بساط
مسلم لیگی رہنماؤں بالخصوص شاہد خاقان عباسی نے پی پی کی تجویز پر اعتراضات کیے اور اسے ناقابل عمل قرار دیا۔
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق، جن کا اعلان اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کیا، 26 مارچ کو پورے ملک سے لانگ مارچ کے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور سینیٹ کے انتخابات پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں باہمی مشاورت سے مشترکہ طور پر لڑیں گی۔
پی ڈی ایم اجلاس میں اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تجویز پرکوئی فیصلہ نہ کیا جاسکا۔ تحریک عدم اعتماد پر مولانا فضل الرحمن نے یہ موقف پیش کیا کہ اس پر اگلے اجلاس میں بحث ہوگی اور پھر فیصلہ کریں گے۔
پی ڈی ایم اجلاس کی اندرونی کہانی سنانے والے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اتحاد کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے پر کسی مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے حوالے سے اعتماد نہیں کرتیں۔ پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اپنا یہ موقف پیش کیا کہ اگر انھیں سیاسی جوڑ توڑکا موقع دیا جائے تو انھیں یقین ہے کہ جس طرح انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالا بعینہ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو بھی گھر بھیج سکتے ہیں۔
شنید ہے کہ مسلم لیگی رہنماؤں بالخصوص شاہد خاقان عباسی نے پی پی کی تجویز پر اعتراضات کیے اور اسے ناقابل عمل قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف بھی تحریک عدم اعتماد کے حامی نہیں ہیں۔ دونوں رہنما عوامی دباؤ یعنی جلسے، جلوس اور لانگ مارچ سے حکومت گرانے کے موقف کے حامی ہیں۔ مولانا کو یقین ہے کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ماضی میں عمران خان نے بھی ایک لانگ مارچ کیا تھا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 126 دن تک دھرنا دیے بیٹھے رہے لیکن وہ امپائرکی انگلی سے لے کر سول نافرمانی تک بلند و بانگ دعوے کرنے کے باوجود میاں صاحب کی حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے نتیجے میں بھی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ دراصل پی ڈی ایم میں شامل تقریباً تمام ہی جماعتیں ایک دوسرے سے مختلف نظریات کی حامل ہیں۔
بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو گزشتہ تین عشروں سے انتخابی و سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مقابل رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے اکابر رہنما ایک دوسرے پر تنقید اور مختلف الزامات بھی لگا چکے ہیں۔
آج محض ''بغض عمران'' میں باہم شیر و شکر نظر آتے ہیں لیکن درون خانہ آج بھی ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں، اگرچہ سینیٹ انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاہم پی پی پی اور (ن) لیگ کے درمیان مشترکہ امیدواروں کے انتخاب پر بھی اختلافات موجود ہیں، دونوں جماعتیں اپنی اپنی سیاسی ساکھ بھی بچانا چاہتی ہیں اور حکومت کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کو بھی آنکھیں دکھا کر دباؤ میں لانے کی آرزو مند ہیں۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی پی پی کے مقابلے میں (ن) لیگ مقتدرہ قوتوں کو للکارنے میں دو قدم آگے ہے۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز کھل کر بلکہ بعض اوقات نام لے کر بھی مقتدرہ اداروں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ تنقیدی بیان پر ایک مرتبہ پھر فوجی ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ بیک ڈور رابطے ہیں، اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔
پاک فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے صاف الفاظ میں کہا کہ پی ڈی ایم کے حوالے سے کی جانے والی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، تصدیق اور شواہد کے بغیر پاک فوج کے سیاست میں کردار کے حوالے سے بات کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا، ثبوت دکھائیں کہ کون کس کو فون کال کر رہا ہے اور کون کس سے بات کر رہا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہمارے لیے اندرونی و بیرونی سیکیورٹی بڑا فریضہ ہے جو ہم بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد توقع تھی کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو جائے گی۔ مگر حیدرآباد میں پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے ملفوف الفاظ میں طاقت ور حلقوں کو ہدف تنقید بنایا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کا اصل ہدف بظاہر حکومت کا خاتمہ کرنا ہے لیکن پس پردہ وہ مقتدرہ قوتوں کے اس غیر مرئی سیاسی کردار کا خاتمہ چاہتے ہیں جو ان کے بقول حکومت کو اقتدار میں لانے اور تاحال اس کی پشت پناہی کرنے سے متعلق ہے، مناسب یہی ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن بات چیت کے ذریعے پارلیمنٹ کے اندر سیاسی مسائل حل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لانگ مارچ اور دھرنا جمہوریت کی بساط ہی پلٹ دے۔