علم کیا ہے اور اس کے فوائد
انگریزی میں علم کو Knowledge کہتے ہیں۔ Know کا مطلب جاننا اور Ledge (لیج) کا مطلب تاریکی ہے
RAWALPINDI:
انگریزی میں علم کو Knowledge کہتے ہیں۔ Know کا مطلب جاننا اور Ledge (لیج) کا مطلب تاریکی۔ یعنی انجان کو جاننا اور اس کا مقصد نامعلوم کو معلوم کرکے دوسروں تک پہنچانا۔ اسی لیے مغرب میں الّوکو عقل مند کہا جاتا ہے، وہ رات کو یعنی تاریکی میں سفرکرتا ہے۔ مختلف ادوار میں علم کی اہمیت اور نوعیت بہ ظاہر مختلف ہوتی ہیں لیکن اصول ایک ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ''ہل'' کی دریافت نے غلامانہ نظام کو جنم دیا۔ اس دور میں ہل کی دریافت آج کے بلیک ہول کی دریافت کے برابر ہے۔
کسی دور میں ہندوستان میں رتھ (بغیر پہیے کی گاڑی) یعنی تخت کو رسیوں سے کھینچ کر لے جانا ہی اس وقت کی ریل گاڑی تھی۔ یہ علم ہی سائنس ہے، مگر ضروری نہیں کہ اسکول کی تعلیم یعنی نصابی علم سے غربت بھی دور ہو جائے۔ یہ تو طبقاتی نظام سے منسلک ہے۔ تعلیم کو ہر علاقے کی تاریخی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔
وسطی ایشیائی ممالک میں جو 1917 کے انقلاب سے قبل ہزار میں 2 لڑکیاں لکھی پڑھی تھیں، لیکن آج وہاں98فیصد لوگ خواندہ ہیں۔ 100 میں 60 خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ اسکینڈے نیون ممالک کو سرمایہ داری کا بہترین نمونہ بتایا جاتا ہے، لیکن آج وہاں بھی کل دولت کا 50 فیصد کے مالک ایک فیصد لوگ ہیں، جب کہ باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں نے پورے یورپ پر قبضہ کیا، وسائل کو لوٹ کر اب یہ تہذیب یافتہ، خواندہ اور شریف زادے بن گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں تعلیم اور سماجی سہولتیں اوروں سے زیادہ ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ نے ان پر حملہ کیا اور لاکھوں مقامی آبادی کا قتل عام کیا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرکے تعلیم یافتہ اور مہذب بن گئے۔ اس وقت نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں مقامی آبادی 2 سے 4 فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ دنیا میں شاید سب سے زیادہ قتل عام یہیں ہوا۔ کینیڈا کو تو انسانوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رقبے کے لحاظ سے کینیڈا دنیا کا چوتھا آسٹریلیا آٹھواں اور نیوزی لینڈ بیسواں ملک ہیں، جب کہ کینیڈا کی آبادی ساڑھے تین کروڑ، آسٹریلیا کی ڈھائی کروڑ اور نیوزی لینڈ کی 50 لاکھ۔ یہ کوئی ترقی نہیں ہے کہ آپ کسی کو بے گھر کرکے، اس کے گھر پر قبضہ کرکے گھر والے بن جائیں۔
ہندوستان کا ایک صوبہ ''کیرالا''ہے جہاں 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں لیکن یہاں 45 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہاں مگر ایک کیوبا ہے جہاں 98 فیصد لوگ خواندہ ہیں، طبقاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت عوام کو اتنی خوراک مفت فراہم کرتی ہے کہ عوام 15دن آرام سے کھا کر گزار سکتے ہیں۔ تعلیم سے شعوروآگہی ضرور آجاتی ہے لیکن ریاست اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے بغیر بھوک، ننگ، بے روزگاری اور بے گھری ختم نہیں ہوسکتی ہے۔
اس کے باوجود دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ بجٹ جنگی یعنی اسلحہ کی پیداوار اور اس کی خرید و فروخت کا ہے اور سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت کا ہے جب کہ سرمایہ دارانہ فلسفے کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اسلحہ امن کو برقرار رکھتا ہے اور امن کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔ وہ شیشے کی سڑک، کونگ کارڈ ہوائی جہاز، اسٹاروار، راکٹ کی پرواز اور ہزاروں منزلہ عمارات کو ترقی کہتے ہیں۔ جب کہ ساڑھے سات ارب انسانوں میں 5 ارب غریب اور ڈیڑھ ارب کی بے روزگاری کو اپنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی تنزلی نہیں کہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے بجٹ رکھا جاتا ہے اور ہم غربت کو ختم کرکے دم لیں گے۔
آج سے سو سال پہلے 200 افراد دنیا کو خرید سکتے تھے، 50 برس پہلے 100، 25 برس پہلے 50، 20 برس پہلے 10 اور اب 5 افراد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں جب کہ اسی دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ بقول کامریڈ میخائل الیگزینڈروچ باکونن کہ اسلحہ فاتحین پیدا کرتا ہے اور فاتحین لوٹ مار کرتے ہیں اور قتل و غارت گری کرتے ہیں۔
حقیقت میں علم عوام میں شعور بیدار کرتا ہے اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہاں اگر علم دولت بٹورنے کے لیے حاصل کیا جائے تو وہ پھر اسلحہ کی خریداری کی جانب رجوع کرتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ اسلحے کی پیداوار دنیا میں ٹاپ ٹین میں ہے جب کہ تعلیم اور صحت میں 132 واں اور 134 ویں نمبر پر ہے۔
اعلیٰ تعلیم کا ذکر تو بہت ہوتا ہے وہ بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد پھر یورپ اور امریکا کے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت امریکا میں پاکستانی سائنسدانوں کی بھرمار ہے۔ طبقاتی نظام میں بھوک، افلاس اتنی زیادہ اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے کہ چھوٹے عمر کے بچوں سے کام کروانے یا کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں تو جتنا بھی تعلیم کا بجٹ ہے اس میں سے بھی بہ مشکل 10 فیصد خرچ ہوتا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں 95 فیصد کرپشن ہے۔ باقی ملک کے سیکڑوں اضلاع کو چھوڑ دیں صرف ایک ضلع لاڑکانہ کو دیکھیں جہاں630 سرکاری اسکول بند پڑے ہیں اور یہاں کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے تعلیمی اصلاحات اور سرکاری اسکولوں کی بحالی کے متعلق درخواست پر سندھ بھر میں بند سرکاری اسکولوں، اساتذہ کی تعداد اور تنخواہوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
معروف فلسفی اور انقلابی دانشور پیترکروپوتکن کہتے ہیں کہ معاشرے کا ہر فرد اگر ایک شخص کو تعلیم دے دے تو دنیا کے 100 فیصد لوگ لکھے پڑھے ہو جائیں گے۔ ایک انجینئر ایک انجینئر بنادے، ایک بڑھئی ایک بڑھئی بنادے، ایک شاعر ایک شاعر بنا دے، ایک سائنسدان ایک سائنسدان بنادے، پھر کوئی ناخواندہ نہیں رہے گا۔ لکھے پڑھے اسے کہتے ہیں جو مادری زبان میں اخبار پڑھ لے اور خط لکھ لے۔ لیکن پاکستان میں اسے بھی لکھا پڑھا مان لیتے ہیں جو صرف دستخط کرلے۔ اس وقت وسطی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ میں زیادہ لکھے پڑھے لوگ ہیں جب کہ ناخواندگی افریقہ کے چند ملکوں کے بعد برصغیر کا نمبر آتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نفری کے اعتبار سے برصغیر میں سب سے زیادہ ناخواندگی ہے۔
اس وقت دنیا میں ہزاروں کمیون، پنچایتی یا امداد باہمی کا سماج قائم ہے۔ صرف فرانس میں 309 حکومت کی جانب سے تسلیم شدہ کمیون ہیں۔ جنھیں حکومت گرانٹ بھی دیتی ہے، ان کے علاوہ بھی متعدد کمیون ہیں۔ بعض کمیون 36 کلو میٹر پر محیط ہے۔
ہر کمیون میں سیکڑوں ہزاروں اور کل لاکھوں لوگ کمیون کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس ہوائی جہاز تو نہیں ہے نہ ہیرے کی انگوٹھی ہے لیکن تقریباً یہاں 100 فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں۔ کوئی فوج اور اسلحہ بھی نہیں ہے۔ نجی ملکیت اور جائیداد نہیں ہے۔ اجتماعی اور اشتراکی ملکیت ہے۔ مہلک بیماریاں نہیں ہیں اور ریاست کی مداخلت کو مانتے نہیں۔ اگر اسی طرح سے دنیا سے اسلحہ کا خاتمہ کردیا جائے تو ناخواندگی، بے روزگاری لاعلاجی، بے گھری اور افلاس کا خاتمہ ہو سکتا ہے، اگر تعلیم کا بجٹ 40 فیصد کردیا جائے اور جنگی بجٹ 5 فیصد کردیا جائے تو کیا خواندگی 100 فیصد اور بیماریاں ختم نہیں ہوں گی؟ ضرور ہوں گی۔