قصیدہ گو
کیا ہمارے حکمرانوں، قائدین و صاحب اختیاروں کی کبھی ان رنگیلے مشیروں اور قصیدہ گوؤں سے جان چھوٹ سکے گی۔۔۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک بہت عظیم الشان سلطنت کا حکمران تھا جو مشرق وسطیٰ سے لے کر وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک شاعر اور علم و فضل کے مربی کے طور پر بھی خوب شہرت حاصل کی۔ جب وہ خلیفہ بنا تو اس نے خزانے کے منہ کھول دیے اور اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کو قیمتی تحائف سے نوازا۔ اسے امید تھی کہ اس کا سابق استاد سفیان بھی اس کے ہاں حاضری دے گا، جب وہ نہ آیا تو ہارون نے ایک قاصد عباد کے ہاتھ اسے ایک خط بھیجا، جب عباد پہنچا تو سفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک مسجد میں بیٹھا تھا، جب اس نے سفیان کو خلیفہ کا خط پیش کیا تو سفیان نے اسے پکڑنے سے انکار کردیا اور پاس بیٹھے ایک شخص سے کہا کہ وہ اسے کھول کر سنائے۔ خط میں لکھا تھا ''ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں، ہمیں اپنے درمیان دوستی کے بندھن کا بڑا پاس ہے۔'' سفیان اپنے ساتھیوں سے بولا، میرا جواب اس چھٹی کی پشت پر لکھ دو۔ شاگرد بولے مرشد آپ نیا کاغذ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ نہیں اسی کاغذ کی پشت پر لکھو۔ اس نے دوبارہ کہا، پھر اس نے یہ کلمات لکھوائے۔
قرآن کی حلاوت سے محروم گمراہ ہارون کے نام۔ تم نے مومنین کے خزانے کا منہ کھول کر اس کے مال و دولت کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تقسیم کیا ہے، تم نے ان لوگوں کی اجازت حاصل کرلی تھی جو کہ اﷲ کے راستے میں جنگیں کرتے ہیں، کیا تم نے یتیموں اور بیواؤں کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے سفیان آخر میں لکھواتا ہے، جہاں تک ہماری تمہاری دوستی کا سوال ہے یہ اب گئی، ہمارے بیچ اب کسی پیار محبت کا بندھن نہیں رہا، ہمیں اب کبھی اگر آپ نے خط بھیجا تو ہم نہ تو اسے پڑھیں گے اور نہ ہی اس کا جواب دیں گے۔ یہ سن کر عباد سیدھا بازار گیا اور معمولی اور سستے سے کپڑے لے کر پہنے اور پھر وہ خط کا جواب لے کر ہارون الرشید کی طرف چلا آیا، جب خلیفہ ہارون نے عباد کو معمولی کپڑوں میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ سب سمجھ گیا اور پکار اٹھا قاصد کامیاب ہوگیا اور اس کا آقا ناکام رہا، جب اس نے جواب پڑھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اس کے درباری بولے یا امیرالمومنین سفیان نے بڑی گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے، سپاہیوں کو بھیج کر اسے یہاں بلوائیے۔ خاموش ! ہارون بولا یہ تم لو گ ہی ہو جنھوں نے مجھے گمراہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہارون نے سفیان کا وہ خط محفوظ کر لیا اور وہ گاہے بگاہے اسے نکال کر پڑھا کرتا تھا۔
ہمیں بہت سی روایتوں میں ایسی حکاتیں ملتی ہیں جن میں عظیم حکمرانوں کو ان کے مشیروں یا درویشوں نے شرمندگی دلائی اور انھیں حقیقت دکھائی۔ ایسی کہانیوں میں انھیں یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ خادم ہیں، آدرشوں کے خادم اور ان لوگوں کے خادم جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔ چین کے قانون پسند جنھوں نے قبل مسیح دور کی آخری صدیوں میں بڑا اثر و رسو خ حاصل کیا، ان ہی چند فلسفیانہ سلسلوں میں سے ہیں، جو بادشاہوں کے کان میں یہ ڈالا کرتے تھے کہ ہر شے اور ہر شخص کو ریاست کی خدمت کرنی چاہیے۔ نا ول نگار کالوس فینٹس کہتا ہے کہ سیاست نام ہے منہ بگاڑے بغیر مینڈک کھانے کا۔ یہ بات قدیم بادشاہوں پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے جیسے کہ جدید وزرائے اعظم پر۔ جب کہ دوسری جانب پاکستان میں حکمرانوں کی تاریخ ایسے ایسے مشیروں سے بھری پڑی ہے جن کے مشوروں کی وجہ سے حکمرانوں کی بدنامی ہوئی ۔ ان سے ایسے ایسے فیصلے کروائے گئے کہ عوام ہکا بکا رہ گئے اور ایسے سکتے کے عالم میں آئے کہ نکلنے سے نکل نہ پارہے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے عقل بے چاری خواہ مخواہ بدنام ہوکے رہ گئی ہے۔ یہ مشیر ہمارے حکمرانوں کو ہر وقت یہ یاد دلاتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے خادم نہیں بلکہ عوام ان کے خادم ہیں اور آپ کا کام خدمت کرنا نہیں بلکہ خد مت کروانا ہے۔ حکمرانوں کو سبز باغ دکھانے میں ان سے بڑا کھلاڑی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ برا وقت ہمیشہ کہہ کر آتا ہے لیکن یہ کبھی کہہ کر نہیں آتے، بلکہ آناً فاناً آکر حکمرانوں سے لپٹ جاتے ہیں اور پھر اس وقت تک ان سے لپٹے رہتے ہیں جب تک وہ سابق نہیں ہوجاتے اور سابق ہونے سے ذرا پہلے وہ ان کے پاس سے اس طرح غائب ہوجاتے ہیں جیسے پرنام سنگھ پائلٹ غائب ہوگیا تھا۔
پرنام سنگھ بڑا نامی گرامی پائلٹ تھا، ایک دفعہ اسے جہاز کو لندن سے امریکا لے جانا تھا، آٹھ گھنٹے کی اس طویل پرواز میں جہاز سمندر کے اوپر اڑتا جارہا تھا، جہاز کو پرواز کیے چار گھنٹے گزر چکے تھے، کچھ مسافر سورہے تھے، کچھ جاگ رہے تھے۔ اچانک اسپیکر پر کپتان کی آواز ابھری۔ خواتین و حضرات جہاز کا کپتان پرنام سنگھ آپ سے مخاطب ہے، نیویارک جانے والی پرواز پر ہم چار گھنٹے کا سفر طے کرچکے ہیں، 30 ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کرتے ہوئے ہم اس وقت بحر اوقیانوس کے عین درمیان ہیں، اگر آپ دائیں بائیں کی کھڑکیوں سے باہر جھانک کر دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ جہاز کے چاروں انجنوں میں آگ لگی ہوئی ہے، اگر آپ جہاز کے پچھلے حصے میں جاکر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ جہاز کی دم چند لمحوں میں ٹوٹ کر علیحدہ ہوجائے گی، اگر آپ جہاز کی کھڑکی سے نیچے سمندر میں دیکھیں تو آپ کو پیلے رنگ کی چھوٹی سی لائف بوٹ نظر آئے گی جس میں سوار 3 آدمی آپ کی طرف دیکھ کر ہا تھ ہلا رہے ہیں، یہ 3 آدمی میں پرنام سنگھ، میرا معاون پائلٹ کورنام سنگھ اور نیوی گیٹر نیتا سنگھ ہیں، اسپیکر پر جو آواز آپ سن رہے ہیں وہ پہلے سے ریکارڈ شدہ ہے۔ وا گرو آپ کو اپنی پناہ میں رکھے۔
ہمارے حکمرانوں کے علاوہ ہماری سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ملک کے صاحب اختیار کو بھی قصیدہ پڑھنے والوں کی کمی اور قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ آپ کو ایک سے بڑا قصیدہ گو ان کے پاس مل جائے گا۔ ظاہر ہے جب آپ قصیدہ سننے کے عادی مجرم بن جائیں گے تو پھر قصیدہ گو کا بھی پیٹ ہوتا ہے، اسے بھی بھوک لگتی ہے، اس کی خواہشات ہوتی ہیں، اگر وہ یہ کام کررہا ہے تو کیا برا کررہا ہے۔ انسانوں میں قصیدہ گو وہ واحد مخلوق ہے، جو ہر دور میں پائی گئی ہے، بس پاکستان میں ان کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ ہمارے قائدین اور صاحب اختیار قصیدہ سننے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ قصیدہ سنے بغیر انھیں نیند نہیں آتی، اگر قصیدہ سنے بغیر سوجائیں تو آدھی رات میں ڈراؤنے خوابوں سے ڈر کر جاگ جاتے ہیں۔ یہ وہ واحد کاروبار ہے جس میں نہ کبھی مندی آئی ہے اور نہ ہی کسی کو خسارہ ہوا ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ کیا ہمیں ہمیشہ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا ہمیں کبھی عوام کے خادم نصیب نہیں ہوسکیں گے۔ کیا ہمارے حکمرانوں، قائدین و صاحب اختیاروں کی کبھی ان رنگیلے مشیروں اور قصیدہ گوؤں سے جان چھوٹ سکے گی۔ کیا ہمارے عوام کبھی خوشحال، بااختیار بن سکیں گے، کیا ہمارے ملک میں جمہوریت کو لاحق خطرات کبھی ختم ہوسکیں گے۔ کیا ہمیں انتہا پسندی، دہشت گردی، رجعت پسندی اور ملائیت سے نجات مل سکے گی، کیا ہمیں بجلی، گیس، پانی کی سہولیات آسانی سے مل سکیں گی، کیا ہم کبھی ترقی یافتہ، روشن خیال، لبرل قوم بن سکیں گے، کیا ہم میں کبھی برداشت اور رواداری پیدا ہوسکے گی؟