نجی اسکولوں کا معیار بلند کرنے کے لیے سرکاری اعانت ضروری ہے چیئرمین ’انٹر بورڈ‘

گریجویٹ کلاس سے پہلے طلبا کی سیاست کا حامی نہیں، ڈاکٹر سعید الدین


Rizwan Tahir Mubeen February 02, 2021
چیئرمین انٹربورڈ کراچی کا مکمل انٹرویو، فوٹو : ایکسپریس نیوز

چیئرمین 'اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ' ڈاکٹر سعید الدین نے گذشتہ برس دسمبر میں عہدہ سنبھالا، اس سے قبل وہ چار سال 'میٹرک بورڈ' کے چیئرمین رہ چکے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے 'پی ایچ ڈی' کیا ہوا تھا، اس لیے میں انتظامیہ میں نہیں آنا چاہتا تھا، چوں کہ 'پروفیسر' پر انتظامی ذمہ داری نہیں ہوتی، تو وہ زیادہ اچھا پڑھا سکتا ہے، لیکن میں میر پور خاص ریجن میں سب سے سینئر تھا، تو مجھے 'ڈائریکٹر کالج' بنایا گیا۔

میں یہ ذمہ نہیں لینا چاہتا تھا، لیکن ایک سینئر کے کہنے پر یہ عہدہ قبول کر لیا، صرف اس نیت سے کہ شعبہ تدریس کے فعال استاد کے طور پر انتظامی کردار کو بہتر کروں۔ بطور پرنسپل بھی میں نے اچھے ٹیچروں کی دست یابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی، دراصل آپ اگر تدریس سے آئے ہوں، تو بطور پرنسپل ٹیچر اور انتظامیہ، دونوں طرف کے معاملات کو سمجھ سکتے ہیں۔

ڈائریکٹر کالج کے طور پر اپنے تجربات بتاتے ہوئے ڈاکٹر سعید الدین کہتے کہ انھیں کالجوں میں ٹیچروں کی عدم موجودگی کا پتا چلا، اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی کہ ہر کالج میں ٹیچر ضرور موجود ہو، ایک کالج میں 17 گریڈ کی 12 اسامیاں ہیں، لیکن ان میں مضامین کی تخصیص نہ ہونے کے سبب بہت سے کالجوں میں ایک مضمون کے کئی اساتذہ مقرر ہو جاتے ہیں اور کسی مضمون کا ایک بھی استاد نہیں ہوتا اس لیے ہم نے ہر کالج میں ہر مضمون کے حساب سے اساتذہ کی تقرری کی تجویز دے دی تھی، یہ سیکریٹریٹ کی سطح کا کام ہے، اس کی منظوری کے بعد کافی بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر سعید الدین کہتے ہیں کہ ہمارے سرکاری اساتذہ شہروں کی طرف زیادہ پڑھانا پسند کرتے ہیں پڑھانے والوں کو مطمئن ہونا ضروری ہے، لیکن تبادلوں کی باری بھی آنی چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک شخص باہر ہے، تو مستقل باہر ہے اور کچھ بالکل جا ہی نہیں رہے، سب کے ساتھ منصفانہ تبادلوں کا رویہ ہونا چاہیے۔ اس سے ہمارے دیہی علاقوں میں تعلیم بہتر ہو جائے گی۔ دراصل بچے سے بھرپور امتحان لینا تب ہی اچھا لگتا ہے، جب انھیں اسی حساب سے ٹیچر بھی دیا جائے۔ اساتذہ کے تبادلے کے واضح اصول ہونے چاہئیں، تاکہ کسی بھی استاد کو اس کے لیے بھاگا دوڑی نہ کرنی پڑے۔

'میٹرک بورڈ' میں متعین ہونے سے پہلے کراچی سے واقفیت کا ماجرا پوچھا، تو ڈاکٹر سعید نے بتایا کہ وہ یہاں رہے نہیں، بس صبح آتے اور شام کو چلے جاتے تھے 'کراچی کو کیسا سوچتے تھے، اور پھر اسے کیسا پایا؟' ہم نے اگلا سوال کیا، تو وہ بولے کہ 'میں سوچتا تھا کہ یہ بہت 'ماڈرن' شہر ہے، لیکن جب یہاں آکر اسکولوں سے متعارف ہوا، تو تین ہزار سے زائد نجی اور 750 سرکاری اسکول دیکھے چند اچھے علاقوں کے علاوہ یہاں اکثریت نچلے، متوسط اور غریب علاقوں کی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے 'چیئرمین میٹرک بورڈ' کے زمانے میں فارم وغیرہ جمع کرانے کی تاریخ بڑھا دیتا تھا کہ تاخیر کی صورت میں بچوں پر زائد فیس کا بار نہ پڑے۔ فیس اگرچہ بہت کم ہے، لیکن ہمارے تمام 'بورڈ' اپنے وسائل خود پیدا کرتے ہیں، انھیں حکومت کی طرف سے بجٹ نہیں ملتا۔ 'سرکار' سے صرف بچوں کی فیس لی جاتی ہے، اور پھر اسی سے بورڈ کے پانی، بجلی سے لے کر تنخواہوں اور پنشن تک کے سارے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ تین سال پہلے 'حکومت سندھ' سے یہ طے ہوا تھا کہ سرکاری اسکول کے بچوں سے پیسے نہ لیں، ہم دیں گے، تو پہلے سال 80 فی صد ادائیگی کر دی گئی اور دوسرے سال 50 فی صد اور اب تیسرے سال 'میٹرک بورڈ' کو صڑف 30 فی صد ادائی ہوئی، جس کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے۔

چیئرمین انٹر بورڈ کہتے ہیں کہ کراچی کے بہت سے علاقوں میں سرکاری اسکول موجود نہیں، البتہ وہاں نجی سطح پر چھوٹے اسکول قائم ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی جگہوں کو نشان زَد کرے کہ انھیں کہاں کہاں اسکول چاہئیں، جیسے اورنگی ٹاﺅن اور گڈاپ وغیرہ، پھر وہاں اگر سرکاری اسکول نہیں بنا رہی، تو وہاں کے اُن نجی اسکولوں کی کی مدد کرے، جن کی فیس دو ہزار روپے سے کم ہے، تاکہ وہ اپنے معیارِِ تعلیم پر سمجھوتا نہ کریں، یہ ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ وہاں اچھے اساتذہ ہی موجود نہیں! ضلع وسطی کے علاوہ گلشن اقبال، ڈیفنس اور صدر وغیرہ میں تو بہت اچھے اسکول ہیں، میں ان کی تعریف کروں گا کہ یہاں ہر مضمون کے لیے اچھا استاد موجود ہے، پورے سندھ میں شاید ہی کہیں اور ایسا ہو۔

ہم نے پوچھا کہ 'کیا حکومت مالی اعانت کرے؟' تو وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے بولے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری اسکولوں کا ڈھانچا اور نظم ونسق بہتر کرنا چاہیے، ورنہ پھر وہاں کے نجی اسکولوں کی کوئی معاشی مدد کرنی چاہیے۔ ان اسکولوں کو ایک، ڈیڑھ ہزار روپے فیس میں اپنے اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے ہیں، نتیجتاً وہاں تعلیمی معیار برقرار نہیں رہ پاتا۔

"اس طرح نجی اسکولوں کے ہاتھ میں 'کمائی' کا موقع نہیں آجائے گا؟" ہم نے ایک روایتی خدشہ ان کے روبرو کیا، تو وہ بولے کہ 'معاشرے کو ذرا تنقید سے باہر نکلنا ہوگا، اس خدشے کو دور کرنے کے لیے اسکولوں کی موثر نگرانی کا بندوبست ہو ہمارے سرکاری اسکولوں کا حال اچھا نہیں ہے، یا تو پھر اسے ٹھیک کیا جائے، ورنہ کراچی جیسے شہر میں بھی جب ہم سرکاری اسکولوں میں امتحانی مراکز قائم کرتے ہیں، تو ہمیں لاکھوں روپے کا فرنیچر دینا پڑتا ہے۔ ہم ان نجی اسکولوں کی مدد کے لیے معیار وضع کر سکتے ہیں، جیسے اسکول 100 گز والے نہ ہوں، پھر ان چیزوں کا باقاعدہ مشاہدہ کریں، جو ہمارے معیار پر پورا اترے، وہی اسکول سرکاری اعانت کا حق دار ہو۔

کراچی میں 'بورڈ' کے امتحانات میں نقل کا ذکر چھِڑا، تو ڈاکٹر سعید نے بتایا کہ یہاں سندھ کے دیگر علاقوں کی نسبت کم نقل ہوتی ہے۔ تبھی سندھ سے بچے یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں اچھے اساتذہ نہیں، وہ 700، 800 روپے فیس لیتے ہیں، اس میں وہ اچھے اساتذہ کے متحمل نہیں ہو سکتے، یہی وجہ ہے کہ بچے امتحان میں اچھی طرح تیاری نہیں کر پاتے، پھر وہ بچے جب امتحان دیتے ہیں، تو نقل کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ بلدیہ، اورنگی، ملیر اور گڈاپ وغیرہ کے بعض دور دراز علاقوں کا بچہ پریشان ہوتا ہے، کیوں کہ وہاں سرکاری اسکول موجود نہیں اور نجی اسکول بہتر نہیں۔ نقل تو کہیں بھی نہیں ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے حکومت کو ان اسکولوں کے اساتذہ کو بہتر بنانے کے لیے معاشی مدد فراہم کرنا ہوگی۔

ڈاکٹر سعید الدین اس خیال کے حامی ہیں کہ ہمارا نصاب 'ٹیکسٹ بک' کے بہ جائے 'نصابی خاکے' یا موضوعات پر استوار ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بہ تدریج امتحانی پیپر میں تبدیلیاں کر رہے ہیں، امتحانی پرچے کے لیے ہر مضمون کے لیے الگ کمیٹی بنائی ہے اور کوشش کی ہے کہ رَٹے والے سوالات نہ ہوں، تاکہ بچوں کی قابلیت میں اضافہ ہو۔ تعلیمی بجٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے وسائل کے لحاظ سے کافی ہے، لیکن اس کی تقسیم اور اس کی مانیٹرنگ بہتر نہیں۔

'انٹر بورڈ' کے حوالے سے ڈاکٹر سعید بولے کہ سوائے چار سال کے، ساری زندگی کالج میں ہی گزری ہے۔ اس لیے یہاں کے مسائل میرے لیے نئے نہیں۔ یہاں اچھے کالج موجود ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ طالب علم سرکاری کالج میں پورے وقت موجود نہیں رہتا۔ اس لیے ٹیچر کے ساتھ بچے کی بھی 'بائیو میٹرک' ہونی چاہیے، اس سے معاملہ بہتر ہو سکتا ہے۔

ہم نے سرکاری کالج میں اساتذہ کی غیر حاضری کا پوچھا کہ بہت سی جگہوں پر طلبہ کے پاس یہ جواز ہوتا ہے کہ سرکاری کالجوں میں اساتذہ ہی نہیں ہوتے، تو وہ بولے کہ اساتذہ کے لیے اب ہمارے کالجوں میں 'بائیو میٹرک' آگئی ہے۔ اساتذہ کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا، لیکن ہمیں بیٹھ کر یہ طے کرنا پڑے گا کہ ہم کس طرح کلاس کو بھی پابند کر سکتے ہیں۔ کالجوں کی انتظامی 'چین آف کمانڈ' مل کر ہی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔

کالجوں میں سیاست پر پابندی کے حامی پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کہتے ہیں کہ ماضی میں لسانی تنظیموں کے فعال ہونے کے بعد 'طلبہ یونین' پر پابندی عائد ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر گریجویشن سے پہلے 'طلبہ یونین' کے حق میں نہیں، گریجویشن میں آنے کے بعد طلبہ تھوڑے بڑے ہو جاتے ہیں، لیکن انٹر تک انھیں صرف پڑھائی کرنی چاہیے۔

'ایم ایس سی' بلوچستان یونیورسٹی سے کیا

چیئرمین 'اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ' (انٹر بورڈ) پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین 1960ءمیں میرپور خاص میں پیدا ہوئے۔ وہ چھے بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ 1947ءکے بٹوارے کے ہنگام میں ان کے والد شفیع الدین بمبئی سے یہاں آئے۔ والد محکمہ ¿ ریلوے میں تھے، اس لیے وہ میر پور خاص میں ہی بَس گئے۔ ڈاکٹر سعید الدین نے 1978ءمیں میٹرک کے بعد شاہ لطیف کالج سے انٹر اور گریجویشن کے مراحل طے کیے اس کے بعد 'ایم ایس سی' کے لیے انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی کا رخ کیا۔ ہم نے بلوچستان کے انتخاب کی وجہ کھوجی، تو وہ بولے کہ ان کے آدھے رشتے دار وہاں رہتے ہیں، اس لیے وہاں انھیں 'ہاسٹل' میں نہیں رہنا پڑا۔
1988ءمیں 'ایم فل' کے بعد ڈاکٹر سعید الدین ٹنڈو جان محمد میں لیکچرر متعین ہوگئے، 1992ءمیں میرپور خاص شاہ لطیف کالج میں تبادلہ ہوگیا، 1996ءمیں وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے اور 2003-04ءمیں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ اس کے بعد 2007 ءمیں پروفیسر اور 2010ءمیں انھیں پرنسپل کالج کا عہدہ تفویض ہوا، 2012ءمیں ڈائریکٹر کالج (میرپور خاص ریجن) تقرری عمل میں آئی۔ 2016ءمیں انھیں چیئرمین 'ثانوی تعلیمی بورڈ' کراچی (میٹرک بورڈ) مقرر کیا گیا اور دسمبر 2020ءمیں چیئرمین 'اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ، کراچی (انٹر بورڈ) کے طور پر تقرری عمل میں آئی۔

میٹرک کے فارم اور ایڈمٹ کارڈ کے لیے 'بورڈ' آنے کی ضرورت نہیں

چار سال میٹرک بورڈ کی 'مسند نشینی' سنبھالنے والے ڈاکٹر سعید الدین کہتے ہیں کہ 'ثانوی تعلیمی بورڈ' کراچی، سندھ کا پہلا بورڈ ہے، جس نے گذشتہ سال سے 'آن لائن' فارم جمع کرنے شروع کیے اگرچہ پچھلے برس صرف تین فی صد امیدواروں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا، لیکن امید ہے یہ دائرہ مرحلہ وار بڑھتا جائے گا۔ اب کسی اسکول کو بورڈ آفس آنے کی ضرورت نہیں، وہ 'ایڈمٹ کارڈ' اور 'انرولمنٹ کارڈ' ڈاﺅن لوڈ کر کے اپنے ہاں سے بھی پرنٹ لے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید نے 'میٹرک بورڈ' میں اپنی مدت کے دوران 'بورڈ' کا ریکارڈ 'ڈیٹا ڈیجیٹلائز' کرنا شروع کیا، جس کے سبب 1991ءتک کے امیدواروں کی اب ایک گھنٹے میں مارکس شیٹ وغیرہ کی تصدیق ہو جاتی ہے اور مارکس شیٹ اور مائیگریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ بھی مل جاتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو فائدہ اور بورڈ کی آمدن میں اضافہ ہوا۔

"اتنا پڑھنے کے بعد شادی 'ارینج' ہی ہوتی ہے"

پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین نے جام شورو سے کاربو ہائیڈریٹس کیمسٹری (Carbohydrates Chemistry) میں ایم فل کیا، اس کے بعد 'پی ایچ ڈی' کا مرحلہ ڈاکٹر عبدالوہاب خان زادہ کی زیر نگرانی 1996ءمیں طے ہوا، ان کے اب تک 27 تحقیقی مضامین شایع ہو چکے ہیں۔ ان کا موضوع 'ڈس ایسوسی ایشن آف ڈرگز' تھا، یعنی انسان کے معدے میں دواﺅں کا حل ہونا۔ اس میں مختلف درجہ حرارت میں کسی 'جزو' کے 'ردعمل' کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر ہماری معلومات کی بنیاد پر ہی ادویہ ساز اپنا کام آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مرحلہ دواﺅں کے حوالے سے نہایت اہم ہوتا ہے، کیوں کہ اس سے مریض کو کوئی دوا تجویز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر سعید الدین کی شادی 2001ءمیں ہوئی، وہ دو بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ ہم نے شادی کے پسند یا ارینج ہونے کا پوچھا تو وہ بولے کہ ارینج، اتنا لکھنا پڑھنے کے بعد اپنی پسند تو ختم ہو جاتی ہے، ان کی شریک حیات خاتونِ خانہ ہیں۔

کالجوں میں 'نہم' کی مارکس شیٹ پر داخلے مل جانے چاہئیں

چیئرمین 'اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ' ڈاکٹر سعید الدین سائنس کے مضامین کے لیے عملی امتحان (پریکٹیکل) کو ضروری خیال کرتے ہے، کہتے ہیں کہ اس سے وہ سائنس دان تو نہیں بنتے، لیکن انھیں لیبارٹری سے آگاہی ہو جاتی ہے، جو آگے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پریکٹیکل کے نمبر 25 سے کم کر کے 15 نہیں ہونے چاہیے تھے، یہ نمبر بڑھانے چاہئیں، تاکہ پریکٹیکل کو زیادہ اہمیت حاصل ہو۔ میں نے میٹرک بورڈ کی مسند نشینی کے زمانے میں یہ تجویز دی تھی کہ کالجوں میں نویں کی مارکس شیٹ کی بنیاد پر داخلے دے دیا کریں، جیسے ہمارے نجی کالج کرتے ہیں، کیوں کہ 'مرکزی داخلہ پالیسی' کے سبب طلبہ کا کافی وقت ضایع ہو جاتا ہے۔ انٹر میں داخلوں کی کمی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس پر سروے کرانے کی ضرورت ہے، پھر ہم بتا سکیں گے کہ کیا صورت حال ہے۔ مخصوص مضامین ایک ساتھ لینے کی پابندی کے سوال پر ڈاکٹر سعید الدین نے کہا کہ 'میڈیکل' اور 'انجینئرنگ' میں تو مضامین کا جوڑ یہی بنتا ہے، البتہ 'آرٹس' میں مضامین زیادہ ہونے کے سبب ہم ملتے جلتے مضامین کو ایک زمرے میں جمع کر دیتے ہیں، تاکہ ان کے امتحانات ایک دن لے لیں، ورنہ امتحانات کا دورانیہ کافی طویل ہو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں