ہنوز دلی دور است
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان شٹل کرنا ایسے ہی ہے جیسے لاہور میں بھاٹی گیٹ سے لوہاری دروازے تک گھوم لینا۔۔۔
ہمارے دوست کے زیڈ ملک کے لیے جو امریکی اور پاکستانی شہریت رکھتے ہیں' واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان شٹل کرنا ایسے ہی ہے جیسے لاہور میں بھاٹی گیٹ سے لوہاری دروازے تک گھوم لینا۔ اس بار وہ لاہور آئے تو مجھ سے پوچھا کہ تم دس بارہ دور دراز کے ملکوں کی سیر تو کر چکے' کبھی اڑوس پڑوس کے ملکوں میں بھی جانا ہوا ہے۔ میں نے غور کیا کہ ایران' افغانستان اور ہندوستان کی جغرافیائی سرحدیں تو پاکستان سے ملتی ہیں لیکن میرا وہاں جانا نہیں ہوا۔ مسٹر ملک نے کہا پہلے میں تمہیں انڈیا لے جاؤں گا اور پھر واقعی مجھے ویزہ لگوانے پر مائل کر کے گزشتہ ہفتے امرتسر اور انڈیا کے کیپٹل لے جانے کے دورے کے لیے تیار ہی نہیں کیا' پروگرام بھی ترتیب دے دیا۔ لاہور اور نزدیکی علاقوں کے رہائشی لوگ شام کے وقت پاکستانی اور انڈین جھنڈوں کے اتارے جانے کی تقریب دیکھ کر محفوظ ہونے کے لیے واہگہ بارڈر پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ انڈیا سرحد پر بھی لوگ اکٹھے ہو کر پریڈ اور جھنڈے اترنے کی کارروائی دیکھنے آتے ہیں لیکن جیسا جوش و خروش اور نعرے بازی پاکستان کے تماشائیوں کی طرف سے دیکھنے سننے کو ملتی ہے' وہ بے حد ولولہ انگیز ہوتی ہے۔ مجھے کئی بار فیملی کے ہمراہ اس کا نظارہ کرنے کا موقع ملا بلکہ دو بار سکھ جتھوں کی آمد پر انھیں وصول کر کے ان کے پاکستان میں مقامات مقدسہ لے جانے کے فرائض انجام دینے کا موقع بھی بحیثیت نمائندہ ضلع انتظامیہ ملا۔
گزشتہ ہفتہ ملک صاحب کے ہمراہ واہگہ سے انڈیا جانا ہوا تو ہمارا پہلا پڑاؤ امرتسر کی معروف کاروباری شخصیت رمن سہگل کے مکان پر تھا۔ سہگل صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے۔ وہ اس تاریخی شہر کے بڑے کاروباری ہیں اور مسلمان دوستوں سے ملنے اکثر پاکستان آتے ہیں۔ ہم جلدی میں تھے اور بارڈر سے ان ہی کی بھیجی ہوئی کار سے ان کے پاس چائے پینے رکے تھے لیکن انھوں نے پرتکلف لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ امرتسر زرعی شہر ہونے کے علاوہ انڈسٹریل سٹی بھی ہے۔ اس شہر کی گندم پنجاب کے علاوہ کئی دوسری اسٹیٹس کو بھی جاتی ہے' کھیتوں کی ہریالی بتا رہی تھی کہ وہاں پانی اور بجلی وافر ہے۔
ہمارا ارادہ صرف دو دن امرتسر میں گزارنے کا تھا اور اس عرصہ میں ہم نے دو ہی معروف مقامات پر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں ایک جگہ وہ تھی جہاں گورو بابا نانک نے Meditate کرتے ہوئے سکھ برادری کے لیے بعض سنہری اصول سوچے اور خود بھی ان پر عمل کیا۔ بابا صاحب کے اسی مقام پر آج انسانی بھائی چارے اور برابری کا سکھوں کے مطابق بطور سمبل گولڈن ٹمپل کھڑا ہے جہاں روزانہ لاکھوں سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ پانچویں سکھ گرو ارجن سنگھ نے 1645ء میں حضرت میاں میر کے دست مبارک سے مندر کی بنیاد رکھوائی۔ اسے گرو ہرمندر سنگھ گولڈن ٹمپل بھی کہا جاتا ہے۔ گرو رام داس اس مندر کے آرکیٹکٹ تھے۔ عجیب بات کہ گولڈن ٹمپل کو دیکھیں تو اس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔
سکھوں کے مطابق اس ٹمپل میں ہر مذہب' نسل' جنس اور عقیدے کے پیروکار کو داخل ہونے کی آزادی ہے۔ اس مندر پر جتنا سونا لگا ہے اور جو عقیدت مند روزانہ چڑھاوے چڑھاتے ہیں اس کا حساب و شمار مشکل ہے۔ اس مندر کے چاروں دروازوں میں سے کسی میں بھی داخل ہونے اور نکلنے کی پابندی نہیں تھی۔ وہاں آوازیں سنیں کہ ''ست سری اکال جو بولے سو نہال'' ہمیں تو پہلے سے معلوم تھا کہ سکھ کی نشانی ''کَچھ، کڑا، کر پان، کنگھا، کیس'' ہوتی ہے لیکن ہمارے ایک سکھ میزبان ترپت راجندر سنگھ باجوہ کے ایک نوجوان بیٹے نے مونا سکھ ہونا پسند کیا اور ایسا بہت سے نوجوان سکھ کرتے ہیں جو اب قابل اعتراض نہیں رہا۔ بہت سے سردار منتیں ماننے' چڑھاوے چڑھانے اور مندر کے پانی سے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے دیکھے۔
اسی شہر میں انگریزی دور کا ایک جلیاں والا باغ ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت ہے کہ 13 اپریل 1919ء کو کم و بیش 379 نہتے سکھوں کا جن میں مرد' عورتیں اور بچے شامل تھے، انگریز جنرل ڈائر کے حکم پر وحشیانہ قتل عام ہوا اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اب باغ کو جَلیاں والا نیشنل میموریل ٹرسٹ چلاتا ہے۔ اتنے کم وقت میں صرف گولڈن ٹمپل اور جلیاں والا باغ کی زیارت ہو سکی۔ یہ دونوں کی جگہیں سکھ دھرم کے لوگوں کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہیں لیکن ان کے نزدیک گولڈن ٹمپل کا مقام بہت اونچا ہے۔
ہم ابھی انڈیا ہی میں تھے کہ دلی کے نئے چیف منسٹر اروند نے حلف اٹھایا اور پھر حسب وعدہ کم حیثیت لوگوں کو بجلی' پانی میں فوری مراعات دیں لیکن عوام سے اس کا یہ عہد کرنا کمال تھا کہ نہ وہ خود رشوت لے گا نہ کسی کو لینے دے گا۔ اگر ایسا ہی پبلک عہد ہمارے وزیر اعظم' وزراء اعلیٰ اور وزیر مشیر بھی کریں اور پھر عہد نبھائیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ دلی کے وزیراعلیٰ نے اس کی نظیر قائم کر دی ہے۔
نئی دلی کے لیے ہمارے پاس صرف دو دن تھے جو بے حد کم مدت تھی۔ اس مختصر عرصے میں دلی کو نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بہرحال ایک چیز جو ہمیں محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ مسلمان خاصے پسماندہ اور غریب ہیں۔دلی میں ان کا زیادہ تر روزگار سائیکل رکشہ یا چھوٹی موٹی دکانیں ہیں۔ سنا ہے کہ اب مسلمان تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہنرمند بھی ہو رہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ محسوس ہوا کہ جو منقسم خاندان ہیں، انھیں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کراچی کے لوگوں کو اس حوالے سے زیادہ مشکلات ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہیے اور آنے جانے کی پابندیاں نرم کرنی چاہیں۔ سندھ سے ملحقہ بھارت کی سرحد کو بھی آمد و رفت کے لیے کھول دیا جائے تو صورت حال مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پنجاب میں بھی قصور اور دیگر پوائنٹس پر بھی سرحد سے آنے جانے کو ممکن بنایا جائے تو یہ اچھا کام ہو سکتا ہے۔اب واپس دلی کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے لیے اس شہر میں دیکھنے اور جاننے کے لیے بہت کچھ تھا جو ہم نے آئندہ وزٹ پر رکھ چھوڑا ہے لیکن ہم نے اپنے میزبان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں موٹر کار ہی میں بیٹھے بیٹھے جامع مسجد' لال قلعہ' انڈیا گیٹ' قطب مینار' ہمایوں کا مقبرہ' لوٹس ٹمپل' گاندھی چوک اور چیف منسٹر اروند کی رہائش گاہ دکھا دے اور بھلے وہ چاہے تو یہ کہہ دے کہ دلی موٹر کار میں بیٹھ کر دور سے دیکھ لینے سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے دلی دیکھی لیکن ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں تو ہو جائیں گے کہ ہم نے دلی دیکھی ضرور لیکن ہنوز دلی دور است اور اگر زندگی نے وفا کی تو پھر کبھی سہی۔