بلی تھیلے سے باہر آگئی

کوئی اس بات سے آشنا نہ تھا کہ مرنے والے کی تجہیز و تکفین کیسے ہوتی ہے، کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔


[email protected]

ایک شہر میں منشیات کے عادی لوگوں کے گروہ میں ایک نشئی کا انتقال ہوگیا، سارے نشئی پریشان ہوگئے کہ اب کرنا کیا ہے؟

کوئی اس بات سے آشنا نہ تھا کہ مرنے والے کی تجہیز و تکفین کیسے ہوتی ہے، کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، انھوں نے اپنے مرنے والے ساتھی کی لاش کو ایک کپڑے میں لپیٹا، چار پائی پر ڈالا اور کندھوں پر اٹھا کر ایک شاہراہ پر چل نکلے، راستے میں لوگ ثواب کی نیت سے میت کو کندھا دینے کے لیے آگے بڑھتے رہے اور اس قافلے کا حصہ بنتے رہے، نئے لوگ شامل ہوتے رہے اورتمام نشئی ایک ایک کرکے اس قافلے سے نکلتے رہے۔

اب جو لوگ اس میت کو کندھوں پر اٹھائے چلے جارہے تھے اور جو ان کے پیچھے تھے ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آخر اس میت کو کہاں لے جانا ہے، بس سب کے سب چلے جارہے ہیں۔ ہمارے سماج کے معروضی حالات آج اس سے قطعی مختلف نہیں، ہم تو بس چلے جارہے ہیں، کسی کو کوئی خبر نہیں کہ آخر ہمیں جانا کہاں ہے؟ آئے روز ایک نیا بحران، ایک نیا مسئلہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوتا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔

2018 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کو آج اڑھائی سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک سمت کا تعین نہ ہوسکا کہ ہمیں جانا کس طرف ہے؟ کسی بھی حکومت کے شروع کے سو دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو سو دن کچھ بھی نہیں تاہم کم از کم سمت کا تعین ہو جاتا ہے۔ کئی سربراہان نے اقتدار میں آنے سے قبل سو دن کا پروگرام اور ایجنڈا عوام کو دیا۔ تحریک انصاف نے بھی پہلے سو دن کا پلان دیا تھا، پلان دینے سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہمارے پاس شیڈوکیبنٹ موجود ہے اور تجربہ کاروں کی ٹیم ہے، ہمیں مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

سو دن کے پلان میں کہا گیا تھا کہ بدعنوانوں سے جنگ کی جائے گی، قرضوں سے انکار کیا جائے گا، لوٹی دولت واپس لائی جائے گی، وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بن جائے گا، سادگی اپنائی جائے گی، تعلیم اور صحت کی سہولیات لوگوں تک پہنچائی جائیں گی، پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے، روزگار کے مواقعے ملیں گے، لوگوں کو سستا اور فوری انصاف ملے گا، پولیس اصلاحات کی جائیں گی، وغیرہ وغیرہ۔ آج سو دن گزرے بھی کئی سو دن بیت چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جو ریاست مدینہ سے شروع ہوئے تھے، بیچ راستے میں انھیں چین کا ماڈل بھا گیا، پھر ترکی کے نظام حکومت پر دل آگیا۔

ان کے فالورزکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر ان کی منزل کیا ہے،آخر کار چند روز قبل بلی تھیلے سے باہر آہی گئی، وزیر اعظم صاحب کا فرمان عالی شان نظروں سے گزرا، جس میں آپ جناب سرکار فرماتے ہیں کہ ''پانچ سال کافی نہیں، پارلیمانی جمہوریت کے اندر پانچ سال کے بعد الیکشن آجاتا ہے، حکومتیں پانچ سال کا سوچتی ہیں تاکہ اگلا الیکشن جیت جائیں، ملک کے مستقبل پانچ سال سے نہیں بنتے۔''

کوئی وزیر اعظم صاحب کو بتائے کہ ہمارے ہاں تو حکومت پانچ سال بھی پورے نہیں پاتی کہ درمیان میں ہی سیڑھی کھینچ لی جاتی ہے اور وہ جو خود کو ناگزیر سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ آسمان سے زمین پر آن گرتے ہیں، ملک کا سیاسی نظام آج بھی انھی خطوط پر چل رہا ہے لہٰذا کسی کو کسی بھی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

پانچ سال پورے ہونے کا تو پتا نہیں لیکن یہ اڑھائی سال اس ملک اور عوام پر بہت بھاری گزرے ہیں، تبدیلی کا جھانسہ دے کر اس عرصے میں عوام کے سینوں پر جو مونگ دلی گئی ہے، اس نے ہڈیوں کا بھی سرمہ بنا ڈالا ہے، اس ملک میں بدعنوانی کاگراف ماضی سے زیادہ آج بلند ہے، قرضوں کا بوجھ دگنا ہوچکا ہے، لوٹی دولت کی ایک پائی بیرون ملک سے نہیں لائی جاسکی، الٹا اربوں روپے اس لوٹی دولت کا سراغ لگنے پر دیا گیا، وزیر اعظم ہاؤس میں جو یونیورسٹی بنی وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے نام آٹا اور چینی چوروں میں آرہے ہیں، سادگی کا کلچر ایسا اپنایا گیا کہ وسیم اکرم پلس کا پروٹوکول دیکھنے کے لائق ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں، لاکھوں سے چھت چھن چکی ہے، پولیس لوگوں پر لاٹھیاں اور آنسو گیس برساتی ہے۔

کسی اور کو تو کیا انصاف ملنا تھا ماڈل ٹاؤن سانحہ میں شہید ہونے والے بھی آج تک اپنے پیاروں کے قاتلوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جو اڑھائی سالہ تبدیلی کا کچا چٹھا کھول رہے ہیں اور ہمارے وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں پانچ سال کافی نہیں، ان کی یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے وہ دس یا پندرہ تو کیا تیس سال بھی اقتدار میں رہیں تو انھیں کوئی نہیں نکال سکتا، اس کے لیے انھیں ڈیلیور کرنا پڑے گا، رجب طیب اردگان کی مثالیں دینے کے بجائے ان جیسا بننا پڑے گا لیکن یہ کام محض باتوں یا خیالی پلاؤ سے کبھی ممکن نہیں۔ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی دیکھ کر تو لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے ۔

آخر میں سینیٹ الیکشن کے حوالے سے چند باتیں۔ سینیٹ کی آدھی نشستوں پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق تین مارچ کو سینیٹ کی52نشستوں کے لیے قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں میں الیکشن ہوگا۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سینیٹ انتخابات کے حوالے سے کسی ایسی انہونی سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کررہی ہے جو ماضی کی حکومت کے ساتھ ہوچکی ہے۔ یعنی اکثریت کے باوجود حکمران اتحاد اپنا چیئرمین سینیٹ نہ لاسکا، اپوزیشن اتحاد کی مطلوبہ تعداد کو ''فرشتوں'' نے کس طرح پورا کردیا اور ایک انہونی کو ہونی میں بدل دیا، اس پر ہر کوئی دنگ تھا۔ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا گیا اور بعد ازاں صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا جو سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحادپی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے، ایک دوسرے کے امیدواروں کو سپورٹ کیا جائے گا، اتحاد میں شامل بڑی جماعتوں نے اپنے امیدوار نامزد کردیے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے حکمت عملی پر محنت کی جارہی ہے لیکن سینیٹ انتخابات کے حوالے سے حکمران جماعت کی صفوں میں جو بے چینی ہے وہ قابل دید ہے، ایک مرتبہ امیدواروں کے اعلان کے بعد نظرثانی کے لیے دوبارہ روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی ضرورت پیش آگئی۔

تحریک انصاف جو سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ سے الیکشن کرانے کی متمنی ہے بلکہ اس مقصد کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے بے تاب ہے اس کی جانب سے جب سینیٹ امیدواروں کا اعلان کیا گیا تو پارٹی کے اندر سے ہی ان امیدواروں کے خلاف آوازیں آنا شروع ہوگئیں، یہ آوازیں اس قدر توانا تھیں کہ کپتان کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والی جماعت ایک بار پھر خود مشکوک بن کر قوم کے سامنے کھڑی ہے۔

اس وقت حکمران جماعت بوکھلاہٹ کا شکار ہے لہٰذا تمام اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر دانشمندی سے اپنے پتے کھیلیں، ان کی بہتر حکمت عملی سے ناصرف سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہوگی بلکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں