شناخت کا اک دوسرا جہاں
پاکستان کی تشکیل سے قبل اوربعدمیں بھی ان مزارات کے ساتھ مذہبی،معاشی،سماجی اورسیاسی اثرات کا ایک پرپیچ سلسلہ وابستہ ہے۔
یہ زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا، اس قدر وسیع قبرستان اور اس کے اندر تا حدِ نظر قبریں اور مقبرے۔ ہر مقبرے پر پتھروں کی تعمیر کچھ اس طرح کہ نقش و نگار اور خطاطی کے حیرت انگیز نمونے، ایک ایک مقبرے نے توجہ کا دامن یوں کھینچا کہ وقت گزرنے کا ا حساس ہی نہ رہا ۔
کب سہ پہر کا سورج تیزی سے غروب ہونے کو چلا معلوم ہی نہ ہوا ، سائے تیزی سے پھیلنے لگے یوں جیسے انھیں بھی غروب آفتاب کے ساتھ غروب ہونے کی جلدی ہے۔ اس وقت قبرستان میں بہت کم لوگ تھے۔ اس جہانِ حیرت کو دیکھتے ہوئے ہمیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ رہا۔ وہ تو شکر ہے کہ پاس سے گزرنے والے ایک زائر نے مجھے خبردار کیا ؛ بھائی شام ہونے کو ہے، آپ دیر کر رہے ہیں، اتنے بڑے قبرستان سے واپسی تک اندھیرا چھا جائے گا، جلدی کریں اور نکلیں ورنہ پریشان ہوں گے۔
مکلی قبرستان دیکھنے کا یہ ہمارا واحد تجربہ تھا۔ ٹھٹھہ شہر کے نواح میں واقع یہ قبرستان آٹھ کلو میٹر پر محیط ہے جس کے دامن میں ہزاروں قبریں ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا سما بادشاہوں کا دور تھا جو 1352- 1520 تک رہا، دوسرا دور ترخائن بادشاہوں کا جو 1556-1592 تک رہا۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی ان کی عظمت اور ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اسی منفرد اہمیت کے سبب مکلی کا قبرستان عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ ٹھٹھہ کی تاریخ اور سماج میں یہ قبرستان ایک مرکزی کردار ہے۔
مکلی قبرستان میں موت اور زندگی کا عجیب امتزاج ملتا ہے۔ ایک جانب گزری صدیوں کے مقبرے ہیں جو اپنے اندر دفن شخصیات کی عظمت اور سطوت لیے ہیں اور ساتھ ہی دوسری جانب کثیر تعداد میں عوام کی قبریں ہیں ۔ بادشاہ اور عوام، دونوں کے جسموں کو زیر زمین ایک جیسی مٹی نے مٹی میں ملایا ہے مگر ان پر تعمیر کردہ عمارات مختلف ہیں جس کے سبب یہاں دفن ہونیوالوں کہ الگ الگ شناخت بنتی ہے جسے تارخی کتب اپنے صفحات اپنی زینت بنائے ہوئے ہیں۔
مختلف مذاہب اور ملکوں میں مذہبی پیشوائوں کی قبریں اورمزارات اجتماعی شعور اور شناخت کا نمایاں حصہ ہیں۔ سری لنکا کے شہر کینڈی جو نوآبادیاتی تسلط سے قبل سری لنکا کی راجدھانی تھا، وہاں بدھا سے منسوب ایک دانت کی ایک بہت بڑی یادگار ہے۔ چند سال قبل ہمیں اس یادگار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ شہر ایک پہاڑی پر واقع ہے جس کی چوٹی پر پیالے کی شکل میں ایک شاندار جھیل ہے۔ اس جھیل کے ایک طرف یہ بارعب اور شاندار یادگار ہے۔
داخل ہوں تو بدھا کا ایک عظیم الشان مجسمہ ہے، اس کے ساتھ میوزیم ہے جس میں اس دانت کی تاریخ تصاویر اور خاکوں کی مدد سے پیش کی گئی ہے۔ اس مقدس تبرک کے حصول میں ماضی میں کس طرح اس کے حصول میں سر دھڑ کی بازی لگا دی گئی، یہ سب جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی پیشوا اپنی زندگی کے بعد بھی عوام کی شناخت کا اہم حصہ ہوتے ہیں، نہ صرف شناخت کا حصہ ہوتے ہیں، اس سے جڑی معاشی ، سیاسی اور مذہبی اثرو رسوخ بعد میں لوگوں میں کس قدر اہم ہوتے ہیں۔
برصغیر میں صوفیا ء اور مذ ہبی پیشوائوں کے مزارات کی بھی یہی جہتیں تاریخ، روایات ، سیاست اور مقامی سماج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہمارا تعلق رحیم یار خان سے ہے ، اس کی سرحد کے ساتھ بہنے والے دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر کوٹ مٹھن میں خواجہ غلام فرید کا مزار ہے۔ روہی اور ریاست بہاولپور کی سماجی اور مذہبی شناخت میں یہ مزار ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح بہاول پور کے نزدیک چنن پیر کا مزار اور اس کا میلہ مقامی ثقافت کا ایک لازمی جزو ہے، تین دن تک جاری رہنے والا یہ میلہ مقامی ثقافت اور میل جول کا ایک اہم جزو ہے۔
پنجاب بھر میں معروف صوفی بزرگوں اور صوفی شعرا کے مزارات سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ایک زائر اور عقیدت مند ان سے وابستہ روایتوں اور رسموں کا احترام کرتے ہیں اور ان کی پیروی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ لاہور اور دیگر جگہوں پر بھی صوفی بزرگوں کے مزارات کے ساتھ عقیدت اور عوامی تعلق کا یہی عالم ہے۔ ان مزارات کے ساتھ جڑے دو اور عوامل ہیں جن کی طرف زائرین اور عقیدت مندوں کی نظر اس انداز میں نہیں جاتی مگر ان کی اہمیت اور اس کے مضمرات اپنی جگہ مسلم ہیں۔
ان مزارات کا طرزِ تعمیر اور ان سے جڑ ی معاشی سرگرمیاں اور سیاسی و سماجی اثر روسوخ کی سرگرمیاں ۔ یہ ایک منفرد اور حساس موضوع ہے ، اس میدان میں روایتوں اور حکایتوں کی بھرمار ہے مگر اس موضوع پر معروف آرکیٹیکٹ، ادیب اور شاعر ڈاکٹر غافر شہزاد نے بہت عمدگی سے تحقیق اور تجربے کی بناء پر کئی مضامین اور کتابیں تحریر کی ہیں۔
ان کی حالیہ کتاب مکلی میں مرگ ایک ناول ہے جسے پڑھ کر ہمیں مکلی قبرستان میں 1982 میں گذری ایک سہ پہر یاد آئی۔ اس کے ساتھ ہی یادوں اور سوچوں کا ایک دفتر کھل گیا۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نے اپنے پیشہ ورانہ پس ِ منظر کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اس ناول میں پنجاب اور سندھ کے معروف ترین مزارات کی تاریخ، ان کی موجودہ شباہت اور تعمیر ی پسِ منظر کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔ لاہور میں داتا گنج بخش علی ہجویری، بی بی پاک دامن، شیخوپورہ کے نزدیک وارث شاہ ، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی سمیت بہت سے مزارات کی فن تعمیر کی باریکیوں ، ان کی تاریخ کے اصل حقائق اور ان سے وابستہ بہت سے روایتوں کا مہارت سے اپنے کرداروں کے ذریعے تعارف کروایا ہے۔
پاکستان کی تشکیل سے قبل اور بعد میں بھی ان مزارات کے ساتھ مذہبی، معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات کا ایک پر پیچ سلسلہ وابستہ ہے۔ اس ناول کے ایک مرکزی کردار ارسلان منصور کے ذریعے انھوں نے مزارات کی تعمیر ، توسیع اور ان پر کنٹرول کے پس منظر اور سرکار کی انتظامی مشینری کے کردار کا ایسے دلنشین انداز میں نقشہ کھینچا ہے کہ شناخت کا ایک بالکل دوسرا جہان سامنے لا کھڑا کیا ہے۔