پاکستان سمیت دنیا میں شارک اور رے کی کئی اقسام معدومیت کے قریب

گزشتہ 50 برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں شارک اور بعض اقسام کی رے کی تعداد 70 فیصد کم ہوئی ہے۔


آفتاب خان January 30, 2021
پاکستان سمیت دنیا بھر میں شارک اور رے کی کئی اقسام شدید معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ فوٹو: فائل دیگر تصاویر بشکریہ معظم خان، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان

دنیا بھرکےسمندروں میں شارک اوراس کے خاندان سے جڑی دیگرآبی انواع کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوگئے،بین الاقوامی سطح پرہونے والی تازہ ترین تحقیق میں شارک اورریز کی 18اقسام میں گذشتہ 50برسوں کے دوران 70فیصدکمی واقع ہوئی جبکہ اگلے 20برسوں کے دوران شارک کی کچھ اقسام کے مکمل ناپید ہونے کا بھی انکشاف کیاگیاہے۔

ڈبیلوڈبیلوایف(پاکستان)کے مطابق ماضی میں پاکستانی ساحلی مقامات پر134اقسام کی شارک اوراس کے خاندان سے تعلق رکھنے والی آبی حیات پائی جاتی تھیں،بلوچستان کے ساحلی مقامات اورماڑہ اورجیوانی شارک کے افزائش نسل کے گڑھ سمجھے جاتے تھے،پاکستان میں بے دریغ اوربے لگام شکار کے سبب پاکستان میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران شارک کی بیشتر اقسام معدومیت جبکہ کچھ کے آثارسرے سے ہی ناپید ہوچکے ہیں۔

کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی کی شارک اور ریز پرحالیہ تازہ ترین تحقیق کے مطابق 1970کے بعد دنیا بھر کے سمندروں میں شارک اورریز کی 18اقسام کی آبادی میں 70فیصد کمی ہوئی ہے۔ شارک اورریز نسل بےتحاشہ شکارکے باعث عالمی سطح پرمعدومیت کے خطرات سے دوچار ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر اس قدر تیزی سے شارک کا گوشت انسانی خوراک کا حصہ بنتا رہا تو اگلے10 سے 20برسوں میں شارک کی کچھ اقسام مکمل طورپر ناپید ہوسکتی ہیں۔



ڈبلیوڈبیلو ایف پاکستان کے تیکنیکی مشیر معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شارک کا شکار بہت زمانے سے ہورہاہے۔ ریکارڈ کے مطابق 1850میں بھی پاکستان میں شارک کی ماہی گیری کا رواج تھا۔اس بارے بہت سارا تحریری مواد جبکہ تصویری شواہد بھی موجود ہیں۔



ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان کے سمندروں میں 134مختلف اقسام کی شارک پائی جاتی تھیں،سن 1987میں حکومت پاکستان نے ایک عالمی ادارے کی مدد سے شارک کے شکار کو ترجیح دی۔اس ضمن میں پاکستانی سمندروں میں شارک کے شکار کے لیے 300کشتیوں کواستعمال کیا جاتا تھا۔ بعدازاں شارک کی فشنگ پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن گیا۔

یہی بے دریغ شکار آنے والے برسوں میں شارک کی بتدریج کم ہوتی تعداد کی وجہ بنا۔معظم خان کے مطابق 1990کے اوائل میں پاکستان کے سمندری علاقوں میں شارک کا سالانہ 90ہزارٹن کے لگ بھگ شکار ہوتاتھا،جو 1999میں کم ہوکر 70ہزارٹن رہ گیا۔مگر حالیہ دنوں میں شارک کا شکارسالانہ15ہزارٹن تک پہنچ چکا ہے۔یہ اس بات کی علامت کے پاکستان میں پائی جانے والی شارک کی تعداد خوفناک حد تک کم ہوچکی ہے۔



پاکستان میں شارک کے شکار مراکز اورماڑہ اورجیوانی میں تھے۔ان دونوں علاقوں کے لوگ گہرے سمندر میں گرمی کے موسم میں کانٹوں اوردیگرکچھ دیسی آلات کی مدد سے ہزاروں کلو شکارکرتے تھے۔معظم خان کے مطابق شارک کی افزائش نسل کا عمل دیگرآبی حیات کے مقابلے میں انتہائی سست ہے،اوربہت کم بچے پیداہوتے ہیں۔

پاکستانی پانیوں میں جو شارک کی مختلف اقسام ملا کرتی تھیں ان میں ٹائیگرشارک،بل شارک،تریشرشارک،ریف شارک شامل ہیں جن کی نسل تقریبا معدوم ہوگئی ہے،جبکہ شارک کے خاندان سے تعلق رکھنے والی اسٹنگرے،منٹارےاورگٹارفش بھی معدومیت سے دوچارہے۔



2015کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق ساحلی علاقے گوادراوردیگرساحلی مقامات پربیشتراقسام کی شارک اوراس کے خاندان کی دیگرآبی مخلوقات سرے سے ناپید ہوچکی ہے۔ اب کراچی کے ساحلی مقامات پراکا دکا رپورٹ ہوجاتی ہے۔اس حوالے سےڈبلیو ڈبیلوایف پاکستان نے معلومات کی بناپر صوبائی حکومتوں کواس بات پرراضی کیاگیا کہ باقاعدہ ایک قانون کے ذریعے شارک کی ناپیدگی کے قریب اقسام ہرقسم کی ہرطرح سے تجارت پرپابندی عائد کی جائے۔اسی تناظر میں پاکستان پہلا ملک تھا جس نے شارک اوراس کے خاندان سے منسلک دیگرمخلوقات پرپابندی عائد کی۔دیگرممالک نے پاکستان کے بعد پابندیاں عائد کیں،مگر بدقسمتی سے اس پابندی پراس طرح سے عمل درآمد نہ ہوسکا،جس کی اشد ضرورت تھی۔

پاکستان میں آدمخور شارک کا ایک واقعہ

شارک کے ذرائع اگرایک مرتبہ ختم ہوجائے تودوبارہ بحال ہونے میں بہت وقت لگ جاتا ہے اور اگرفوری طورپراس حوالے سے اقدامات کیے جائیں تواس کے ثمرات فوری طورپرنہ سہی مگروقت کے ساتھ ساتھ ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔معظم خان کے مطابق شارک کا خاتمہ ایک اورلحاظ سے بھی فکرطلب بات ہے کیونکہ یہ سمندر میں دیگرمچھلیوں کی افزائش کو روکنے کے لیے کلیدی کردارکی حامل ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ کسی بھی نظام میں سے اگرآپ پریڈیٹر(بڑے شکاری) کو نکال دینگے،تواس میں بہت بڑی تبدیلی آجائےگی۔ پاکستانی ماہی گیری شارک کے ختم ہونے کے سبب مکمل طورپرتبدیل ہوچکی ہے،شارک کی معدومیت کی وجہ سے ان کی غذابننے والی آبی حیات کی پاکستانی سمندروں میں بہتات ہورہی ہے،مگرانھیں انسان بطورغذااستعمال نہیں کرسکتا۔



دنیا کی سب سے بڑی شارک گریٹ وائٹ شارک(آدم خورشارک)پاکستان میں نہیں پائی جاتی۔ماضی کے80سالہ ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں شارک کے انسانوں پرحملے رپورٹ نہیں ہوئے،سوائے ایک واقعے کے جوپاکستان بننے سے بھی پہلے 1945میں رونما ہوا۔ اس وقت کراچی ہاربرکے قریب بھارت پیاز لے جانے والی لانچ کےعملے میں شامل ایک ماہی گیرکشتی کے پیندے میں لگی کائی کو صاف کررہا تھا،اوراس دوران شارک مچھلی اس پر حملہ آور ہوئی اور ماہی گیر جاںبحق ہوگیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں