جوہانسبرگ سے استنبول تک

منڈیلا نسل پرستی کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مسلسل 27 سالوں تک پابند سلاسل رہے۔


Zuber Rehman January 06, 2014
[email protected]

منڈیلا نسل پرستی کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مسلسل 27 سالوں تک پابند سلاسل رہے۔ جس کی وجہ سے وہ جنوبی افریقا کے محنت کشوں کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اسی قید و بند کے دوران ہی منڈیلا کو بیماری لاحق ہوگئی جس نے آخر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔جب وہ جیل میں تھے تو وہ غریبوں، محروموں اورمظلوموں کے لیے آزادی کی جدوجہد کرنے والے رہنما اور ایک ہیرو بنتے چلے گئے۔ دوسری طرف امیر لوگوں کے لیے وہ ''شر'' کی علامت بنے رہے۔ جس دوران منڈیلا پابند سلاسل رہے تب تک منڈیلا پر کسی نے کوئی توجہ نہ دی لیکن آج ہر طرف سے ان کی تعریف کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔ یہ سب اس وقت تبدیل ہوا کہ جب 1980 کی دہائی میں عوام الناس اور محنت کش اٹھ کھڑے ہوئے۔ متحرک ہوئے اور انھوںنے کنفیڈریشن آف سائوتھ افریقن ٹریڈ یونین کے گرد محنت کشوں کو منظم کرنا شروع کردیا جو کہ جنوبی افریقا کی سب سے بڑی اور طاقت ور مزدور تنظیم تھی۔ اس عظیم جد وجہد اور تحریک کے دوران یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے بڑے عوامی مظاہرے اور ہڑتالیں منظم کیں جن کے نتیجے میں جنوبی افریقا کی سفید فام نسل پرست حکومت کا تخت اکھڑ گیا۔ وہی سرمایہ دار جوکہ اب تک منڈیلا کو جیل میں رکھے آرہے تھے۔ اس کے بعد چوکنے ہوگئے اور نئے طریقوں سے اپنی چالیں چلنا شروع ہوگئے۔ اس جد وجہد اور تحریک کی شدت نے حکمران طبقات کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک دھڑا ایسے سخت گیروں پر مبنی تھا جوکہ سابق صدر یوتھا کے ساتھ تھا۔

اگرچہ جنوبی افریقا کی قومی آزادی کی تحریک کے ساتھ مذاکرات کررہاتھا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہ رہا تھا۔ دوسری طرف اصلاح پسند ڈی کلراک کے ساتھ جو کہ یہ چاہ رہے تھے کہ اس سے پہلے کہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینک دے بہتر ہے کہ یوتھا حکومت کی قربانی دے دی جائے۔ مذاکرات کا یہ کھلواڑ جنوبی افریقا کے عوام کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوا۔ بلا شبہ عمومی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا نفاذ اور چند ایک حقوق پر مبنی بلوں پر اتفاق جنوبی افریقا کے عوام کے لیے ایک بڑی رعایت تھے۔ لیکن یہ ایک ایسی آزادی تھی جس میں آپ کو سرمایہ داری کے تحت ہی رہنا تھا یعنی کہ آپ کے ہاتھ پائوں باندھ کر آپ سے کہہ دیاگیا کہ آپ گیندسے کھیلیں۔

نیلسن منڈیلا نے اپنی قید و بند سے پہلے ایک چارٹرآف فریڈم میں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ نیشنلائزیشن کا اعلان کیا تھا۔ 1959 میں منڈیلا نے کہا تھا ''یہ حقیقت ہے کہ بینکوں، سونے کی کانوں اور زمینوں کی نیشنلائزیشن کا چارٹر میں مطالبہ، مالیاتی اور سونے کی اجارہ داریوں اور کاشت سے وابستہ مفاد پرستوں کی نیند حرام کررہاہے جو کہ صدیوں سے عام انسانوں کو لوٹتے چلے آرہے ہیں اور جس کے باعث لوگ غلاموں سے بد تر زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں یہ قومی ملکیت میں لینے کے لیے انتہائی ضروری اقدام ہے جب تک ان اجارہ داریوں کو ختم نہیں کیاجاتا ہے اور جب تک اس دولت کا اختیار و انتظام عوام کے ہاتھوں میں نہیں دیا جاتا تب تک اس چارٹر کی اہمیت کوئی معنی نہیں رکھتی'' تاہم منڈیلا نے قومی ملکیت کو سوشلزم کے ساتھ منسلک نہیں کیا تھا۔ وہ نیشنلائزیشن کو صرف ایک قومی منظر نامے میں دیکھ رہے تھے۔ جب وہ جیل سے رہا ہوکر آئے تو ایک بار پھر دہرایا کہ ''سونے کی کانوں، بینکوں اور اجارہ درانہ صنعتوں کی نیشنلائزیشن افریقن نیشنل کانگریس کی پالیسی ہے اور اس حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں لچک یا تبدیلی لانا ناقابل مصالحت ہے۔''

لیکن بعد ازاں ذرایع پیداوار کو قومی ملکیت میں لینے کے بارے میں منڈیلا کا موقف تباہ کن طریقے سے بہت جلد تبدیل ہوگیا۔ منڈیلا جنوبی افریقا اور عالمی سرمایہ داری کے بد ترین دبائو کی زد میں آتے چلے گئے اور اپنی انقلابی حیثیت سے دستبردار ہوگئے۔ منڈیلا اس کے بعد ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شریک ہوئے جس کے بعد سرمایہ داروں سے اور بھی قریب تر ہوگئے۔ حکمران طبقے اور سامراج نے انھیں مائل کرلیا کہ وہ نیشنلائزیشن کو ترک کردیں اور منڈی کو پنپنے کا موقع دیں۔ اس عمل میں ڈی بیٹرز مائنیز کے ہیری اوپن ہمیر نے مصالحانہ کردار ادا کیا۔ منڈی کے ساتھ یہ مصالحت جنوبی افریقا کے محنت کشوں اور غریبوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اے این سی کے رہنماء رونی کیریلز کے الفاظ میں ''1991سے 1996 کے دوران کا وقت ایسا تھا کہ جب اے این سی کی روح مرنا شروع ہوگئی اور یہ کارپوریٹ اثر ورسوخ تلے دبتی چلی گئی۔ یہ انتہائی مہلک والا موڑ تھا۔ میں اسے اپنی موت کا مرحلہ ہی کہوںگا کیوںکہ ہم ہر طرح جال میں پھنس چکے تھے۔ آج بھی ہم میں سے کئی یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے عوام کو دریا میں غرق کرکے ڈبودیا اور پھر ان کی قیمت وصول کرلی'' منڈیلا کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب جنوبی افریقا کے سماج کے اندر طبقاتی کشمکش عروج پر ہے۔ آج یہاں نابرابری تب سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے جب سفید فاموں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ جہاں بھی سرمایہ داری ہوگی وہاں ناگزیر طورپر یہی ہوگا۔

ٹھیک اسی طرح ترکی پر عرب سامراج کی جانب سے خلافت کے نام پر مسلط نسل پرستی اور بادشاہت کے خاتمے کے لیے کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی کے عوام نے عظیم قربانیاں دیکر آزادی حاصل کی لیکن انھوںنے سرمایہ داری کو ختم کیا اور نہ طبقاتی نظام کو۔ نتیجتاً آج وہی ترکی جو کل عرب سامراج کا غلام تھا اب امریکی سامراج کا غلام بنا ہوا ہے۔ ترکی میں اس وقت نیٹو کا جرمن فوجی اڈا ہے اور نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔ حال ہی میں ترکی میں کرپشن کا میگا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد بحران شدید ہوگیا۔ حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ایک سابق وزیر سمیت 3ارکان پارلیمنٹ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جن میں ارتوگرل گونے، اردل کالکن اور ہالوک اوزدالکا شامل ہیں۔ ترک مقامی میڈیا کے مطابق ترکی کی اعلیٰ عدالت نے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے تحقیقات شروع کرنے سے پہلے پولیس کا اپنے اعلیٰ حکام کو بتانے سے متعلق حکومتی فرمان پر عمل در آمد روک دیا ہے۔ کرپشن اسکینڈل سامنے آنے پر ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ ترک میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پولیس وزیراعظم کے صاحبزادے کو بھی اس اسکینڈل میں شامل تفتیش کرنے والی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے تازہ اسکینڈل میں این جی او تورکیف بھی ملوث ہے ادھر ترک حکومت پر کرپشن کے الزام کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور استنبول سمیت مختلف شہروں میں مظاہرین نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس مظاہرین کو اسموک بم، آنسو گیس اور پانی کی توپ سے منتشر کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ان مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی اور غیر طبقاتی معاشرے کے لیے انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے جہاں کوئی سرمایہ دار ہو اور نہ مزدور، مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں