محکمہ تعلیم کی زبوں حالی اور صاحبانِ علم ود انش
پیپلز پارٹی کے اس دورِحکومت میں اسکولوں اورکالجوں میں میرٹ کا اصول پامال ہوا ہے۔
چار سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کے خلاف صاحبانِ علم و دانش کی تحریک کو ایک کامیابی حاصل ہوئی ہے، یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈز کے امور کے صوبائی مشیر سندھ نثار کھوڑو نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ان سفارشات کو صوبائی خودمختاری پر حملہ قرار دیدیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سندھ میں دوسالہ ڈگری کورس جاری رہے گا مگر سندھ کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم نے نثارکھوڑو کی معروضات کو مسترد کردیا۔ اب وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری اور سندھ کمیشن کے سربراہ اور ان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہونگے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی 2 سال کا گریجویشن نہیں ہوتا اور بیشتر یونیورسٹیاں 4 سال کے گریجویشن پروگرام پر عمل کررہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جو طالب علم 2 سالہ ڈگری کورس کر رہا ہے اس کے لیے 4 سالہ ڈگری پروگرام میں داخلہ کی گنجائش ہونی چاہیے۔ نثارکھوڑو ایک زمانہ میں بااختیار وزیر تعلیم تھے۔ ان کے دور میں اور ان کے پیش روکے ادوار میں سندھ میں سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور عدالتوں کے فیصلے اس ناروا سلوک کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اس دورِحکومت میں اسکولوں اورکالجوں میں میرٹ کا اصول پامال ہوا ہے۔ صوبائی حکومت نے سندھ پبلک کمیشن کو نظرانداز کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو بغیر ٹیسٹ پاس کیا اور اساتذہ کا اعزاز دیا۔
کہا جاتا ہے کہ ہر فرد نے استاد کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے کئی کئی لاکھ روپے کے نذرانے دیے۔ جب اس صورتحال کا چرچا ہوا تو ورلڈ بینک نے دھمکی دی کہ سندھ کے تعلیمی پروگرام کے لیے دی جانے والی گرانٹ بند کردی جائے گی، یوں پیپلز پارٹی کے مرد آہن سابق صدر آصف زرداری نے اپنے قریبی عزیز کو سیکریٹری تعلیم مقررکیا جنھوں نے ان افراد کو استاد کے اعزاز سے محروم کرنے کے لیے قانونی طریقے استعمال کیے ،کئی ہزار افراد ملازمت سے محروم ہوئے، سندھ بھر میں ان افراد نے مظاہرے کیے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے مہینوں ان افراد نے دھرنا دیا۔
ان میں سے بعض افراد اپنی داستان غم سناتے ہوئے کہتے تھے کہ گھر کا سامان فروخت کر کے سرکاری پروانہ خریدا تھا ، اپنے کاروبارکو سمیٹ لیا تھا ، یوں کئی سال تک کراچی پریس کلب کے اراکین کو آنسو گیس کی گولیوں کی بو برداشت کرنی پڑی۔ کراچی پولیس کے اہلکار ان افراد کے ہجوم کو وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی مدد لیتے تھے۔
سکھر IBA کے ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ قانونی وجوہات کی بناء پر ملازمت سے محروم ہوئے۔ بہت سے مقدمات عدالتوں میں گئے۔ نیب نے محکمہ تعلیم کے بہت سے افسروں کے خلاف مقدمات قائم کیے، یہاں معاملہ صرف اسکولوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سرکاری کالجوں میں بدعنوانی کا ایک نیا دور آیا۔ سینئر پرنسپلزکی جگہ جونیئر اساتذہ کو پرنسپلزکے عہدوں پر فائز کیا گیا، جہاں پرنسپلز سینئر تھے وہاں جونیئر اساتذہ کو D.D.O کے اختیارات دیے گئے، یوں مالیاتی معاملات سے متعلق قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی اور اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ (A.G Sindh)کے آڈیٹروں نے سخت اعتراضات کیے۔
اسکولوں اور کالجوں کی کینٹین کی اجازت میں غیر شفافیت کے الزامات اخبارات کی خبروں کا حصہ بنے۔ پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت میں اسکول ڈائریکٹریٹ اورکالج ڈائریکٹریٹ کے متعدد سربراہ عارضی بنیادوں پر تعینات کیے گئے، یوں اختیارات کی جنگ اور سینئر پروفیسروں میں مایوسی کا رجحان تقویت پاگیا۔ سندھ کا محکمہ تعلیم اب تعلیمی بورڈ کے سربراہوں کی تقرری کا مجاز ہے مگر تعلیمی بورڈز میں قائم مقام سربراہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دو سال قبل تک میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں نقل کے اسکینڈل خوب مشہور ہوئے۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج،انتخابی نتائج کی طرح مشتبہ رہے۔ یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے متعلقہ مضامین میں بہترین نمبر حاصل کرنے کے علاوہ دیگر لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔کالجوں کے پرنسپل صاحبان کا کہنا ہے کہ کراچی کے کالجوں میں بنیادی مضامین کے اساتذہ کی کمی ہے۔
کالجز پرنسپل صاحبان ہر سال انگریزی، ریاضی، فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے اساتذہ کے تقرر کے لیے عرضداشتیں روانہ کرتے ہیں مگر ان عرض داشتوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایک پرائیویٹ کالج کراچی پرنسپل صاحب نے ایک اعانتی استاد کو 6 ہزار روپے مشاہرہ پر رکھا تاکہ امتحان سے پہلے طلبہ کا انگریزی کا کورس مکمل کرایا جاسکے۔ کراچی جنوبی میں دو سال قبل ایک گرلز کالج قائم کیا گیا۔ اس گرلز کالج کی خوش قسمتی ہے کہ سرکاری افسران کی بیگمات کی اس کالج میں تقرر ہوتی ہے جہاں طالبات کی تعدادکم ہے اور اساتذہ کا زیادہ وقت خوش گپیوں اور آنے جانے میں گزرتا ہے۔
سندھ کا محکمہ تعلیم طرزِ حکومت (Good Governance) سے خاصے فاصلہ پر ہے۔ بعض کالجوں میں ایک ہی مضمون کے کئی اساتذہ کا تقررکردیا جاتا ہے، جوکالجز کراچی کے مضافاتی علاقوں میں قائم ہیں ان میں ہمیشہ اساتذہ کی کمی رہتی ہے۔ حکومت سندھ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ کراچی کے منتخب کالجوں میں بی ایس کمپیوٹر سائنس کا کورس رائج کیا گیا جو چار سال پر مشتمل ہے۔
سب سے زیادہ طالب علم ان کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس کورس کے علاوہ کوئی نیا مضمون رائج نہیں ہوا۔ میڈیا اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے بعض خوش قسمت افراد کا سندھ پبلک کمیشن کے ذریعہ لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہوا مگر کراچی کے کئی کالجز میں میڈیا اسٹڈیز کی تدریس نہیں ہوتی۔ یہ اساتذہ دیگر مضامین کی تدریس کرکے اپنی روزی کو حلال کرتے ہیں۔ تعلیمی امورکی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت 120 کالجوں میں گریجویشن کی سطح کی تدریس ہوتی ہے مگر ان کالجوں میں طالب علموں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
بی ایس سی کے پروگرام میں صرف 3500 طلبہ داخل ہیں۔ بی اے کے پروگرام میں 13 ہزار اور بی کام کے پروگرام میں 15 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں مگر حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم نے 100سے زائد کالجوں میں طلبہ کی داخلہ کی شرح میں کمی کی وجوہات کو معلوم کرنے کے لیے کوئی تحقیق نہیں کی اورکسی نے نہیں سوچا کہ بجٹ کے اربوں روپے ان کالجوں پر خرچ ہوتے ہیں پھر طلبہ کے داخلہ نہ لینے کے اسباب کیا ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سرکاری یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سندھ اسمبلی نے 2016 میں یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کا بل منظورکیا۔ ان ترامیم سے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اختیارات محدود ہوئے۔ یونیورسٹی سے رجسٹرار اور دیگر عہدوں پر تقررکے اختیارات واپس لیے گئے ، 2018 میں یونیورسٹی ایکٹ میں ایک اور ترمیم کی گئی۔
اس ترمیم کے تحت یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ میں نامزد افسروں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ان کی تعداد اساتذہ کے منتخب نمائندوں سے زیادہ ہوگئی۔ جب کراچی اور سندھ بھرکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تو اس قانون پر کراچی اور سندھ یونیورسٹی میں عملدرآمد روک دیا گیا جب کہ نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں یہ قانون نافذ ہوا۔ ہمیشہ ملک کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔
مشیر صاحب وزیر تعلیم کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں گورنر کی نمائندگی کے لیے تشریف لائے اور اعلان فرمایا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ٹی وی اسٹوڈیو قائم کیا جائے گا مگر یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔ کئی سال قبل وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ صحافیوں کی تربیت کے لیے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اکیڈمی قائم کی جائے گی۔ شعبہ ابلاغ عامہ سے فارغ التحصیل ایک سینئر صحافی جو ملک کے معروف تجزیہ نگاروں میں شامل ہوتے ہیں نے بار بار کوشش کی کہ حکومت اس وعدہ پر عملدرآمد کرے مگر وہ چند ماہ بعد ہی مایوس ہوگئے۔
پہلی دفعہ کالجوں میں سمسٹر سسٹم نافذ کرنے اور نئے مضامین متعارف کرانے کے لیے ایچ ای سی نے دلچسپی لینی شروع کی ہے تو 3500 طلبہ کے بی ایس سی پروگرام کو بچانے کے لیے صاحبان علم و دانش نثار کھوڑو کے گرد جمع ہوگئے ہیں۔ ان صاحبان علم و دانش نے نہ تو یونیورسٹی کے قانون میں دی گئی یکطرفہ ترامیم کی واپسی کا مطالبہ کیا نہ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی پر زور دیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا درست ہے کہ اب 2سالہ گریجویشن پروگرام متروک ہوچکا، کالجوں کو بچانے کے لیے 4 سالہ پروگرام اور سمسٹر سسٹم اور فنڈز میں اضافہ لازمی ہے۔