مفاہمتی سیاست کا چورن نہیں بکے گا
اگر مسلم لیگ ن مولانا کے ساتھ کھڑی رہی توممکنہ طور پر آیندہ انتخابات میں دونوں جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں گی۔
پاکستان کی سیاست فیصلہ کن موڑ پر آکر کھڑی ہے، سامنے دو ہی راستے ہیں، ایک راستہ حقیقی جمہوریت کا ہے اور دوسرا جمہوریت کے نام پر ہونے والے اْس تماشے کا، جو پچھلے ستر برسوں سے اس ملک میں جاری ہے۔ پہلا راستہ پاکستان کے استحکام، خوشحالی اور فلاح کی جانب لے کر جائے گاجب کہ دوسرا راستہ تباہی و بربادی، عدم استحکام، ووٹ کی پامالی اور بدحالی کی جانب دھکیلے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ دوسرا راستہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہے، کیوں، اس میں غیر جمہوری قوتوں سے لے کر نام نہاد جمہوریت کے چیمپئنوں تک سبھی کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاھی میں ہوتا ہے اور عوام بیچارے اس کڑاھی کے نیچے جلنے والی آگ کا ایندھن ہوتے ہیں۔ وہ قربانیاں دیتے ہیں اور اس ملک کی ایلیٹ کلاس مزے لوٹتی ہے۔ اسی لیے پاکستان کو دنیا کا واحد ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں غریبوں کے پیسوں پر امیروں کو پالا جاتا ہے۔
اس وقت سیاسی منظر نامے پر اس بوسیدہ نظام کو حقیقی معنوں میں بدلنے کے لیے مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کی سالمیت، استحکام، جمہوریت کی بحالی، اداروں کی مضبوطی، عوام کی خوشحالی اور ووٹ کو عزت دلانے کے لیے پی ڈی ایم کی قیادت کو سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ بظاہر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت متعدد اپوزیشن جماعتیں مولانا کی اقتداء میں ہیں مگر کسی کی بات اور عمل میں مولانا جیسا زور اور عزم نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت کی ان نام نہاد چیمپئن جماعتوں میں سے مولانا کے ساتھ کوئی جماعت پوری قوت اور عزم کے ساتھ نہیں کھڑی۔
ہم نے کئی ماہ قبل مولانا کو مسلم لیگ ن اور خاص طور پرپیپلز پارٹی سے خبردار رہنے کی تجویز دی تھی کیونکہ ان دونوں کا ماضی داغدار ہے اور یہ ناقابل اعتبار جماعتیں ہیں لیکن موجودہ سیاسی منظر نامے کے پیش نظر شاید مولانا کے لیے ملک کی ان دو بڑی جماعتوں پر اعتماد مجبوری ہے۔
مسلم لیگ ن تو باامر مجبوری پی ڈی ایم میں سرگرم دکھائی دے رہی ہے اور کسی حد تک متفقہ فیصلوں کی پاسداری بھی کرتی ہے تاہم پیپلز پارٹی ناصرف پی ڈی ایم کے فیصلوں پر اپنے فیصلے تھونپنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کو ڈکٹیٹ کرنے سے بھی باز نہیں آرہی۔ پی ڈی ایم میں فیصلے کچھ کیے جاتے اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ سطح کی قیادت اعلانات کچھ اور کردیتی ہے جس سے ناصرف مولانا فضل الرحمٰن بلکہ اتحاد میں شامل ہر جماعت اضطراب کا شکار ہے۔
استعفوں کے معاملے سے لے کر سینیٹ و ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ تک، پی ڈی ایم کے ہر فیصلے کو پیپلز پارٹی نے اپنے پاؤں تلے روندا اور مسلم لیگ ن کو اپنے ساتھ ملا کر پی ڈی ایم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے پیپلز پارٹی آج تک مفاہمتی سیاست کے ڈھکوسلے سے باہر ہی نہیں نکل سکی، اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے کسی مفاہمتی عمل کے لیے بیک ڈور رابطوں کے اشارے مل رہے ہیں، ممکن ہے انھی اشاروں کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے استعفوں کے طے شدہ آپشن کو چھوڑ کر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا پتا پھینک دیا ہو۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پی ٹی آئی سرکار جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے وہ انھیں غیر جمہوری قوتوں کی پروردہ ہیں، انھی کے اشاروں پر یہ گھونسلے بناتے اور پھر ان بنے بنائے گھونسلوں کو چھوڑ کر نئی منزل کی جانب چل نکلتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو وفاداری کی تبدیلی کے نام سے ہی موسوم کیا جاتاہے، اگر پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست کی آڑ میں یہ کھیل کھیلنے جارہی ہے اس کا یہ عمل صرف پی ڈی ایم کی اب تک کی جدوجہد پر پانی پھیرنے کے مترادف ہی نہیں ہوگا بلکہ میثاق جمہوریت اور میثاق پاکستان سے بھی انحراف ہوگا۔ اس عمل کے نتیجے میں ممکن ہے عمران خان گھرچلے جائیں لیکن سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار کبھی ختم نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مفاہمت کا جو چورن تیار کررکھا ہے، مولانا فضل الرحمٰن سمیت پی ڈی ایم کی تمام قیادت کو اس سے خود کو بچانا ہوگا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اس بار آپ نے ذاتی مفادات کے لیے کسی سے ساز باز کی تو آپ کا یہ عمل جمہوریت دشمنی کے مترادف سمجھا جائے گا اور آیندہ آپ پر کبھی اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
اس وقت عوام کی نگاہیں مولانا فضل الرحمٰن اور پی ڈی ایم پر لگی ہیں،اس لیے تمام محب وطن سیاسی جماعتوں کا یہ نظریہ ہونا چاہیے کہ وفاقی، اسلامی، جمہوری، پارلیمانی آئین پاکستان کی بالادستی اور عمل داری یقینی بنانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا، پارلیمنٹ کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، سیاست سے غیرجمہوری قوتوں کے کردار کا خاتمہ کرکے دم لیں گے، آزاد عدلیہ پاکستان کے استحکام کے لیے لازم ہے۔
آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اصلاحات اور انعقاد ناگزیر ہیں، عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کا تحفظ ہر سیاسی جماعت کا منشور ہوگا، صوبوں کے حقوق اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا، مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام رائج کیا جائے گا، اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کا دفاع ہر محاذ پر کیا جائے گا، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا، مہنگائی، بے روزگاری، غربت کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی پلان نافذ کیا جائے گا۔
آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ اور عمل درآمد لازم کیا جائے گا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مشوروں کے مطابق اس سلسلے میں مزید آگے بڑھنا ہوگا جتنا جلدی ممکن ہو سود کی لعنت سے جان چھڑانی ہوگی۔ یہ وہ معاملات ہیں جو ملک کوسلامتی، استحکام اور خودمختاری کی جانب لے کر جائیں گے اور اس کے لیے مفاہمتی سیاست کو دفن کرکے قومی سیاست کو اپنانا ہوگا، پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بات سمجھ لے کہ اس بار مفاہمتی سیاست کا چورن نہیں بکے گا،کسی کو شوق ہے تو وہ شوق پورا کر کے دیکھ لے۔
پیپلزپارٹی کے علاوہ بھی جو مفاہمتی چورن اندر یا باہر سے بھیجنے کی کوشش کرے گا وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت جمہوری قوتوں کے سب سے بڑے اتحاد پی ڈی ایم کی ناکامی جس کے کھاتے میں بھی آئی تو غربت افلاس اور مہنگائی کی چکی میں پستی قوم وقت آنے پر ان کی خبر لے گی جنھوں نے عوام کے مفادات پر سودے بازی کی ہوگی اور اگر ذاتی مفادات کے گول چکر میں پی ڈی ایم فیل ہوگئی تو قوم کی نظروں میں سرخروئی صرف مولانا کے حصے میں آئے گی کیونکہ واحد وہی لیڈر ہیں جو قوم کی حقیقی ترجمانی پوری قوت اور عزم سے کر رہے ہیں۔
اگر مولانا کے ساتھ مسلم لیگ نے کوئی ہاتھ کیا تو وہ بھی یہ بات ذہن میں رکھے کہ مولانا نے جو متحرک سیاست 2018 کے الیکشن کے بعد کی ہے اس کے نتیجے میں پورے ملک میں جمعیت کو عوامی پذیرائی ملی ہے خصوصاً پنجاب میں پہلی بار جمعیت نے بہت تیزی کے ساتھ عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے، اس کا ادراک اگر مجھے ہے تو مولانا کو بھی ہوگا؟
اگر مسلم لیگ ن مولانا کے ساتھ کھڑی رہی توممکنہ طور پر آیندہ انتخابات میں دونوں جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں گی اور گزشتہ الیکشن میں پہلی بار حصہ لینے والی ایک جماعت بھی اس انتخابی اتحاد کا حصہ بنے گی، یوں یہ اتحاد ناقابل تسخیر ثابت ہوگا اور کلین سویپ کی پوزیشن میں ہوگا۔اگر ن لیگ بھی کسی لالی پاپ کے مزے لینے نکل پڑی تب بھی جے یو آئی اور گزشتہ الیکشن میں پہلی بار حصہ لینے والی اس جماعت کے ساتھ الیکشن لڑیں گے اور بڑی بڑی سیاسی قوتوں کے لیے حیران کن نتائج دیں گے، یہ اتحاد پوری قوم کے لیے سرپرائز اور پنجاب کی سیاست میں مولانا کی ایک دبنگ انٹری ہوگی۔