ خاک چھانی اورکمیونزم کی مزدور دوستی اور جمہوری آزادی کا درس دیتے ہوئے سالوں روپوشی کی زندگی گذاری، جہاں جہاں ریاستی جبر ان کے قریب پہنچتا ، قمر یورش اور ساتھی روپوشی میں اپنی جگہ تبدیل کر لیتے، مزدور تحریک میں جدوجہد کرنے کی سزا کے طور پر جب قمر یورش کی زندگی ریاست نے تنگ کرنا شروع کی تو قمر یورش نے پارٹی ڈسپلن کے تحت خود کوگرفتاری کے لیے پیش کردیا۔ مزدور حقوق کی پاداش میں ریاست نے قمر یورش کو مبینہ خطرناک مجرم قرار دے کر شاہی قلعہ میں قید کر دیا۔کمیونسٹ جدوجہد اور مزدور تحریک کے دوران قید ومشقت پر مبنی قمر یورش کی معرکتہ الآرا کتاب'' شاہی قلعہ کی ڈائری'' آج کے نوجوان کو ہرصورت پڑھنی چاہیے جب کہ اس اہم کتاب کی مزید اشاعت آج کے دور میں پہلے سے زیادہ ضروری ہوگئی ہے۔
قمر یورش بیک وقت مزدور رہنما ، شاعر اور رہائشی علاقے ہیرا منڈی کے ان داتا اور مہان باپ کے سائے کی مانند تھے،ان سے اس بستی کا ہر دکھی اپنا دکھ درد بانٹتا تھا اور وہ ان کی زندگیوں میں تحرک کا نشان تھے، ہم نے جب حیرانگی سے اس بدنام زمانہ جگہ کے انتخاب کی وجہ جاننا چاہی تو قمر یورش نے کہا کہ یہی سب میرے بچے بیٹیاں اور میرے پالنہار ہیں، انھوں نے ہی میری تنہا زندگی کو رونق بخشی ہے۔ صبح وشام میری خبرگیری کی ہے، میرے دکھ سکھ کو سمیٹا ہے، اب بتاؤکہ میں اپنے اس چاہت بھرے کنبے کوکس طرح چھوڑ سکتا ہوں جو بلا تفریق انسان ہونے کے ناتے ہر دم میری قدم بوسی کرتا ہے، بس اس کے عوض یہاں بسنے والے مجھ سے تعلیم اور تربیت کی لالچ ضرور رکھتے ہیں سو میں صبح بچوں کو دینی تعلیم اور سہ پہر کو درسی تعلیم دے دیتا ہوں،جس کے بدلے یہ رات گئے تک میرا رستہ دیکھتے رہتے ہیں اور میری آمدکا یقین کرکے اپنے حجروں میں چلے جاتے ہیں۔
قمر یورش کی زندگی کا یہ منفرد اور تحریکی پہلو ضرور نئی نسل کے سامنے آنا چاہیے جس کا قرض لاہورکے دوستوں پر واجب ہے۔ کتابوں کے دھنی اور خود میں مکمل نظریاتی خو لیے اسلم رحیل مرزا سے میری ملاقات باضابطہ کمیونسٹ پارٹی کی روہڑی کانگریس میں ہوئی، جہاں اسلم رحیل مرزا کمیونسٹ تحریک کی کتابوں کی گٹھری سنبھالے کانگریس کے ہال کے باہرکتابیں سجائے بیٹھے رہتے، میرا پہلا گمان یہ ہوا کہ یہ کوئی کتابیں اشاعت کرنے والے ادارے کے فرد ہیں کہ جن کا کام کتابوں کی فروخت ہے، مگر جب میں نے انھیں کانگریس ہال میں بحث کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ اس کتاب بیچنے والے کا کانگریس میں کیا کام؟ تو پتہ چلا کہ اسلم رحیل مرزا لاہور سے پارٹی ڈیلیگیٹ کی صورت کانگریس میں شرکت کر رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ یہ کانگریس سردیوں میں روہڑی میں رکھی گئی تھی،جس میں دبلے پتلے چھ فٹ کے لمبے اوورکوٹ اور مفلر میں ملبوس اسلم رحیل مرزا عقابی نگاہوں سے کانگریس میں داخل ہوا کرتے تھے اور ہمیشہ آخری کرسیوں پرکانگریس کی کارروائی کا حصہ بنے رہتے تھے، یہ وہ وقت تھا جب روس میں گورباچوف سرمایہ دارانہ خرمستیوں کو ردِ انقلاب کی صورت میں تبدیل کر رہا تھا اور دنیا میں نئے سیاسی اتحاد نمو پارہے تھے۔
اسی کوشش میں میجر اسحاق کی مزدورکسان پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے انضمام کی باتیں چل رہی تھیں،ہم دیگر ساتھیوں کے ساتھ اس انضمام پر تحفظات رکھتے تھے جب کہ اسلم رحیل مرزا ہماری اس فکر کے ہم رکاب ہوکر خم ٹھوکے ہمارے موقف کی حمایت کرتے تھے۔ اس کانگریس میں تو ہم اقلیت کی رائے اکثریت کے فیصلے کو نہ منوا سکی مگر آخری نتائج میں یہ انضمام باقی نہ رہا، اس طرح اسلم رحیل مرزا کا مضبوط پارٹی کا خواب ادھورا رہ گیا اور یوں ہم ان کے قبیل کے ہو لیے اور لاہور آمد پرکبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم اسلم رحیل ایسے پختہ کار نظریاتی کی محفل سے محروم رہے ہوں۔
اسلم رحیل مرزا سے ہماری ملاقات کا اکثر ٹھکانہ اچھرہ میں کامریڈ تنویرکا اشاعتی مرکز'' الفاظ '' ہوتا تھا،اسی اشاعتی مرکز نے اسلم رحیل مرزاکی بیشتر تصانیف چھاپیں اور عمومی طور سے اسلم رحیل مرزا کی ملاقات کا مرکز یہی جگہ ہوا کرتی تھی۔