غزل
جس پہ روئے خود آگہی اس کی
ہر خوشی ہے نمائشی اس کی
اک نیا ضابطہ جنم دے گی
ہر روایت سے سر کشی اس کی
وقت پر آج بھی نہیں آیا
موڑ دوں گا اسے گھڑی اس کی
رابطہ زندگی سے کٹنے لگا
اور پھر کال آ گئی اس کی
عہد و پیماں سے باندھ لینا تھا
دفعتًا ریل چل پڑی اس کی
گونجنے لگ گئی سماعت میں
شب ِ تنہائی ان کہی اس کی
وقت نے یوں بدل دیا جاذبؔ
اس پہ تصویر ہنس پڑی اس کی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
خرد تو دور مرے ساتھ دل نہیں ہوتا
جب اُس سے ملتا ہوں کوئی مخل نہیں ہوتا
یہ بات شہر کے شعلہ گروں کے علم میں ہے
ہجوم ِ سوختگاں مشتعل نہیں ہوتا
خدا کا شکر کئی دن سے اپنے آپ میں ہوں
میں اس پتے پہ مگر مستقل نہیں ہوتا
یہ عشق خام نہیں ہے تو اُس کے ہاتھ کا زخم
ہمارے ہاتھ پہ کیوںمنتقل نہیں ہوتا
میں جانتا ہوں مجھے خاک کر کے چھوڑے گا
یہ ایک گھاؤ کہ جو مندمل نہیں ہوتا
(عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
سانس در سانس پس ِ پردۂ شب ٹوٹتی ہے
روز مجھ میں کوئی زنجیرِ طلب ٹوٹتی ہے
کسی امکان کی لے بزمِ جنوں میں اب بھی
کئی خوش رنگ گمانوں کے سبب ٹوٹتی ہے
خامشی ایک صدا بن کے سرِ بزم ِسکوت
تہ بہ تہ ٹوٹتی ہے اور غضب ٹوٹتی ہے
کاسئہ چشم ستاروں سے بھرا رہتا ہے
اور امید سرِ دست ِ طلب ٹوٹتی ہے
کون موسم مرے باغیچۂ دل میں اترا
شاخ در شاخ ملامت کے سبب ٹوٹتی ہے
ڈوب کر پار اترتا ہوں میں جس دَم ذ یشان
پھر کوئی موجِ ستم خیز غضب ٹوٹتی ہے
(ذیشان مرتضیٰ۔ پہاڑ پور)
۔۔۔
غزل
وہ جب بھی حکم کرے مجھ کو دھر لیا جائے
ملے نہ جرم تو کچھ فرض کر لیا جائے
بدن میں ہی نہیں سائے میں بھی مقیم ہوں میں
کھڑا بھی ہوں تو مجھے خاک پر لیا جائے
چلو یہ سوچ کا کچھ بوجھ بانٹ لیں ایسے
کہ دل کو بیچ کے اک اور سر لیا جائے
خلوص سود پہ دیتا ہوں صاحبو سن لو
میں لوں گا دوگنا یہ جس قدر لیا جائے
چرا رہا تھا ابھی تک سو کم لیا ہے تجھے
تو اذن دے تو تجھے بیشتر لیا جائے
ہوا کی ریت میں رِس جائے گی یہ بات کی بوند
اسے دماغ کی بوتل میں بھر لیا جائے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
ذرا سا سوچ لینا تھا دوبارہ کیا بنے گا
ہماری خیر ہے لیکن تمھارا کیا بنے گا
سحردم ڈوبنے والے تو کل پھر آ ملیں گے
گرا ہے ٹوٹ کر جو اک ستارہ کیا بنے گا
ابھی اک راز عاشق اور خدا کے درمیاں ہے
زمانے پر ہوا جو آشکارا کیا بنے گا
ارے بابا ہمارے سامنے دنیا بنی ہے
ہمیں یہ دھونس مت دیجے خدارا، کیا بنے گا
سمجھتے ہو یہ چنگاری جلا ڈالے گی کیا کچھ؟
سمجھتے ہو یہ مدھم سا شرارہ کیا بنے گا؟
خوشا تم لوٹ آئے زندگانی لوٹ آئی
یہی تشویش رہتی تھی ہمارا کیا بنے گا
(افتخار حیدر شاہدرہ۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر
یوں لگا مجھ کو جیسے فضا خوشبوؤں سے مہکنے لگی
پھر کسی کی گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر
دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھو لیا رات کے اس پہر
ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے وہ کیا ہو گئی
اور خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر
اور کیا کیجیے گا صبیحؔ اس کی اب آپ منظر کشی
پل جو آیا اور آ کر چلا بھی گیا رات کے اس پہر
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)
۔۔۔۔
غزل
خدا کا لاکھ شکر ہے کہ سب نہاں نہیں رہے
جو آستیں کے سانپ تھے وہ اب یہاں نہیں رہے
نہ پہلے جیسی سرکشی نہ دل میں کوئی خواہشیں
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم جواں نہیں رہے
اور ایک دن ہم آپ کی یہ دنیا چھوڑ جائیں گے
خبر ملے گی آپ کو کہ ہم یہاں نہیں رہے
بہت دنوں کی بات ہے یہیں کہیں پہ زخم تھے
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب نشاں نہیں رہے
نکل کے تیرے دل سے ہم جو لا مکاں میں کھو گئے
تُو سوچ کر ذرا بتا کہ اب کہاں نہیں رہے
ہمارے دل نے آج بھی ہمیں کہا کہ بات سُن
فلاں وفات پا چُکے، اور اب فلاں نہیں رہے
(فیصل محمود۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
دن بہ دن جو میرے خوابوں میں کمی آتی ہے
آنکھ لگتی ہے نہ اب نیند کبھی آتی ہے
ہم فقیروں کو فقط عشق کا گر آتا ہے
ہم فقیروں کو کہاں جادو گری آتی ہے
اندر اندر ہی کہیں دور چلے جاتے ہیں
اس کو ہجرت،نہ مجھے دربدری آتی ہے
بند آنکھوں سے میں تصویریں بنا لیتا ہوں
میرے بچوں کو بھی یہ کوزہ گری آتی ہے
کیسے رستوں سے گرزتی ہے خدا خیر کرے
روز گھر میں مری بیٹی جو ڈری آتی ہے
یعنی میں پچھلے جنم میں کوئی شہزادہ تھا
میرے خوابوں میں جو ہر روز پری آتی ہے
(ساجد رضا خان۔جھنگ)
۔۔۔
غزل
یقیں خدا کا دلاتے گواہ کی تصویر
مری نگاہ میں ہے اک نگاہ کی تصویر
یہ آنکھ مجھ کو ملی ہے کہ میں بناتا رہوں
سُنہری ،سبز، سفید و سیاہ کی تصویر
تمام رات یہ سوچوں کہ کس کو دیکھنا ہے
رخِ حبیب یا پھر مہر و ماہ کی تصویر
اُٹھا وہ اور کلامِ مجید اٹھا لایا
کہا تھا میں نے دکھا خیرخواہ کی تصویر
دکھانا چاہتا ہوں سر کلام کرتا ہوا
بنانا چاہتا ہوں رزم گاہ کی تصویر
یہ کیا کہ گھر سے ملی ہیں سبھی کی تصویریں
نہیں تو ایک نہیں سربراہ کی تصویر
یہ آئنہ ہے مرے یار! کام آئے گا
کبھی جو دیکھنا چاہو گناہ کی تصویر
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
رنگ و صفاتِ یار میں دل ڈھل نہیں رہا
شعلوں کی زد میں پھول ہے اور جل نہیں رہا
وہ دھوپ ہے کہ پیڑ بھی جلنے پہ آ گیا
وہ بھوک ہے کہ شاخ پہ اب پھل نہیں رہا
لے آؤ میری آنکھ کی لَو کے قریب اسے
تم سے بجھا چراغ اگر جل نہیں رہا
ہم لوگ اب زمان و زمانہ سے دُور ہیں
یعنی یہاں پہ وقت بھی اب چل نہیں رہا
تعمیر ہو رہے ہیں وہاں پر نئے مکان
صحرا سمٹ رہا ہے مرا تھل نہیں رہا
بہتر ہے والدین کی جاگیر بانٹ لیں
آپس کے انتشار کا جب حل نہیں رہا
(مستحسن جامی ۔خوشاب)
۔۔۔
غزل
یہ موسمی سے پرندے ہمیں بتاتے ہیں
کہ وقت بدلے تو ہم پر نکال لاتے ہیں
ہمی پہ وار یہاں جن کے خالی جاتے ہیں
ہم ایسے لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھاتے ہیں
تمہارے بعد کوئی تم سا مل بھی جائے تو
خیال رکھتے ہیں پر حق نہیں جتاتے ہیں
یوں مسکرا کے ہمیں دیکھتے ہوئے اے شخص
ہم ایسا موقع کبھی بھی نہیں گنواتے ہیں
تمہارا ذکر ہمارے لبوں سے سننے پر
جو مسکراتے تھے اب قہقہے لگاتے ہیں
میں ان کو یار سمجھتا ہوں اور یہ لڑکے
مرے خلوص کا بس فائدہ اٹھاتے ہیں
ہم ہاتھ ہاتھوں پہ دھر کر کبھی نہیں بیٹھے
خوشی اگر نہ کمائیں تو غم کماتے ہیں
(محسن ظفر ستی ۔کہوٹہ)