سنہرے لوگ حاجی سر عبداللہ ہارون

تحریک پاکستان کا ایک ناقابل فراموش کردار پروفیسر شاداب احمد صدیقی، حیدرآباد


تحریک پاکستان کا ایک ناقابل فراموش کردار پروفیسر شاداب احمد صدیقی، حیدرآباد۔ فوٹو: فائل

تحریک پاکستان میں سندھ کے دانش وروں، ادیبوں، شعرا کرام اور صحافیوں کا بہت اہم کردار تھا، جنھوں نے قیام پاکستان کے لیے دن رات انتھک جدوجہد کی۔

اسی حوالے سے ایک ایسا کردار بھی ہے جس نے پاکستانی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا اور سیاسی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ یہ تاریخ ساز شخصیت حاجی سر عبداللہ ہارون کی ہے۔

آپ نے پاکستانی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا اور سیاسی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ سر عبداللہ ہارون نے اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کے کردار کی اہمیت کو برصغیر میں اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ غلام محمد بھرگڑی کے بعد سندھ کے سیاسی اور قومی اُفق پر جو ستارہ طلوع ہوا وہ سر حاجی عبداللہ ہارون تھے۔

انھوں نے اپنی جان اور مال کو بے دریغ قومی اور سیاسی کاموں پر صرف کیا۔ وہ نہ صرف ایک بڑے تاجر تھے بلکہ سندھ کی تحریک آزادی میں انھوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی تاریخ انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔

سر عبداللہ ہارون 1872 میں ایک غریب میمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے کاروبار کا شغل اختیار کیا اور رفتہ رفتہ کراچی کے ایک مشہور تاجر بن گئے۔ انھوں نے تجارت میں اپنی مسلسل محنت اور جفاکشی سے ترقی کی۔ سادگی اور کفایت شعاری ساری عمر ان کا شعار رہا، لیکن سیاسی اور قومی کاموں میں وہ حاتم طائی تھے۔ سر حاجی عبداللہ ہارون کے آباواجداد ہندوستان کی ریاست ''کچھ'' میں قیام پذیر تھے جن کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔

آپ کے والد کا نام ''ہارون'' تھا۔ چوبیس برس کی عمر میں ریاست ''کچھ'' سے مستقل نقل مکانی کرکے سندھ میں آباد ہوئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں بھی تجارت شروع کی، لیکن خاطرخواہ کام یابی حاصل نہ ہو سکی۔ معمولی سے کاروبار سے گزر بسر مشکل سے ہو پاتا لیکن عبداللہ ہارون کی والدہ حنیفہ بائی انتہائی سمجھ دار اور سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔

ان مشکل حالات میں باعزت طریقے سے زندگی گزارتی رہیں۔ عبداللہ ہارون کو اعلیٰ مقام ان کی والدہ حنیفہ بائی کی بدولت حاصل ہوا۔ ان کے بڑے بھائی کا نام عثمان تھا، یہ ابھی صرف چار برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور عبداللہ ہارون کی پرورش، تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمے داری کا بوجھ آپ کی والدہ محترمہ حنیفہ بائی پر پڑ گیا۔ والدہ نے آپ کو کراچی کے ایک گجراتی اسکول میں داخل کرایا۔ آپ نے تقریباً دو یا تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی۔ مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے آپ کی طبیعت تعلیم کی جانب مائل نہ ہوسکی، آپ کی والدہ نے آپ کو تجارت کی طرف مائل کیا۔

سر حاجی عبداللہ ہارون نے عملی زندگی کا آغاز بچوں کے کھلونے اور معمولی ساز و سامان فروخت کرنے سے کیا۔ اس وقت آپ کی عمر 6 برس تھی لیکن بہت جلد اس کام کو چھوڑ کر ایک دکان پر ملازمت اختیار کرلی۔ یہ دکان سائیکلوں کی مرمت کی تھی جو جونامارکیٹ میں تھی جب کہ آپ کی رہائش صدر میں تھی۔

