قلندر کی وہ شام

سندھ میں یہ دہشت گردی کا سب سے بڑا وار تھا بلکل ویسے ہی جیسے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہوا تھا۔


جاوید قاضی February 21, 2021
[email protected]

آپ رہیں آج کے تناظر میں جہاں سیاست کی موجیں ادھر ادھر سر پٹخ رہی ہیں، منظر نامہ طوفان بلاخیز جیسا ہے، عوام منجھدار میں ہیں، سفینہ کہیں دور بیچ سمندر میں ساحل کی طرف رواں ہے کہ منزل کا سراغ سب پہ عیاں ہے، ہمت بھی ہے امید بھی۔ نہ جانے کتنے نظریہ ضرورت آئے اور نہ جانے اور کتنے ا بھی آنے باقی ہیں۔

نہ جانے کتنے کٹھن دن میرے ارض و من پر ابھی باقی ہیں مگر میں جاننا چاہتا ہوں اپنی روح و جاں سے قلندر شہباز کے اس آنگن میں جہاں آج سے تین سال پہلے خود کش حملے کیے گئے۔ لگ بھگ دو سو معصوم زائرین ان حملوں میں شہید ہوئے۔ یہی وہ دن تھے جن کو میں اپنے قلم کی سیاہی سے، آج رقم کررہا ہوں۔

مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ قائدِ اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر جو انھوں نے ایوان میں کی تھی مگر وہ کہیں کھو گئی یا پھر گم کردی گئی۔ سنتے ہیں کہ جناح کی گیارہ اگست کی تقریر ریڈیو پاکستان سے کھو گئی تھی کہ جیسے اجنبی خاک نے سب قدموں کے نشان مٹانے چاہے مگر نشان ہیں کہ مٹتے نہیں، وہ ان کی گیارہ اگست کی تقریر ہے جو کہیں کھو نہیں سکتی۔

سولہ فروری 2017 کی وہ شام, جمعرات کا دن قلندر کے آنگن میں جیسے حسبِ معمول دھمال لگتی ہے۔ ہر ہفتہ اس دن پر دور دور سے لوگ اس آنگن میں آتے ہیں، اس روحانی دھمال میں شرکت کرنے کے لیے۔ اس دھمال میں ہر شے پر وجد طاری ہوتا ہے۔ ہر طرف بس لال ہی لال ہوتا ہے کہ قلندر کا مزار ''رنگ لال'' ہے۔ مگر اس دن قلندر کے آنگن میں لہو رقص کرتا رہا، بہتا رہا، پچکاریوں کی صورت میں دیواروں پر چپک گیا۔ اس خودکش حملے میں لگ بھگ دو سو زائرین، فقیر ملنگ، مست مارے گئے، سچ تو یہ ہے کہ وہ شام، شمشان کی شب تھی، شام غریباں تھی، شامِ غم ماتم کدہ بن گئی۔

سندھ میں یہ دہشت گردی کا سب سے بڑا وار تھا بلکل ویسے ہی جیسے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہوا تھا۔ مگر یہاں نشانے پر سندھ کی صوفی روایات تھیں۔ تم جانو تمہارا عقیدہ جانے، تم سب آزاد ہو، اپنی ذات اور اپنے عقیدے میں۔ سندھ کے صوفیوں نے بھی بلھے اور باہو کی طرح اپنے عہد میں تحریکیں چلائی تھیں۔ وہ اپنے عہد کی سول سوسائٹی تھے۔ وہ بولنے کی آزادی کا حق مانگتے تھے۔ ان کے نشانے پر قاضی و دربار تھے۔ مخدوم بلاول کی طرح حق، حق لکھتے تھے۔ ترکھانوں کے عہد میں تیل کی چکی میں اپنے وجود تک کا نذرانہ دیا۔ مگر آخری سانس تک جو اس کے لب پے آواز تھی وہ حق، حق کی تھی یہ وہ نام تھا سندھ کی تاریخ کا جو بے نظیر کے لیے سب سے زیادہ متاثر کن تھا اور اس نے یہ نام اپنے بیٹے کو سونپا۔

آج سے پانچ سال پہلے جب بھورو بھیل کی میت کی بے حرمتی کی گئی تو ہم پہنچے تھے اس کی قبر کے پاسدار بن کر۔ ہم تب بھی وہاں تھے جب لاڑکانہ کے مندر کو آگ لگائی گئی۔ ہم تب بھی وہاں تھے جب شکارپور کی امام بارگاہ پر خودکش حملہ ہوا۔

قلندر کے آنگن میں وہ دھمال بند ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد ہم نے سوچا کہ اس جمعرات کو ہم خود پہنچیں دھمال کا آغاز کریں۔ مگر وقت بہت کم تھا سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں وہاں جلدی پہنچنا چاہیے۔ بارہ گھنٹوں کے اندر ہم اس آنگن پر جا پہنچے جہاں خودکش حملہ ہوا تھا۔ اس آنگن پر ابھی تو لہو کی مہک تھی۔ ایک فغاں تھی فضاء میں۔ قلندر کی مزار کے در و دیوار پر وہ لہو اب بھی چپکا ہوا تھا۔

شیما کرمانی ہمارے ساتھ تھیں۔ میں نے شیما کرمانی کو آمادہ کیا کہ اس کا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ پورے سندھ سے لوگ وہاں آئے اور ہم نے وہاں قلندر کے فقیروں، ملنگوں و مستوں کو ہمت دلائی، انھیں دلاسے دیے۔ پھر وہ گھگھو کی آواز جیسا ساز بجانے پر آمادہ ہوئے۔ ہم سب نے رقص کیا۔ وہ رقص وہ جو انھوں نے روک دیا تھا، وہ ہم نے مزید شدت اور گہرائی سے شروع کیا فیضؔ کے ان سروں کی مانند

آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دستِ افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاکِ برسر چلو خوں بداماں چلو

راہِ تکتا ہے، سب شہرِ جاناں چلو

حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی

تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی

صبحِ ناشاد بھی روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا ء کون ہے

شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

(فیض احمد فیضؔ)

کب جان لہو ہوگی کب اشک گوہر ہوں گے، کچھ پتہ نہیں۔ مگر ہم سب رواں ہیں کہ اک دن جناح کی گیارہ اگست کی تقریر پھر سے ایوانوں میں گونجے گی یا پھر سے ریڈیو پر سنائی دیگی۔ پھر ہوگا وہی سب کچھ جو1977 سے پہلے ہوتا تھا۔ بڑے غور و فکر کے ساتھ جناح کی گیارہ اگست کی تقریر سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن پر نشر ہوگی۔

قلندر کے آنگن میں سورج ڈھلنے کو تھا۔ ہم سب نے لال چولی و چادر اپنے تن پر تنی ہوئی تھی۔ ہم نہ قلندر کے مزار کے فقیر تھے نہ بھٹائی کی مزار کے ہم تو بس انسان تھے۔ ہم تو سب کے تھے، ہم تو محبت تھے، عشق کے اس نصیب سے تھے جس کی کوئی ذات نہ تھی نہ، نہ کوئی رتبہ تھا، نہ مقام نہ اونچ نہ نیچ تھی ہاں بس نفی تھی۔

یہ آج ہمارے ملک میں جو بے یقینی سی ہے، ناامیدی ہے یہ جو کالے بادل منڈلا رہے ہیں یہ سب کل میں بدل جائیں گے۔ وقت نہیں رکے گا، چاہے کتنی ہی گیارہ اگست کی تقریریں غائب کی جائیں، کتنے ہی مندروں، گرجا گھروں اور مساجد پر خود کش حملے کیے جائیں کچھ بھی دیرپا نہیں سوائے محبت کے۔ کیونکہ ہمیشہ رہنے والی محبت ہوتی ہے نفرت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں