ادب اور اہل ادب
دنیا سے کوچ کر جانے والوں میں شعر و سخن اور علم و ادب کے حوالے سے بہت سی شخصیات رخصت ہوئیں۔
ہمارے پاس پابندی سے کئی ادبی جریدے آتے ہیں، جن میں رنگ ادب، لوح ادب، ماہنامہ اردو زبان، زیست اور انشا شامل ہیں۔ اس بار ''لوح ادب'' میں کورونا وبا اور خصوصی گوشے ان مرحومین کے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
کچھ عارضہ دل اورکچھ کورونا کی لسٹ میں آگئے۔ دنیا سے کوچ کر جانے والوں میں شعر و سخن اور علم و ادب کے حوالے سے بہت سی شخصیات رخصت ہوئیں ان میں سے بیس اہم قلم کاروں کو لوح ادب میں شامل کیا گیا ہے۔ پرچے کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد خان ہیں، انھوں نے اپنے مرحوم دوستوں کو یاد رکھا۔
ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے سلطان جمیل نسیم پر بھرپور مضمون لکھا ہے جس میں ان کے حالات زندگی اور افسانوی مجموعی کا احوال قلم بند کیا ہے، اس بات سے بھی آگہی دی ہے کہ ان کے اسلوب پر جامعہ سندھ میں ایم اے کی سطح پر دو تحقیقی مقالے لکھے گئے، ان کی وفات کے بعد ان کے افسانوں پر ڈاکٹر نورین رزاق کی نگرانی میں ایم فل کیا جا رہا ہے۔
سہ ماہی ''روشنائی'' کے مدیر احمد زین الدین پر مضمون ابنِ عظیم فاطمی نے تحریر کیا ہے۔ اطہر شاہ خان جیدی کا خاکہ نما مضمون ابوالفرح ہمایوں نے بے حد عقیدت کے ساتھ لکھا ہے لیکن اب ہ بھی مرحوم ہو چکے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شادب احسانی نے اپنے مضمون اظہاریہ میں اس بات کا اظہار کیا ہے ''باریوں کا سلسلہ تو زندگی میں ہر کسی کے لیے جاری رہتا ہے لیکن شعرا و ادبا اور محققین جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، دانش و بینش سے مزین ان کا جانا دنیا کا بڑا نقصان شمار ہوتا ہے۔'' جریدہ افسانے، مضامین اور شاعری سے مرصع ہے۔
شاعر علی شاعر اپنے تخلیقی کارناموں کے ساتھ ایک پرچے بعنوان ''رنگ ادب'' کو بھی عرصہ دراز سے شایع کر رہے ہیں، اپنے اشاعتی ادارے رنگ ادب پبلی کیشنزسے خوبصورت اور معیاری کتابوں کی اشاعت ان کی شناخت ہے، تازہ شمارہ جو مجھے موصول ہوا ہے وہ بہت سے رنگوں سے مل کر قوس و قزح میں ڈھل گیا ہے مثال کے طور پر رنگ سخن، رنگ تنقید، رنگ افسانہ، رنگ تبصرہ اور رنگ مزاح وغیرہ۔ دھنک رنگ، رنگ آداب میں ممتاز شاعر کرامت بخاری کی دس غزلیں شامل ہیں۔
بھارت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر راحت اندروی بھی پچھلے مہینوں ملک عدم سدھارے ان کے کئی اشعار زبان زدعام ہیں۔نعتیہ اشعار کی تخلیق سے ان کی رسول پاکؐ سے محبت و عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے بڑی محبت و عقیدت کے پھولوں سے الفاظ کو مالا کی شکل میں پرویا ہے۔گویا جب وہ نعت تخلیق کر رہے تھے تو ان پر ایک وجدانی کیفیت طاری تھی اور محمدؐ کی تعظیم اور الفت سے ان کی روح جھوم رہی تھی:
زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبیؐ آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپؐ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
ایک اور غزل کے تین شعر ملاحظہ فرمائیے:
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں مالک مکاں تھوڑی ہیں
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
سب ہی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
حمیرا اطہر اور ظہیر خان کے دو مضامین شامل اشاعت ہیں چیدہ چیدہ اشعار کا انتخاب اور راحت اندروی کی باغ و بہار طبیعت کا ذکر بھی بہت خوب ہے۔ رنگ ادب میں شایع ہونے والے مضامین، شاعری، افسانے اور تبصرے اپنی خصوصیت کے ساتھ قاری کو متاثر کرتے ہیں،''امرتسر کی یادیں'' اے حمید اور اکرم کنجاہی کی چارکتابوں پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
پروفیسر صفدر علی کی بڑی عنایت ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ سہ ماہی ''انشا'' اور ادارہ ''انشا'' سے چھپنے والی کتابوں سے بھی نوازتے ہیں۔ حال ہی میں ان کے ادارے سے سید مسرت حسین رضوی کی کتاب ''کردار سازی اشعار کے ذریعے'' شایع ہوئی ہے۔
گزشتہ سالوں میں طنزومزاح کے حوالے سے ان کی کتاب ''آ بیل'' شایع ہو چکی ہے۔ اس کا ٹائٹل دیدہ زیب اور ہنستی مسکراتی تحریریں قاری کو بھی مسکرانے کی صلاح دیتی ہیں۔ مذکورہ شمارے سہ ماہی ''انشا'' میں ممتاز اور معتبر شاعر اور نقاد سرور جاوید کا گوشہ شایع ہوا ہے، صفدر علی خان نے اپنے ادارے میں مرحومین کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور دل کے لہو لہو ہونے کا ذکر کیا ہے۔ سرور جاوید کے حوالے سے حیات رضوی امروہوی نے تفصیلاً مضمون تحریر کیا ہے اور سرور جاوید کے خوبصورت اشعار بھی پیش کیے ہیں۔
کسے بتلاؤں کیا میری غزل خوانی کا قصہ ہے
یہ شور سر خوشی اندرکی ویرانی کا قصہ ہے
انھی راستوں پہ آزارِ جنوں کے دن گزارے ہیں
میرے قدموں کی ہر تحریر نادانی کا قصہ ہے
رازق عزیز کا مضمون اقبال اور شاہین (ایک اجمالی جائزہ) انھوں نے بے حد محنت کے ساتھ بہترین مضمون لکھا ہے۔ افسانون کا حصہ بھی قابل ذکر ہے۔
سہ ماہی ''زیست'' اپنی مثال آپ ہے، ہمیشہ کی طرح مستند لکھاریوں کی تحریروں سے آراستہ 432 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ سرپرست پروفیسر ڈاکٹر سید یونس حسنی اور ترتیب انصار شیخ کی ہے، پرچے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک مکمل ناول بھی اپنے پڑھنے والوں کی توجہ مبذول کراتا ہے نام ہے ''زباں بریدہ''۔ اپنے زبان و بیان کے اعتبار سے ایک کامیاب اور شاندار ناول ہے کسی بھی تحریر کو سمجھنے کے لیے اس کے قالب میں اترنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر انصار شیخ کا علم و ادب سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے بلاتعصب و تفریق ہر شاعر و ادیب ان کے پرچے میں جگہ بنا لیتا ہے، یقینا یہی بات انسان کو مہذب اور عالم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ مقالات کا انتخاب بھی خوب ہے۔ ڈاکٹر داؤد عثمانی نے اپنے مضمون ''منشی پریم چند'' کے خطوط رازق الخیری کے نام، اس مضمون میں خطوط ہی شامل نہیں ہیں بلکہ منشی پریم چند کے گھریلو اور ادبی حالات اور زندگی کی تلخیوں کی بھی عکاسی کی ہے۔
مقالات کے بعد مصاحبہ کے عنوان سے محمودالحسن کا مضمون درج ہے کئی چاند تھے سر آسماں، شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو۔ ایک سوال کے جواب میں مرحوم شمس الرحمن فاروقی نے تفصیلی اور مکمل جواب سے نوازا ہے اسی طرح گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ''ناول'' پر بھرپور مضمون وجود میں آگیا۔
ڈاکٹر شکیل احمد خان کا سفر نامہ حج جسے انھوں نے ''تطہیر ذات'' کا عنوان دیا ہے طویل مضمون کا یہ آخری حصہ ہے، اس میں انھوں نے مدینے سے رخصتی کا غم اور مکہ کا دیدار کرنے کا تذکرہ بیان کیا ہے، عقیدت و محبت کے ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارات اور ارکان حج کا تعارف کرایا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں رب اپنے گھر بلاتا ہے اور جنت کے ٹکٹ کی وصولی کو آسان بنا دیتا ہے شعر و شاعری، تراجم اور افسانہ نگاروں کی کاوشوں کی بدولت ''زیست'' وقیع اور جاذبِ نظر بن گیا ہے۔