گھروں کی فراہمی کا مسئلہ
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 47 فیصد سے زائد افراد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔
رہائش کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ آئین پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں بھی اس حق کا تواتر سے اظہار کیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو اس حق کو حاصل کرنے میں دقت کا سامنا نہیں لیکن پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں رہائشی سہولتوں کی فراہمی ایک خواب لگتا ہے۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی،بے روزگاری، مہنگائی اور گڈ گورننس کے فقدان کی وجہ سے گھریلو سرپرست اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی چھت کے حصول میں خرچ کر دیتے ہیں۔
آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ہر سال شہروں پر آبادی کا دباو بڑھ رہا۔ تین سال پہلے کی جانے والی شماریات کے مطابق ملک بھر میں مکانات کی تعداد تین کروڑ بیس لاکھ ہے ۔ ان میں سے 64 فیصد مکانات دیہی علاقوں میں جب کہ 36فیصد شہروں میں ہیں ۔ملک میں رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر کئی ادارے اور ہاسنگ سوسائٹیز قائم ہیں۔
ملک کے غیر مستحکم سیاسی نظام اور بدانتظامی کی وجہ سے اکثر سرکاری ادارے مقررہ وقت پر پر یہ ہدف حاصل نہیں کرسکتے، کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی لوگوں کی اکثریت ان سرکاری رقم جمع کرانے کے باوجود گھروں حاصل نہ کر سکے ہیں۔
نجی سوسائٹیوں کی اکثریت فراڈ اور دھوکا دہی کے تحت عوام سے ان کی زندگی بھر کی پونجی لوٹ کر گم ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بیسیوں ہاسنگ سوسائٹیوں کی جانب سے کیے جانے والے فراڈ اور دھوکا دہی کے کیسز نیب اور ایف آئی اے کے زیر تفتیش ہیں۔ سالہا سال گزرنے کے باوجود یہ غریب لوگ نہ تو اپنے پیسے واپس لے سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں پلاٹ اور گھر مل سکا ہے۔
وفاقی حکومت نے 1989میں وزارت ہاسنگ اینڈ ورکس کے زیر انتظام ایمپلائز ہاسنگ فانڈیشن قائم کی تاکہ سول ملازمین کو ریٹائرمنٹ یا اس سے پہلے گھر کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔اس فانڈیشن نے گزشتہ 24 سال کے دوران اسلام آباد کراچی اور پشاور میں سرکاری ملازمین کو پلاٹ ہاٹ اسپاٹ منٹ اور گھر فراہم کرنے کے کئی منصوبے شروع کیے۔
مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی اور مشرف کی حکومتوں نے بھی سرکاری ملازمین اور عام آدمی کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کام کیے لیکن عملاً بہت کم سرکاری ملازمین کو رہائشی سہولتیں حاصل ہو سکیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ملک میں تعمیراتی صنعت کو انقلابی انداز میں ترقی دینا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ایک مربوط تعمیراتی پالیسی کا اعلان بھی کیا ہے۔
سرکاری ملازمین کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے اعتبار سے موجودہ حکومت نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز فانڈیشن کو ایک سال پہلے اتھارٹی کا درجہ دے دیا۔ اس طرح یہ ادارہ بہت حد تک ایک خود مختار حیثیت میں پہلے کی نسبت زیادہ آسانی سے عملدرآمد کر سکتا ہے، اس اتھار ٹی کے ڈائریکٹر جنرل وسیم حیات باجوہ خاصے متحرک اور پر عزم شخصیت ہیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز کے دو لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ممبران کو ملک بھر کے مختلف علاقوں میں نیا پاکستان ہاسنگ پراجیکٹ کے تحت رہائش فراہم کرنے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ اور جی چودہ کے علاوہ بارہ کہو، گرین انکیو، سٹی گارڈن، لائف ریزیڈنسی، تھالیاں، پارک روڈ پر گھروں اور اپارٹمنٹ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کشمیر ایونیو، چکلالہ ہائٹس ،انڈس وسٹا،سکای لاین اپارٹمنٹس بیدیاں روڈ لاہور لائف ریزیڈنسی ہاوسنگ اسکیم ایسے بڑے پروجیکٹ ہیں جن کو اگر بروقت تعمیر کرلیا گیا تو سرکاری ملازمین کو رہائشی مکانات کی فراہمی کا فراہمی کا خواب کسی حد تک پورا ہو جائے گا۔
ان منصوبوں کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے مختلف صرف رہا ئشی علاقوں میں ناجائز قابضین سے سے سرکاری اراضی کو واگزار کرانے میں بھی ہاسنگ اتھارٹی نے خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔کئی دھائیوں سے سے قابضین سے زمین واپس لینا انتہائی مشکل کام تھا۔ اسلام آباد کے گیٹ وے کے اس علاقے میں کئی دہائیوں سے ترقیاتی کام روکے ہوئے تھے، جو اب شروع ہو چکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 47 فیصد سے زائد افراد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں صحت عامہ اور شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ گھروں کی فوری ضرورت ہے تاکہ عوام کو موسمی اثرات سے بچانے میں مدد مل سکے۔ ورلڈ بینک کی اسی رپورٹ کے پس منظر میں تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کو ایک کروڑوں گھروں کی فراہمی کا خوش کن اعلان بھی کیا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ اس میں انھیں کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ دیہات سے شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی کو روکنے کے لیے قصبوں اور چھوٹے شہروں کے قریب سیٹلائٹ ٹان بنانے پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہروں کی طرف سے نقل مکانی کے عمل کو کم کیا جا سکے۔