دکان دار چار آنے یومیہ مزدوری دیتا تھا۔ حاجی عبداللہ ہارون کے ماموں اور بہنوئی سیٹھ صالح محمد ہندوستان کے بڑے تاجروں میں سے تھے۔ چناںچہ حاجی عبداللہ ہارون نے ابتدا میں ان سے مل کر تجارت شروع کی رفتہ رفتہ آپ اس میدان میں پاؤں جماتے گئے۔ تجارت کی غرض سے آپ نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور پھر کراچی کے جوڑیا بازار میں ایک دکان کھولی اور باقاعدہ آپ نے تجارت کا آغاز کیا۔ دکان سے آمدنی اچھی ہوئی، ساتھ ہی آپ نے ایک گجراتی ہندو پرشوتم داس سے مل کر شکر کا کاروبار شروع کیا۔ اس کام میں آپ کو کافی فائدہ ہوا۔

سر عبداللہ ہارون کی سماجی اور فلاحی کاموں کی ابتدا جوڑیا بازار کی دکان کے زمانے میں ہوئی۔ آپ کی فلاحی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ کاروبار میں بھی اضافہ ہوا، لوگ آپ کو ''شکر کا راجا'' کہنے لگے اور کراچی کا تاجر طبقہ آپ کو سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون کہنے لگا۔ حکومت وقت تجارت کے سلسلے میں آپ سے صلاح و مشورے کرنے لگی اور آپ کو ایک بڑے تاجر کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ حکومت نے آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو ریزرو بینک کے ڈائریکٹر کے عہدے کی پیش کش کی جو آپ نے قبول نہیں کی لیکن آپ اس بینک کے شیئرز کی الاٹمنٹ کرنے والی کمیٹی کے رکن رہے۔

حاجی عبداللہ ہارون کی ازدواجی زندگی کی ابتدا 1887 میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر 15 برس تھی۔ آپ کی والدہ نے آپ کی شادی رحیمہ بائی سے طے کی۔ شدی کے بعد آپ حج پر تشریف لے گئے۔ 1895 میں آپ نے دوسری شادی کی اور 12 نومبر 1913 کو آپ نے تیسری شادی ایرانی نژاد ڈاکٹر حاجی خان کی صاحب زادی لیڈی نصرت سے کی۔ سر حاجی عبداللہ ہارون کی سیاسی و سماجی خدمات تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ آپ سندھ کی سیاست کی صف اول کی شخصیت تھے۔

میونسپل کارپوریشن سے لے کر مرکزی مجلس قانون ساز تک کوئی ادارہ، کوئی منصوبہ یا کوئی عمل ایسا نہ تھا جو مسلمانوں کی بہتری کے لیے ہو اور عبداللہ ہارون اس میں شامل نہ ہوں۔ خلافت تحریک، ریشمی رومال، بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک، سیاسی کانفرنسیں، تعلیمی کانفرنسیں، آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس، انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ خصوصاً سندھ مسلم لیگ، رفاہ عامہ، برصغیر کی تمام تحریکوں میں آپ نے حصہ لیا۔1901 سے 1942 انتقال تک مسلمانوں کی تمام تحریکوں میں آپ کا اہم کردار رہا اور آخر مسلم لیگ کے ہو رہے اور نظریہ پاکستان کو اپنا کر اپنی تمام توانائیاں اس نظریے کے لیے وقف کردیں۔

سر حاجی عبداللہ ہارون نے 1901 میں سیاست میں دل چسپی لینی شروع کی۔ سب سے پہلے آپ نے عوامی جلسوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1909 میں آپ نے اپنے تجارتی مرکز کو جوڑیا بازار سے منتقل کرکے ڈوسلانی منزل میں منتقل کردیا۔ ابتدا میں وکٹوریہ روڈ پر ایک بنگلہ خریدا بعدازآں جائیداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیا اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے شروع ہوجانے کے بعد اپنی رہائش ''سیفیلڈ'' واقع کلفٹن میں اختیار کی جو بعد میں ہندوستان کے مسلمان راہ نماؤں کا گڑھ بن گئی۔

1911 میں جنگ طرابلس کے موقع پر ترکوں کی امداد کے لیے برصغیر میں انجمن ہلال احمر کے زیراہتمام چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ سندھ میں میر ایوب علی خان صاحب کی سربراہی میں انجمن ہلال احمر کی شاخ قائم ہوئی جس کے سیکریٹری اور خزانچی سر عبداللہ ہارون تھے۔ اکتوبر 1913 تک وہ چندہ جمع کرکے بھیجتے رہے۔

1913 میں کراچی کے شہری کاموں میں دل چسپی لینی شروع کی اور کراچی میونسپلٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جب برصغیر میں کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کی تحریکیں شروع ہوئیں تو 1919 میں سر عبداللہ ہارون سندھ خلافت کمیٹی کے صدر چنے گئے۔ بعدازآں آپ کو سینٹرل خلافت کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ لاڑکانہ میں خلافت کانفرنس کا بڑا اجلاس ہوا، جس کی صدارت پیر رشد اللہ شاہ جھنڈے والے نے کی، اس میں عبداللہ ہارون بھی شریک رہے۔

اس کے کچھ دن بعد آل انڈیا خلافت کانفرنس کا اجلاس بمبئی میں رئیس غلام محمد بھرگڑی کی صدارت میں ہوا۔ اس میں سر عبداللہ ہارون نے شرکت کی بلکہ مولانا شوکت علی کی پیش کی ہوئی تجویز کی تائید کی، جس میں کہا گیا تھا کہ خلافت تحریک کے پرچار کے لیے یورپ میں ایک وفد بھیجا جائے، جس کے لیے تین لاکھ روپے اکٹھے کیے جائیں۔



مسلمانوں کی آواز کو دنیا میں پہنچانے اور عام کرنے کے لیے حاجی عبداللہ ہارون نے برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً سندھ کے مسلمانوں میں علم کی روشنی اجاگر کرنے، آزادی کی تحریک، سیاسی بیداری پیدا کرنے اور مسلمانوں کی آواز برصغیر کے برسراقتدار حکم رانوں تک پہنچانے کے لیے 1920 میں ترکی کے خلیفہ سلطان وحید الدین کے نام پر اخبار ''الوحید'' جاری کیا۔ سندھ کی ممتاز شخصیت اور حاجی عبداللہ ہارون کے قریبی دوست عبدالمجید سندھی اخبار کی ادارت میں شامل تھے وہ اس اخبار کے اولین ایڈیٹر بھی تھے۔

الوحید کی اشاعت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوئی۔ اس وقت کے نام ور مسلمان ادیبوں، عالموں، سیاسی شخصیات اور دانش وروں نے مضامین لکھنا شروع کیے جس کا مثبت اثر ہوا۔ اس وقت اس اخبار کو جاری ہوئے مشکل سے سات ماہ کا عرصہ ہی ہوا تھا ہندو اور انگریز اس کی مقبولیت سے پریشان ہوگئے اور بمبئی کی حکومت نے اخبار کی مقبولیت، شہرت اور اس کے مشن سے جو وہ برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً سندھ کے مسلمانوں میں جدوجہد آزادی کے سلسلے میں جوش و جذبہ پیدا کر رہا تھا۔

ایک مضمون کی اشاعت کا سہارا لیتے ہوئے اخبار سے 25 ہزار روپے زرضمانت کے طور پر طلب کیے اور اخبار کے مدیر قاضی عبدالرحمن کو گرفتار کرکے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا۔ مولانا دین محمد وفائی جو الوحید اخبار کے نائب مدیر تھے اور اخبار میں مسلسل مضامین بھی لکھ رہے تھے، ان کو اخبار کا مدیر مقرر کیا گیا جو بیس سال تک مدیر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مولانا وفائی کی سرپرستی میں الوحید نے روزنامہ کے علاوہ ایک تحریک کی حیثیت اختیار کرلی اور یہ اخبار سندھ کے مسلمانوں کی آواز اور ترجمان بن گیا۔

''الوحید'' نے سندھ میں آزاد اور بے باک صحافت کی نہ صرف ابتدا کی بلکہ صحافت میں ایک مثالی کردار ادا کیا۔ اس اخبار نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک کو عوام میں عام کرنے اور حکومت وقت پر عوامی نقطہ نظر کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1930 میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد الوحید کا ایک خاص نمبر ''سندھ آزادی نمبر'' شایع کیا جس کی ایک تحقیقی اور تاریخی حیثیت ہے۔ یہ خاص نمبر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی مکمل داستان ہے۔ الوحید نے خلافت تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

الوحید کے ایڈیٹر قاضی عبدالرحمن کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں پر کراچی کے خالق دینا ہال میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ الوحید نے سندھ میں چلنے والی ''تحریک نصرت اسلام'' کو نہ صرف روشناس کرایا بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ ہندوؤں کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کس طرح کریں۔ تحریک ریشمی رومال میں حاجی عبداللہ ہارون کا اہم کردار تھا۔ آپ نے اس دوران بڑی رقم خرچ کی۔ خلافت لیگ اور مسلم کانفرنس کی تنظیم میں چپ چاپ گراں قدر امداد دیتے رہے۔ آپ نے مالی امداد کا حساب کبھی نہیں رکھا۔

جب شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ سندھی کو تحریک کے سلسلے میں کابل جانے کا حکم دیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کابل جانے کے لیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت اہم مسئلہ اخراجات کا درپیش آگیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس مقصد کے لیے سر عبداللہ ہارون سے ملاقات کی، آپ نے فوراً پانچ ہزار روپے پیش کردیے۔

حاجی سر عبداللہ ہارون ہمیشہ دوسروں کے لیے جیے اور دکھی انسانیت خدمت کرکے معاشرے میں بلند مقام حاصل کیا۔ اگر آپ کسی کی مدد کرتے تو نہایت رازداری سے کرتے تھے۔ آپ کے نزدیک نیکی کا پرچار یا خدمت کی تشہیر خدمت کی روح کو ختم کردیتی ہے۔ 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کا نصب العین مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ سر عبداللہ ہارون کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اتحاد پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی تنظیم شروع کی اور مسلم لیگ کی آواز کو گھرگھر تک پہنچا دیا۔

آپ 1920 میں سندھ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور 1942یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلم لیگ صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے جدوجہد آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ ہندوستان کی تقسیم کی پہلی قرارداد سندھ کی مجلس قانون ساز نے منظور کی۔ عبداللہ ہارون نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سندھ کے مسلمانوں میں پاکستان کے قیام کی تحریک کو اس قدر مقبول کردیا کہ سندھ کا بچہ بچہ پاکستان کے قیام کا حامی بن گیا۔ قائد اعظم کو عبداللہ ہارون پر مکمل اعتماد تھا اور آپ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

مسلم لیگ کے مسلمانوں کی بہتری کے تمام پروگرام حاجی عبداللہ ہارون کے گھر پر تیار ہوتے تھے۔ 1938 میں سندھ پراونس مسلم لیگ کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا، قائد اعظم نے اس اجلاس کی صدارت کی، عبداللہ ہارون نے سندھ کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل جاری کی جس میں سندھ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔ کانفرنس نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اہم کانفرنس ثابت ہوئی۔ عبداللہ ہارون نے مختلف اسلامی ممالک کے اخبارات کے نام خطوط بھی ارسال کیے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے نقطہ نظر کی وضاحت واضح اور صحیح طور پر کریں۔

قیام پاکستان کے سلسلے میں سندھ مسلم لیگ کی سرپرستی حاصل ہوئی تو آپ نے نہ صرف ایک بڑی جماعت اس کے حامیوں کی تیار کی بلکہ پورے صوبے میں پاکستان کی تحریک کی روح پھونک ڈالی۔ عبداللہ ہارون نے قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں اکتوبر 1938 میں سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس میں آزادی پاکستان کی راہ داری کا آغاز کیا۔ آپ نے 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے 27 ویں اجلاس میں سندھ کے تمام مسلمانوں کی جانب سے قرارداد پاکستان کی بھی حمایت کی۔

حاجی عبداللہ ہارون نے 1917 میں پہلی بار انڈین نیشنل کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لینا شروع کیا لیکن جلد ہی وہ ہندوستان کی کانگریس پارٹی کی پالیسیوں سے مایوس ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ پارٹی میں شامل ہوگئے اور اپنی موت تک اس کے مضبوط حامی رہے۔ عبداللہ ہارون کو کنگ جارج ششم VI نے 1937 میں اپنی تاج پوشی آنرز کی فہرست میں بطور بہادر سردار شامل کیا تھا اور آپ کو ''سر'' کا خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح آپ سر عبداللہ ہارون کہلانے لگے۔ انگریز حکم راں بھی آپ کی عزت اور قدر کرتے تھے۔

سر عبداللہ ہارون مرحوم 6 سال تک مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن کی حیثیت سے سندھ کی نمائندگی کرتے رہے۔ آپ پہلی مرتبہ 1936 میں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اور 1942 یعنی اپنے انتقال تک اس ادارے میں سندھ کی نمائندگی کرتے رہے۔ آپ نے ایک قانون منظور کروایا جس کی رو سے مسلمان خواتین کو اسلامی قانون وراثت کے مطابق عورتوں کو آبائی جائیداد سے ان کا جائز حق ملنے لگا۔ آپ نے 1928 میں مجلس قانون ساز میں ایک قرارداد پیش کی جس کی منظوری کے بعد حکومت نے حج تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی اور حاجی عبداللہ ہارون کو اس کمیٹی کا رکن نام زد کیا گیا۔

تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد شروع ہوا اور عازمین حج کی بیشتر تکالیف دور ہوگئیں۔ کراچی میں پرانے حاجی کیمپ کی تعمیر حاجی عبداللہ ہارون کی زیرنگرانی ہوئی اور آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں حاجی کیمپ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ حکومت وقت نے آپ کو 1934 میں حج کمیٹی کا چیئرمین نام زد کیا اور آپ تین سال تک اس کمیٹی کے چیئرمین رہے۔

حاجی سرعبداللہ ہارون میونسپل کارپوریشن کے رکن کی حیثیت سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ آپ کا لیاری بستی سے تعلق ہونے کی وجہ سے چناںچہ آپ نے کراچی کی اس قدیم بستی لیاری کو جدید اور عام سہولتوں سے آراستہ کرنے اور عوام کو اتمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق لیاری کو بارہ گاؤں یعنی لیاری کو چھوٹی چھوٹی بستیوں میں تقسیم کرکے ہر بستی کو یکے بعد دیگرے تمام سہولیات سے آراستہ کیا جانا تھا۔

اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عبداللہ ہارون نے بارہ میں سے ایک بستی کو نمونہ کے طور پر تعمیر کرنے کے لیے اپنی جانب سے پونے دو لاکھ روپے کی رقم کا اعلان کیا لیکن نامعلوم وجوہات کے سبب حاجی عبداللہ ہارون کے اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی شہر کی یہ بستی آج تک ان تمام سہولیات سے محروم رہی۔

عبداللہ ہارون نے 1923 میں کراچی کی قدیم آبادی لیاری میں کھڈا مارکیٹ کے مقام پر جس کا موجودہ نام میمن سوسائٹی ہے جامعہ اسلامیہ و یتیم خانہ قائم کیا۔ اس جامعہ اسلامیہ اور یتیم خانے کے تمام اخراجات عبداللہ ہارون اپنی زندگی میں خود پورا کیا کرتے تھے۔ اب اس ادارے کے انتظامی امور حاجی عبداللہ ہارون ایسوسی ایشن کے سپرد ہیں۔ یہ ایسوسی ایشن حاجی عبداللہ ہارون کے انتقال کے بعد قائم کی گئی۔

ایسوسی ایشن نے عبداللہ ہارون کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے کئی فلاحی پروجیکٹ شروع کیے جن میں پرائمری و سیکنڈری اسکول یعنی حاجی عبداللہ ہارون اسکول، حاجی عبداللہ ہارون ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور حاجی عبداللہ ہارون کالج اور اسپتال کا قیام جامعہ اسلامیہ یتیم خانہ کے احاطے میں عمل میں آیا۔ جب پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد کی جا رہی تھی تو سندھ کا موجودہ علاقہ بمبئی میں شامل تھا۔ مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے کراچی کو بمبئی میں شامل کرنے کی سازش کی جا رہی تھی۔

اس وقت برصغیر کی آزادی تحریک کے سپہ سالار حاجی سر عبداللہ ہارون سندھ کو بمبئی سے آزاد کرانے کے لیے سرگرم ہوگئے اور آپ نے 1926 میں سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے الگ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کردیا۔ 1928 کی بات ہے جب ایک دو لاکھ روپے آج کے کروڑوں روپوں کے برابر تھے، اس وقت سر عبداللہ ہارون نے انگریز سرکار کو کراچی میں مسلمانوں کی اکثریت دکھانے کے لیے اس وقت کے میونسپل کمشنر سے لیاری کو 2 لکھ روپے میں خرید لیا، جس کی رجسٹری آج بھی کے ایم سی میں موجود ہے۔ لیاری میں دو قوموں بلوچوں اور کچھیوں کو ایک ساتھ لا کر آباد کیا گیا۔

عبداللہ ہارون نے کچھ انڈیا سے کچھیوں اور مکران اور لسبیلہ سے بلوچوں کو یہاں بلایا تھا اور انھیں زمینوں کے کاغذات گفٹ کے طور پر فراہم کیے گئے۔ اس کے لیے حاجی سر عبداللہ ہارون نے سخت جدوجہد کی اور قلات سرداروں اور نوابوں سے کئی ملاقاتیں کیں اور بلوچوں کو کراچی لانے پر آمادہ کیا۔ اس طرح لیاری میں مسلمانوں کی اکثریت ثابت ہوگئی۔ لیاری کے تعلیمی نظام میں سر عبداللہ ہارون فیملی کا نمایاں کردار ہے۔

عبداللہ ہارون کالج 1960 کے ابتدائی عشرے میں قائم کیا گیا تھا۔ انگریزوں نے 1932 میں سکھر بیراج کی تعمیر شروع کی تو وہ سرمائے کی گارنٹی مانگنے لگے، جس پر سر عبداللہ ہارون نے ضمانت دی اور ان کی ضمانت تسلیم کی گئی۔ تاریخی عمارت ''سیفیلڈ'' عبداللہ ہارون کی رہائش گاہ واقع کلفٹن جو ہندوستان کے مسلمان راہ نماؤں کا گڑھ تھی۔ سیفیلڈ قائد اعظم سے لے کر آغا خان تک سیکڑوں اہم شخصیات کی قیام گاہ بھی رہی ہے۔ ''سیفیلڈ'' کے سامنے جہاں آج بینک ہے، اس وقت عبداللہ کورٹ ہوا کرتا تھا جس میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی قائد اعظم کے ساتھ آتی تھیں اور ان کا قیام بھی یہاں ہوتا تھا۔

اسی گھر میں قائداعظم نے کینٹ مشن پلان اور کرپس مشن سمیت مختلف اہم فیصلے کیے۔ پاکستان کا پہلا قومی پرچم بھی لیاقت علی خان نے اسی گھر کی اوپر والی منزل کے بڑے کمرے کی ٹیبل پر بچھے گرین کپڑے پر نشان لگا کر منظور کیا۔ اس جگہ راجہ محمود آباد، نواب اسماعیل خان، مولانا حسرت موہانی، آغا خان و دیگر راہ نما بھی آتے جاتے رہے۔ فرنٹیئر گارڈن کلفٹن برج، میرٹ ہوٹل کے سامنے والا وکٹوریہ روڈ جو آج کل عبداللہ ہارون روڈ کہلاتا ہے۔

اس عمارت میں شاہ ایران، ملکہ ثریا، علامہ اقبال، افغانستان کے صدر سردار داؤد، نواب آف بھوپال حمید اللہ خان، انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو اپنی اہلیہ افشاں دیوی سمیت مہمان رہے۔ قائداعظم نے کہا کہ جو حاجی سر عبداللہ ہارون نے دیا وہ سب سے زیادہ دیا۔ سکھر کی مسجد منزل گاہ ہو، یا صوبہ سندھ کا بمبئی سے علیحدگی کا مسئلہ وہ صوبے کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہر وقت پیش پیش نظر آتے تھے۔ آپ نے رفاہ عامہ کے لیے متعدد کام کیے اور کئی مدرسے، کالج، مساجد اور یتیم خانے بنوائے اور یتیموں کے سرپر دست شفقت رکھا۔ کراچی میں عبداللہ ہارون کالج اور عبداللہ ہارون روڈ انھی کی یادگار ہے۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مشین کا ایک ایسا پرزہ بن چکے تھے کہ جس کو مسلم لیگ کے نظام میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ فخر پاکستان حاجی سر عبداللہ ہارون کا جنگ آزادی و تحریک آزادی میں نہایت بنیادی کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ رائے عامہ ہموار کرنے اور پرے خطے میں انقلاب کی فضا پیدا کرنے کا بنیادی کردار آپ کا ہی رہا۔ زندہ قومیں اپنے حال کا رشتہ اپنے ماضی سے جوڑے رکھتی ہیں اور حال کی راہیں استوار کرکے مستقبل کی شاہراہیں روشن رکھتی ہیں۔

عبداللہ ہارون 27 اپریل 1942 کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ آپ کی وفات پر قائد اعظم نے کہا ''ہندوستانی مسلمان اور خاص طور پر سندھ کے لوگ ایک ایسے لیڈر سے محروم ہوگئے جو ان کے لیے سچائی اور نیک نیتی سے کوشاں تھا۔'' قائداعظم نے مزید کہا کہ ''میں نے ایک دوست، ایک ساتھی کھو دیا، ان کی وفات سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔'' نوابزادہ لیاقت علی خان نے آپ کی وفات پر کہا کہ ''وہ مسلم لیگ کا ستون تھے، ان کی وفات سے ہندوستانی مسلمانوں اور خصوصی طور پر سندھ کے عوام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ آپ مخلص لیڈروں میں سے ایک تھے۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ آپ کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہوئیں۔ صاحبزادوں میں یوسف ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون ہیں۔ یوسف ہارون جو آپ کے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔

سر عبداللہ ہارون کے انتقال کے بعد ان کی خالی جگہ پر مرکزی اسمبلی میں ان کے صاحبزادے جناب یوسف ہارون بغیر کسی مخالفت کے منتخب ہوئے۔ مغربی پاکستان کے گورنر بھی رہے۔ محمود ہارون نے بھی ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ کے زبردست حامیوں میں سے تھے، مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ حاجی عبداللہ ہارون کے چھوٹے بیٹے ''سعید ہاون'' بھی ملکی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ ہمیشہ مسلم لیگ سے وابستہ رہے، کراچی کی قدیم اور پسماندہ بستی لیاری ان کی سیاست اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ الیکشن میں بھی حصہ لیتے رہے۔ حاجی عبداللہ ہارون اپنے قائم کردہ جامعہ اسلامیہ اور یتیم خانہ واقع لیاری میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں