بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن نے سینٹ الیکشن کے لئے فارمولا طے کر لیا

بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں کے لئے حکمران جماعتوں اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔


رضا الرحمٰن February 24, 2021
بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں کے لئے حکمران جماعتوں اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔

بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 20 پشین کے ضمنی انتخابات کا معرکہ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار مولانا عبدالعزیز آغا نے مار لیا۔

مولانا عبدالعزیز آغا کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے۔ 2018 کے انتخابات میں بھی اس نشست پر جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا کامیاب ہوئے تھے اور ان کے انتقال کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تھی ۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالعزیز آغا کی کامیابی کے بعد بلوچستان اسمبلی میں جمعیت کی نشستوں کی تعداد دوبارہ گیارہ ہوگئی ہے ۔

جمعیت علماء اسلام کی اس کامیابی اور آزاد رکن صوبائی اسمبلی و سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی جانب سے مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں جے یو آئی کی حمایت کے اعلان کے بعد بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے عددی نمبرز میں دو ارکان کا اضافہ ہوگیا ہے ۔

بلوچستان میں سینٹ کے انتخابات کے لئے رابطوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی جمعیت علماء اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی و سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی شامل ہے، نے اپنا فارمولا طے کر لیا ہے جس کے تحت بلوچستان نیشنل پارٹی کی جنرل کی دو اور ایک خاتون کی نشست پر حمایت کی جائے گی ۔

جبکہ جمعیت علماء ا سلام کو ٹیکنو کریٹ اقلیت اور جنرل کی ایک نشست پر حمایت حاصل ہوگی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق متحدہ اپوزیشن جنرل کی 7 میں سے تین نشستیں لانے اور خواتین ٹیکنو کریٹس کی دو دو نشستوں پر اپنے ایک ایک امیدوار کی کامیابی کے لئے پر امید ہے جبکہ اقلیت کی ایک نشست پر حکمران جماعتوں اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان مقابلہ ہوگا جس کے لئے متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کا کارڈ بھی کھیل سکتی ہے۔

کیونکہ حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں میں پی ڈی ایم کی اہم جماعت اے این پی بھی شامل ہے جس نے بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 20 پشین کے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ سینٹ کے الیکشن میں وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حصہ لے گی جبکہ اے این پی اس وقت حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی کے جواب کی منتظر ہے جنہوں نے 2018ء میں سینیٹ کے ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کے امیدوار کی حمایت کے بدلے میں اے این پی کی پارلیمانی قیادت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سینیٹ کے انتخابات میں ان کے نامزد امیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے تعاون و مدد کرے گی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں کے لئے حکمران جماعتوں اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دکھائی دے رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ بلوچستان سے سینیٹ کی ان بارہ نشستوں پر سرپرائز نتائج آئیں گے کیونکہ اس وقت حکمران جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف میں اندرونی طور پر امیدواروں کی نامزدگی کے معاملے پر سخت رسہ کشی ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے عبدالقادر کی نامزدگی اور پھر ان سے ٹکٹ کی واپسی کے بعد دوسری ظہور آغا کی نامزدگی پر پارلیمانی گروپ تقسیم ہوگیا ہے اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند جو کہ جام کمال کابینہ کے اہم رکن بھی ہیں، نے اپنے صاحبزادے سردار خان رند کے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی داخل کرکے ہل چل سی مچا دی ہے ۔

ان کے قریبی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سردار یار محمد رند اپنے بیٹے سردار خان رند کی کامیابی کے لئے پر امید ہیں جس کے لئے وہ لابنگ بھی کر رہے ہیں ۔ پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی کے علاوہ دیگر ارکان جن کا دیگر جماعتوں سے تعلق ہے، سے کامیاب مذاکرات کر چکے ہیں اور وہ اپنے صاحبزادے کی کامیابی کے ہدف تک رسائی حاصل کر چکے ہیں تحریک انصاف کے نامزد امیدوار ظہور آغا کے لئے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری بھی سرگرم ہیں اور رابطے کر رہے ہیں ۔

دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال عالیانی نے میڈیا سے گفتگو کے دوران عبدالقادر کے حوالے سے یہ انکشاف کرکے اپنی جماعت اور دیگر اتحادیوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ عبدالقادر تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے تحریک انصاف نے تو انہیں تسلیم نہیں کیا اور ان کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن ہم انہیں تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔

وزیراعلیٰ جام کمال کے اس بیانیئے کے بعد ان کی جماعت اور سینیٹ کے امیدواروں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے کیونکہ یہ بات وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی سینیٹ کی 7 نشست میں سے 3 خواتین کی دو میں سے ایک ٹیکنو کریٹس کی دو میں سے ایک اور اقلیت کی واحد نشست پر اپنے امیدوار باآسانی کامیاب کروا لے گی جبکہ باقی جنرل کی ایک نشست وہ مزید اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر لا سکتی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنی برتری دکھانے کا ایک موقع اس وقت ملا جب ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ان کے ٹکٹس ہولڈرز امیدواروں میں صرف واحد سعید احمد ہاشمی جو کہ پارٹی کے بانی بھی ہیں کے کاغذات منظور ہوئے۔

باقی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے دو امیدواروں جن میں سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے اور ساجد ترین ایڈووکیٹ جن کا تعلق بی این پی سے ہے ، باقی رہ گئے ۔ متحدہ اپوزیشن نے اپنے فارمولے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ٹیکنو کریٹ کی نشست جے یو آئی کو دے دی ہے اور اپوزیشن کے دوسرے بی این پی کے امیدوار ساجد ترین ایڈووکیٹ نے اس نشست پر کاغذات واپس لے لیئے ہیں۔ جس کے بعد ٹیکنو کریٹس کی ان دونشستوں پر باپ کے سعید احمد ہاشمی اور جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ رہ جاتے ہیں اور دونوں بلا مقابلہ منتخب ہوسکتے تھے۔ لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت نے ٹیکنو کریٹس کی ان نشستوں پر مسترد ہونے والے اپنے امیدواروں کو الیکشن ٹربیونل میں اپیلیں داخل کرانے کا راستہ دکھا کر اس سنہری موقع کو گنوا دیا شاید اس لئے کہ حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت ٹیکنو کریٹس کی یہ دونوں نشستیں جیتنے کی امید لگائے بیٹھی ہے جبکہ صورتحال ایسی نہیں ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بی اے پی خصوصاً وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے لئے پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنا ایک کڑا امتحان ہے کیونکہ جنرل کی 7نشستوں پر انہیں پارٹی امیدواروں کا فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگا جہاں پارٹی کے سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ، میر سرفراز بگٹی، اورنگزیب جمالدینی، آغا عمر احمد زئی کے علاوہ عبدالقادر کے پی کے کی محترمہ ستارہ ایاز بھی پارٹی ٹکٹ کی خواہش مند ہیں جن پر میڈیا اور پارٹی کے اندر شدید تنقید ہورہی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو مارچ 2021 کے انتخابات میں اس وقت اکثریت حاصل ہوگی اور اپنے ہدف کو پہنچ پائے گی جب وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو یکجا کرکے متحد ہوگی کیونکہ اسکی اتحادی جماعتوں اے این پی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، پاکستان نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو تحفظات کے علاوہ شکایات بھی ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی جس کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بھی حال ہی میں کوئٹہ میں ہوا ہے وہ وزیراعلیٰ جام کمال کے رویے پر سخت تحفظات رکھتی ہے ۔

اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سربراہ اور سینیٹ کے امیدوار میر اسرار اللہ زہری کے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے حوالے سے میڈیا میں بیان نے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی عوامی کے مابین بڑھتی ہوئی صورتحال کی سنگینی کی طرف اشارہ دیا ہے ۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنے اور ان کے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں سینیٹ کے الیکشن سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دستبردار کرانے کی دھمکی دی ہے، جبکہ چیئرمین سینیٹ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت جام حکومت کی اتحادی جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی واحد بلوچ قوم پرست جماعت ہے جو کہ اسکی حمایت کر رہی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران جماعت حالات کی سنگینی کو سمجھے اور سیاسی بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست کی حامی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ لیکر چلے اور ان کے تحفظات کو دور کرے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں