احوال سندھ یاترا کا

خیبرپختون خوا سے تعلق رکھنے والے صحافی کے دورۂ سندھ کی روداد۔


Shahid Hameed February 14, 2021
خیبرپختون خوا سے تعلق رکھنے والے صحافی کے دورۂ سندھ کی روداد۔

ٹھٹھہ، ملک کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو سندھ کا دارالحکومت بھی رہا اور اسی ٹھٹھہ شہر میں مغل آرکیٹیکٹ بادشاہ شاہ جہان نے 1644ء میں جامع مسجد تعمیر کرائی، اسی لیے اس مسجد کو ''جامع مسجد شاہ جہاں'' کہا جاتا ہے۔

مذکورہ مسجد مغل طرزتعمیر کا عملی نمونہ اور فن تعمیر کے اعتبار سے شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسجد کے سامنے سبزہ زار اور حوض وفوارے بھی دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ حصہ شاجہان کی بنائی ہوئی مسجد میں شامل نہیں تھا بلکہ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے یہ جگہ مسجد کے لیے دی اور مسجد کے احاطے میں توسیع ہوئی۔ اسی توسیع شدہ حصے میں کھجور کے درخت بڑی خوب صورتی سے لگے ہوئے ہیں جو مسجد کے احاطے کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

ہمیں صوبہ سندھ کے حالیہ دورہ کے دوران ٹھٹھہ جانے کا موقع ملا۔ جب جامع مسجد شاہ جہان پہنچے تو مغل طرز تعمیر کے اس شاہ کار کا نظارہ کرکے بے اختیار اس دور کے فن تعمیر کی داد دینے کو جی چاہا۔ وہاں سے رخصت ہونے لگے تو مسجد کے منتظم آداب مہمان نوازی نبھانے بیرونی احاطے تک ہمارے ساتھ مسجد اور اس کے توسیع شدہ حصے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے چلے آئے۔

ساتھی چوںکہ مسجد کے مسحور کن حسن میں ڈوبے اسے کیمرے کی آنکھ کے راستے اپنے موبائل فونز میں محفوظ کرنے میں مصروف تھے اس لیے انہیں بیرونی گیٹ تک پہنچنے میں تاخیر ہورہی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتظم مسجد، شاہ جہانی مسجد اور شہر ٹھٹھہ کے بارے میں معلومات کے زروجواہرات لٹا اور ہم انھیں اپنی یادداشت کی پوٹلی میں باندھنے میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک ساتھ کھڑے ساتھی نے جامع مسجد اور شہر ٹھٹھہ کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مسجد کے منتظم سے مخاطب ہوکر کہا،''یہ مسجد تو ساڑھے تین سو سال پہلے بنائی گئی لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کے باہر آباد شہر ٹھٹھہ بھی ساڑھے تین سو سال پہلے کی دنیا ہی میں سانس لے رہا ہے، کیوںکہ ترقی کا نام ونشان ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔'' ہمارے ساتھی کا یہ تبصرہ ٹھٹھہ کے حوالے سے کس قدر ٹھیک ہے اس کے حوالے سے مسجد کے منتظم نے تو صرف مسکرا دینے پر اکتفا کیا جب کہ جہاں تک صوبائی حکومت کے ترجمان سید ناصر حسین شاہ کا تعلق ہے تو انہوں نے تبصرہ پر کھلکھلا کر قہقہہ لگایا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ نے وہ ترقیاتی کام دیکھے کہاں ہیں جو ٹھٹھہ میں ہورہے ہیں۔

یہ بات تو ہمیں ویسے ہی برسبیل تذکرہ یاد آگئی کیوںکہ عارف حیات کا یہ تبصرہ تھا ہی اتنا برجستہ کہ یادداشت میں گویا جم کربیٹھ گیا ہے، اس لیے جب سفر کا حال لکھنے بیٹھے تو یہ تبصرہ یادداشت سے قلم اور قلم سے سفر کرتا ہوا صفحہ تک پہنچ گیا، لیکن یہ بات اس حوالے سے کافی حد تک تحریر سے موافقت بھی رکھتی ہے کہ عروس البلاد کراچی میں ہماری اقتدار کے ایوانوں میں بسنے والوں سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں وہاں کراچی اور وہاں کے ترقیاتی امور سے متعلق ضرور بات ہوئی۔

گو کہ آج کل سیاست پر پی ڈی ایم کے معاملات چھائے ہوئے ہیں اور سیاسی لوگ ایسے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے زیادہ خوشی بھی محسوس کرتے ہیں جیسے کہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل ہی کو لیجیے کہ جنہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا،''ہمارے لیے وِن، وِن پوزیشن ہے، اگر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے تحت ہوجاتے ہیں تو بھی ہماری جیت اور اگر نہیں ہوتے تب بھی کہ اس طرح اپوزیشن ایکسپوز ہوجائے گی کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔''

چوںکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل پی ٹی آئی کی کچن قیادت کا حصہ ہیں، اس لیے ان کی بات اہمیت بھی رکھتی ہے اور اسی لیے ان کی کہی ہوئی بات کو اس تحریر کا حصہ بنانا ضروری بھی تھا۔ توہم بات کررہے تھے کراچی کی۔ وہاں کے کچرے کی، وہاں کی ترقی کی اور وہاں کے نالوں کی صفائی کی، جی ہاں پی ٹی آئی ہو، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم یا کوئی دوسری پارٹی، سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ کراچی میں ترقی بھی ہونی چاہیے، اسے صاف ستھرا بھی ہونا چاہیے اور اسے پاکستان کا چہرہ بھی بننا چاہیے۔

یہ بھی سب کہتے رہے کہ ہم سب مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن کیسے؟ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ان کے مابین جو فاصلے پائے جاتے ہیں وہ کیسے ختم ہوں گے اور کون ان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے پہل کرے گا۔ کراچی ہمیں ضرور بدلا ہوا نظر آیا جس کی ایک بڑی وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ وہ سمندر جو کبھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے پہلو میں سکوت کی چادر اوڑھے رواں دواں دکھائی دیتا تھا وہ اب روٹھے ہوئے محبوب کی طرح اچھے خاصے فاصلے پر جانکلا ہے۔

کہنے والوں کا تو تبصرہ یہ تھا کہ ایسا سمندر نے خود نہیں کیا بلکہ کچھ کرم فرماؤں کی مہربانیوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے، بہرکیف اس طرح کراچی شہر جو پہلے ہی اچھا خاصا بڑا تھا، اب مزید کچھ اور بڑا دکھائی دیتا ہے، ترقی ہوئی ہے اسی لیے دکھائی بھی دی، وہ جو پشاور میں بی آرٹی کے بننے کے بعد اس شہر کو پھولوں کی بجائے سریے اور کنکریٹ کا شہر کہتے ہیں۔

وہ اگر کراچی کو دیکھ لیں تو پشاور کو بھول جائیں کہ اتنے فلائی اوور بن چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں ریڈ، گرین اور یلو لائنز کے نام سے تین مختلف قسم کی بس سروسز کے شروع ہونے سے کراچی میں مزید نئے ٹریک، انڈر پاسسز اور فلائی اوورز دکھائی دیں گے، کیوںکہ یہ سب اب وقت کی ضرورت ہے اور اسی لیے سندھ حکومت کراچی میں بسنے والوں کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے متحرک دکھائی دیتی ہے۔ جس کے لیے اسے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی معاونت حاصل ہے کیوںکہ پیپلزپارٹی سندھ کا مورچہ نہ صرف یہ کہ سنبھالے رکھنا چاہتی ہے بلکہ آنے والے دنوں کے لیے اسے مزید مضبوط بنانے کی بھی خواہاں ہے۔

ایک بات جسے ہم سب ساتھیوں نے بڑے واضح انداز میں محسوس کیا وہ یہ تھی کہ سندھ کے وزراء اپنے محکموں کے حوالے سے مکمل عبور اور معلومات رکھتے ہیں، وزیرٹرانسپورٹ کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انھیں اپنے محکمے کے حوالے سے تمام تر معلومات ازبرتھیں اور انہوں نے کھڑے، کھڑے تو نہیں البتہ بیٹھے، بیٹھے ہمیں یلو،گرین اور ریڈ لائنز سے متعلق تمام معلومات فراہم کردیں۔ وزیرسیاحت وثقافت سے ملاقات ہوئی تو پہلی بات تو یہ کہ وہ خود شاعر نکلے، شاعری بھی وہ دو زبانوں میں کرتے ہیں اردو میں بھی اور سندھی میں بھی اور جو غزل انہوں نے ہمیں ہماری فرمائش پر عطا کی وہ کیا خوب تھی۔ سندھی ثقافت کے فروغ اور سیاحت کے حوالے سے کیے گئے اقدامات پر انہوں نے اتنی سیرحاصل اور مفصل گفتگو کی کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو موہن جو دڑو اور مکلی میں کھڑا پارہا تھا اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ وہ منصوبہ بنائے ہوئے ہیں کہ دیگر صوبوں کے ساتھ ثقافتی وفود یا طائفے کہیے، کا تبادلہ ہونا چاہیے۔

صوبوں کے مشترکہ کلچرل پروگرام ہونے چاہییں، تاکہ چاروں صوبوں کے باسی ایک دوسرے کی ثقافت سے روشناس ہوسکیں اور سمجھ سکیں کہ کون اپنی تاریخ اور ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے اور کون ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر اتنا آگے نکل گیا ہے کہ اس کی ثقافت اس سے میلوں، کوسوں پیچھے رہ گئی ہے۔ ثقافتی وفود کا تبادلہ صرف ایک آئیڈیا نہیں بلکہ سردارحسین شاہ، جن کا تعلق عمر کوٹ سے ہے، جلد ہی دیگر صوبوں سے رابطے بھی کرنے جارہے ہیں۔

اب دیگر صوبے سردارحسین شاہ کو کیا جواب دیتے ہیں؟ یہ تو آنے والے دنوں ہی میں معلوم ہوگا لیکن حکومت سندھ کی خواہش ہے کہ سندھ کے کلچر کو فروغ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ وہ ''کوک کو فوک'' سے

تبدیل کرنے کی راہ پر چل رہے ہیں اور دوسروں سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں۔ سندھ کے وزیرتعلیم سعیدغنی کے ساتھ نشست کا لطف اور مزہ کچھ الگ ہی رہا، لیکن سندھ کے وزیراطلاعات ناصر حسین شاہ بھی کیا خوش مزاج انسان ہیں کہ جن کے ساتھ نشست شروع ہونے کے چند لمحات کے اندر ہی اس انداز میں گفت وشنید ہورہی تھی کہ جیسے ان کے ساتھ ہماری برسوں پرانی شناسائی ہو، حالاںکہ کچھ ساتھیوں کے طفیل یہ ان سے ہماری پہلی ملاقات تھی اور اس نشست کی ایک خوبی یہ بھی رہی کہ اس میں پیپلزپارٹی کی چاروں صوبوں کی قیادت بھی موجود تھی اور وہیں ایک شریک محفل نے سرگوشی کے سے انداز میں بتایا،''اصل کہانی تو سینیٹ کے انتخابات کے بعد شروع ہوگی۔''

ان کی بات سن کر جب ہم نے گردن موڑ کر ان کا چہرہ دیکھا تو اس پر کچھ ایسے تاثرات تھے کہ جیسے وہ کوئی معلومات کا خزانہ چھپائے ہوئے ہیں اور اسے ہمارے ساتھ بانٹنے کے لیے بے تاب ہورہے ہیں، بس اس چھپے خزانے کو باہر نکالنے کے لیے ذرا محنت درکار تھی۔

ہم نے فوری طور پر بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد اصل کہانی کیسے شروع ہوگی؟ انہوں نے اپنا منہ ہمارے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا،''کوئی بھی اپوزیشن پارٹی سینیٹ الیکشن سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھی، کیوںکہ اس طرح سارے کا سارا فائدہ پی ٹی آئی کو مل جاتا، اس لیے اپوزیشن جماعتیں بھی سینیٹ کے انتخابات تک کوئی بڑا قدم اٹھانے سے رک گئیں، لیکن اب جونہی سینیٹ کا الیکشن گزرے گا تو پی ڈی ایم کی تحریک کا اصل مرحلہ شروع ہوگا۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے گی، کیوںکہ پورے نظام کو ڈی ریل کرنے کی تُک نہیں بنتی، البتہ ایوان کے اندر تبدیلی سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے ہوئے ان ہاؤس تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس کے لیے سائیں اپنے مشن پر کام کررہے ہیں۔'' سائیں؟ ہم نے سائیں پر زور دیتے ہوئے ان کی طرف دیکھا، کیوںکہ جیسے خیبرپختونخوا میں ہر کوئی خان ہے ویسے ہی سندھ میں سب ہی سائیں کہلاتے ہیں۔

''ہاں سائیں'' انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی وضاحت بھی کردی کہ ''سب ہی جانتے ہیں کہ سائیں کون ہے، جو اتنا بڑا کھیل کھیلے گا۔'' ہم سمجھ رہے تھے کہ ان کی مراد کس ''سائیں'' سے ہے لیکن خواہش تھی کہ وہ اپنی زبان سے ان کا نام لیں لیکن جہاں پَر جلنے لگتے ہوں وہاں اشاروں، کنایوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے اس لیے وہ بھی ہمیں اپنے طور پر بڑی خبر دیتے ہوئے رخصت ہوگئے، لیکن اس نشست میں موجود سب کے چہروں سے لگ یہی رہا تھا کہ آنے والے دنوں میں کچھ تو ہونے والا ہے جس کی خبر یہ سب رکھتے ہیں، لیکن سب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں، کیوںکہ جس طرح لڑائی کے بعد چلایا گیا گھونسا ناکامی کی نشانی ہوتا ہے ویسے ہی لڑائی سے قبل اگر گھونسا چلادیا جائے تو دشمن پر ساری کی ساری حکمت عملی عیاں ہوجاتی ہے اور ہوشیار لوگ اپنے پتے وقت سے پہلے شو نہیں کرتے۔ اسی لیے ''سائیں'' کے ہاتھوں میں جو پتے ہیں وہ انھیں سب سے چھپا کررکھے ہوئے ہیں اور وقت آنے پر ہی پتے شو کیے جائیں گے تاکہ سامنے والے کو شہ مات دی جاسکے۔

ہم اپنے یہاں دیکھتے ہیں کہ کسی محفل میں کوئی افسر اور وہ بھی ڈپٹی کمشنر ٹائپ کا کوئی انتظامی افسر موجود ہو تو وہ منتخب نمائندوں پر حاوی دکھائی دیتا ہے یا پھر منتخب نمائندے خود سرکاری افسروں کو اپنے اوپر حاوی کیے رکھتے ہیں، لیکن سمندر کنارے، چاندنی رات اور سمندری پرندوں کی سمندر کا سکوت توڑتی ہوئی آوازوں میں جہاں ہم نشست جمائے بیٹھے تھے وہیں اسی محفل میں دو اضلاع کے ڈپٹی کمشنرحضرات بھی موجود تھے، لیکن اس کا پتا ہمیں تب چلا جب ان کے بارے میں محفل کے آخر میں بتایا گیا وگرنہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے بیٹھے ہیں یا پھر وزراء کے میمنہ ومیسرہ، کیوںکہ نہ صرف یہ کہ سرکاری کروفر کا کچھ اتاپتا نہیں تھا بلکہ ساتھ ہی اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کی کسی قسم کی کوئی کوشش بھی نہیں کی جارہی تھی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے خوشی ہوئی کیوںکہ سرکاری ملازمین کو عوامی نمائندوں کا ادب اسی طرح اور اسی انداز میں کرنا چاہیے، کیوںکہ عوامی نمائندے بہرکیف عوام کا انتخاب ہوتے ہیں۔

اور اب آپ کو ذرا بہادرآباد کی طرف لیے چلتے ہیں کہ جہاں ہم نے جانا ہی جانا تھا، گوکہ پہلے کراچی کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا رخ نائن زیرو کی طرف ہوا کرتا تھا، لیکن اب نائن زیرو کے معاملات بہادرآباد منتقل ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے مرکزی سیکریٹریٹ پہنچے تو خواہش تھی کہ ان کے کسی ایسے لیڈر سے ملاقات ہونی چاہیے کہ جس سے پالیسی امور پر بات چیت ہوسکے اور دل سے نکلی دعا کچھ یوں پوری ہوئی کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی چند لمحات کے بعد سامنے دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے دکھائی دیے، چوںکہ کورونا کے خوف کی وجہ سے سب کے ناک، منہ بھی ماسک سے ڈھکے ہوتے ہیں اور ہاتھ ملانا بھی گویا جرم ہی بن چکا ہے۔

اس لیے ڈاکٹر صاحب ہاتھ جوڑے ہمارا سواگت کررہے تھے۔ انہوں نے تمام تر ایشوز پر بات کی۔ یہ بھی بتایا کہ وہ کیوں موجودہ حکومت کا حصہ ہیں اور گئے وقتوں میں کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی واپسی کیسے ممکن اور مصطفیٰ کمال کے لیے دروازے کیوں بند ہیں، لیکن چوںکہ محفل میں ہوئی گفتگو آف دی ریکارڈ تھی اس لیے اس گفتگو کو ضبط تحریر نہیں لاسکتے۔ البتہ ایم کیو ایم کے حوالے سے ان کا ایک جملہ بڑا زبردست تھا، اس لیے اسے ضرور سپرد قلم کرنا چاہیں گے۔ جب ان سے نوے کی دہائی اور پھر اس کے بعد کے ماہ وسال کے دوران کراچی میں ہونے والی تباہی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا،''کراچی میں جو حالات پیدا ہوئے وہ ایم کیو ایم کے پیدا کردہ نہیں تھے بلکہ ایم کیو ایم خود ان حالات کی پیداوار ہے۔''۔ ان کا یہ تبصرہ کس قدر اور کس حد تک ٹھیک ہے اس بارے میں قارئین خود فیصلہ کریں، کیوںکہ اگر ہم نے کوئی رائے دی تو کہیں جانب داری کا الزام نہ لگ جائے۔

ہم اگر یہاں کراچی پریس کلب کے صدر اور اپنے دیرینہ دوست فاضل جمیلی، ان کے ساتھیوں، اپنے رفیق نصیر گوپانگ اور کے ڈی شاہ کی محبتوں کا ذکر کرنے بیٹھیں تو صفحات کم پڑجائیں گے، اس لیے ان کی محبتوں کو سینے سے لگائے اپنی تحریر کو اختتامی شکل دیتے ہیں اور اس کا اختتام ان الفاظ ہی پر ہی مناسب ہوگا کہ کراچی پھر سے آباد ہورہا ہے، روشنیوں کا شہر، حالات میں بہتری آنے سے پھر سے جگمگانے لگا ہے، وہاں کے باسی اس صورت حال سے مطمئن ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ کُھل کر سانس لے رہے ہیں، کُھل کر جی رہے ہیں اور اپنا کاروبار کررہے ہیں، اور ان باتوں کا عملی ثبوت اس سے ملتا ہے کہ کورونا کے باوجود رات گئے تک شہر قائد میں زندگی متحرک نظر آتی ہے اور یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ شہر قائد پھر سے جی اٹھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں