چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی تاحال ناکام بل میں ایک اور ترمیم کی تجویز

بلند دعوے مگر پچھلے 9 برس میں کچھ نہیں کیا گیا، قائمہ کمیٹی سے رائے طلب


حفیظ تنیو January 29, 2021
2016 سے اب تک 250 لڑکے اور 100 لڑکیاں زیادتیوں کا شکار ہو چکے

بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کیلیے سندھ کے حکام نے طویل جدوجہد کی، سرکاری اعداد وشمار گزشتہ کئی برسوں سے سندھ بھر میں بچوں کے اغوا ، جنسی زیادتی ، عصمت دری اور قتل جیسے سنگین جرائم میں اضافے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

2016 سے اب تک 250 لڑکے اور 100 لڑکیاں مختلف زیادتیوں کا شکار ہوچکے،حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے 116 بچوں کو صرف کراچی میں نشانہ بنایا گیا، لمبے لمبے دعوؤں کے باوجود لگتا ہے کہ پچھلے 9 برسوں کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت نے اب بل میں ایک اور ترمیم کی تجویز پیش کی ہے اور سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے رائے طلب کی ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب بل کی نقل کے مطابق قانون کی شقوں میں مغوی یا لاپتا بچوں کے خلاف مختلف النوع جرائم کے سدباب اور ان جرائم کا نشانہ بننے سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدامات شامل نہیں اور نہ ہی یہ بل بچوں کے اغوا ، ان کی اسمگلنگ، جنسی زیادتی، یا قتل کے خطرات میں کمی کا سبب بن سکا ہے۔

لہٰذا آئین پاکستان میں مذکور بنیادی حقوق کی مطابقت میں اور قومی اور عالمی معاہدوں بشمول بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کنویشن، کی پاسداری کرتے ہوئے اس بل میں نئی ترمیم کی جارہی ہے، محکمہ سماجی بہبود کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افرادی قوت اور انفرااسٹرکچر کی کمی اور بچوں سے متعلق واقعات اور محکمے کے امور چلانے کے لیے مناسب مکینزم نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بچوں کے تحفظ کے لیے 20کروڑ روپے کا بجٹ لیپس ( lapse ) ہوجاتا ہے۔

اتھارٹی کو یہ قانون منظور ہونے کے بارے میں 2015 میں تحریری طور پر آگاہ کیا گیا جب کہ اس قانون کو منظور ہوئے چار سال گزرچکے تھے تاہم اتھارٹی کے بیشتر ارکان، جو بچوں کے تحفظ سے متعلق مسائل حل کرنے کے ذمے دار ہیں کا تعلق ایک ہی ضلع سے ہے، کیوں کہ وہ اس وقت کے سماجی بہبود کے وزیر اور اتھارٹی کے چیئرپرسن کے عزیزواقارب اور قریبی دوست تھے، سماجی کارکن ساجد بجیر نے دعویٰ کیا ہے کہ بچوں کیلیے کوئی پناہ گاہ یا بحالی مرکز نہیں ہے جبکہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کا قانون نو سال قبل منظور کیا گیا تھا ،بجیر کے مطابق کابینہ میں ردوبدل کی وجہ سے اتھارٹی کے چیئرپرسن کا منصب ہمیشہ گھومتا رہتا ہے، جب بھی وزراکے قلمدان تبدیل کردیے جاتے ہیں۔

اتھارٹی اپنا نیا چیئرپرسن لگاتی ہے وزیر اعلی سندھ کے مشیر اعجاز شاہ شیرازی آخری چیئرپرسن تھے جن کا کچھ دن قبل انتقال ہوگیاتاہم پیر کے روز صوبائی حکومت نے پہلی بار اتھارٹی کا اگلا چیئرپرسن محکمہ سوشل ویلفیئر سے لانے کا اعلان کیا، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی ممبر صوبائی اسمبلی شمیم ممتاز جو چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے ممبر کی حیثیت سے بھی کام کرتی ہیں کو اب اس محکمے کے سربراہ کا منصب سونپ دیا گیا ہے، ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے شمیم ممتاز نے کہا کہ حکومت بین کی وجہ سے ماضی میں بھرتیاں کرنے سے قاصر رہی ہے،میں نے آج عہدہ سنبھال لیا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے حکومت نے تشدد ، بدسلوکی اور استحصال کا نشانہ بننے والے بچوں کی مدد کیلیے سندھ کے ہر ضلع میں سماجی بہبود کے افسران کو تعینات کیا ہے۔

اس کے علاوہ ایس ایس پی رینک کے چھ پولیس افسران کو بھی اس معاملے سے نمٹنے کیلیے فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے۔بچوں کے حقوق سے متعلق سندھ کے قومی کمیشن کے رکن اقبال احمد ڈیتھو جو اس ترمیمی بل کے معماروں میں شامل ہیں انھوں نے ترمیم کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا اس کی منظوری کے بعد خصوصی حفاظتی اقدامات کے تحت کسی بچے کے اغوا یا گمشدگی کی صورت میں ایف آئی آر درج کرنا لازمی ہوگا ،جو لوگ رپورٹ نہیں کرتے ان کے خلاف قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔اس سے قبل محکمہ سوشل ویلفیئر کا وزیر یا مشیر اس ایکٹ کے تحت بنائے گئے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی چیئرپرسن ہوتا تھا۔ اب ترمیم کو غیر جانبدار فرد جس کا انسانی اور بچوں کے حقوق کا ایک تجربہ ہو کیلیے مرتب کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو چیئرپرسن نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں