ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ایک نابغۂ روزگار شخصیت

ڈاکٹر صاحب نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں 100سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔


ڈاکٹر صاحب نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں 100سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ فوٹو : فائل

حیدر آباد شہر کو ہر دور میں علمی، ادبی اور مذہبی حوالے سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر زمانے میں اس خطۂ ارضی میں ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنی علمی و ادبی، سیاسی اور تحقیقی کاوشوں سے لازوال خدمات انجام دیں۔

ایسے ہی نابغۂ روزگار پاکستان کی ممتاز روحانی شخصیت، محقق، ماہرلسانیات، عالم دین، مترجم، ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں تھے ، جنہوں نے اپنی تمام زندگی تعلیم اور دین اسلام کے فروغ کے لیے وقف کردی۔ خوشبو، رنگ ، روشنی، نور، علم، آگہی، حکمت، بصیرت، ہدایت، انکسار، مسکراہٹ ، زہد، تقویٰ، عبادت، حلم، ریاضت ان سب صفات کو خمیر سیرت سے ہم آہنگ کیا جائے تو ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی شخصیت وجود میں آتی ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں جبل پور (سی پی) بھارت میں دو شنبہ، 10 شوال المکرم 1330 ھ مطابق یکم جولائی 1912ء پیر کے دن فجر کے وقت پیدا ہوئے۔ پہلے آپ کا نام ''محمد مصطفٰے خاں'' رکھا گیا مگر بعد میں آپ کی والدہ نے آپ کا نام ''غلام مصطفٰے خاں'' رکھا۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1917ء میں ضلع جبل پور سے کیا۔ جب آپ کی عمر 5 برس تھی تو یہاں چھیپا محلہ کے اسکول میں داخل کرایا گیا، اور اسی سال کے آخر میں اہل خانہ جبل پور منتقل ہوگئے۔ پہلے کھائی محلہ میں قیام کیا بعد میں محلہ بھان تلیا میں آگئے۔

یہاں آپ کے والد گلاب خان صاحب نے 1919ء میں ایک مکان ایک سو سترہ (117) روپے میں خرید لیا، ڈاکٹر صاحب کا داخلہ دلہائی محلہ کے اسکول میں کرایاگیا۔ یہاں آپ نے چار جماعت تک تعلیم حاصل کی پھر کٹھک محلہ کے اسکول میں داخل ہوئے۔

1923ء میں پرائمری کے امتحان میں پورے شہر میں اوّل آئے اور چار سال تک کے لیے آپ کو چار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا رہا۔ آپ کی دینی تعلیم کا آغاز گھر ہی سے ہوا۔ بڑے بھائی نذیر احمد خاں نے پہلے پارے کے چند رکوع بہت سمجھاکر پڑھا دیے تھے پھر مکمل قرآن پاک ڈاکٹر صاحب نے خود ہی پڑھا۔ 1923ء میں پرائمری پاس کرنے کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کو ''انجمن اسلامیہ ہائی اسکول'' میں داخل کرایا گیا۔ آپ نے 1928ء میں نویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور دسویں جماعت کے لیے علی گڑھ کالج چلے گئے۔

علی گڑھ اس وقت ہندوستان میں علم و ادب کا مرکز تسلیم کیا جاتا تھا ۔ علی گڑھ میں قیام ڈاکٹر صاحب کی تعلیم و تربیت کا اہم ترین اور زریں دور ہے۔ 1929ء میں میٹرک پاس کیا۔ اپریل 1931ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔1931ء ہی میں یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اس دوران علی گڑھ یونیورسٹی میں ضیاء احمد بدایونی سے فارسی نثر و نظم ، تاریخ پروفیسر عبدالرشید اور انگریزی مختار حامد علی سے پڑھی اور تاریخ اسلام کے لیے مولانا ابوبکر محمد شیث صاحب اور مولانا سید سلیمان اشرف صاحب جیسے بزرگوں سے بھی استفادہ کیا۔

اپریل 1933ء میں بی اے فائنل کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1933ء ہی میں آپ نے ایم اے (فارسی) میں داخلہ لیا۔ اپریل 1935ء میں ایم اے فارسی فائنل کا امتحان پاس کیا، اور آپ کی ایم اے فارسی میں تھرڈ ڈویژن آئی، اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے ناگ پور یونیورسٹی سے 1937ء میں فارسی ہی میں دوبارہ ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ایم اے فارسی کے بعد آپ نے اپنے دوست رضا علی خاں کے مشورے پر ایم اے (اردو) میں داخلہ لے لیا۔

رشید احمد صدیقی صدر شعبۂ اردو تھے۔ اپریل 1936ء میں ایم اے اردو اور ایل ایل بی کے امتحانات ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب میں حصولِ تعلیم کا شوق اور حصول علم کا ذوق اس بات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس سال آپ نے ایم اے (اردو) سال اول سال آخر کے ساتھ ایل ایل بی کے بھی تمام پرچوں کا امتحان دیا اور کام یاب ہوگئے۔ ایم اے اردو کے Viva میں رشید احمد صدیقی اور احسن مارہروی کے علاوہ ایک ممتحن باہر سے بھی تشریف لائے تھے۔

15مئی1936ء کو آپ اپنے وطن جبل پور روانہ ہوئے۔ 3جون 1936ء کو ایم اے (اردو) اور ایل ایل بی کا نتیجہ ظاہر ہوا۔ جبل پور میں آپ کو نتیجہ معلوم ہوا کہ دونوں امتحانات میں آپ سیکنڈ کلاس میں پاس ہوئے ہیں۔ یوں 1936ء میں آپ علی گڑھ کی تعلیم سے فارغ ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں علی گڑھ مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ یہاں انہوں نے تقریباً 8 برس تعلیم حاصل کی۔

جس وقت آپ یہاں آئے تھے، آپ کی عمر16سال تھی اور واپسی پر 24 سال کے تھے۔ یعنی نوجوانی کا یہ دور آپ نے وہاں گزارا۔ لہٰذا علی گڑھ آپ کے لیے دوسرا وطن تھا۔ اس اہم دور میں آپ کی تربیت کے ساتھ ان کی ذہنی تدریجی ترقی کا علم بھی ہوتا ہے۔

فارسی سے دل چسپی، فارسی ادب میں ان کا مطالعہ، فارسی میں شعر گوئی کا آغاز، تفریح طبع کی خاطر ایک نظم، انگریزی میں مہارت، اس زبان میں پانچ کتابیں، ایک مضمون اور ایک منظوم خیال کے ساتھ اقبال کے فارسی کلام کے انگریزی ترجمے کو محفوظ کرنا، معروف فارسی تذکرے کا انگریزی میں ترجمہ، تاریخ گوئی کا آغاز، دینی تعلیم کے حصول میں کام یابی وغیرہ، یہ سب کارہائے نمایاں ہمیں اسی دور میں ملتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جب بی اے میں زیرتعلیم تھے تو تجوید و قرأت سبعہ کی تکمیل کے لیے استاد الہند ضیاء الدین احمد الہ آبادی کے درس میں بعد از مغرب شامل ہونے لگے۔

علم تجوید و قرأت سبعہ کی تحصیل میں ڈاکٹر صاحب کا سلسلہ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے، ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کے اساتذہ میں قاری ضیاء الدین احمد الہ آبادی، مولانا حضرت عبدالرحمٰن صاحب مکی، حضرت عبداﷲ صاحب مکی اور حضرت ابراہیم مصری شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قاری ضیاء الدین احمد الہ آبادی سے بڑا علمی اور روحانی فیض حاصل کیا ہے۔ یعنی آپ نے قاری صاحب سے تجوید و قرأت اور عربی صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی نیز ڈاکٹر صاحب مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وہ طالب علم تھے جنہیں سب سے پہلے علم تجوید بہ روایت حضرت سیدنا امام حفص ؒ سے حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور پہلی سند آپ کو عطاء کی گئی۔

اس کے علاوہ آپ ہی وہ پہلے طالب علم تھے جنہیں یونیورسٹی کی طرف سے دو سال تک سات (7) روپے مہینہ وظیفہ بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیگر اساتذہ میں نمایاں نام سید سلیمان ندوی، ضیاء احمد بدایونی، رشید احمد صدیقی، احسن مارہروی، مولانا ابوبکر شیث جون پوری اور مولانا سلیمان اشرف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ محسنین میں صدر یار جنگ، نواب حبیب الرحمٰن شیروانی، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، پرنسپل علامہ محمد شفیع بہت اہم ہیں۔ حاجی حمید الدین شعبۂ فارسی میں ڈاکٹر صاحب کے استاد تھے۔

مولانا عبدالخالق ایل ایل بی کلاس میں ڈاکٹر صاحب کے استاد تھے۔ مولانا سلیمان اشرف سے ڈاکٹر صاحب نے تفسیر پڑھی اور شرف تلمذ حاصل ہوا۔ قرآن پا کی تفسیر کے ساتھ مولانا سلیمان اشرف ہفتے میں 2سے3 دن مغرب کے بعد بخاری شریف بھی پڑھاتے تھے۔1936ء میں ڈاکٹر صاحب علی گڑھ سے فارغ ہوئے اور اسی سال 15مئی کو آپ علی گڑھ سے جبل پور کے لیے روانہ ہوئے۔ جبل پور پہنچ کر پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں غور کیا۔ چوں کہ آپ نے ایل ایل بی کیا تھا لہٰذا عزیزوں کا مشورہ تھا کہ وکالت شروع کی جائے لیکن ڈاکٹر صاحب کی مرضی اس طرف نہیں تھی، گھر کے حالات ایسے تھے کہ بڑے بھائی نے اب تک تمام خرچ اٹھایا تھا، ڈاکٹر صاحب روزگار کے سلسلے میں متفکر تھے۔

اسی دوران پبلک سروس کمیشن نے کنگ ایڈورڈ کالج امراؤتی (برار) کے لیے اردو کے ایک استاد کی جگہ کے لیے اشتہار دیا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے کاغذات تیار کیے اور کمیشن کے دفتر روانہ کردیے۔ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے اردو کے ایک استاد کے لیے آپ کو انٹرویو لیٹر موصول ہوا۔ یہ انٹرویو 5 جولائی 1937ء کو ناگ پور میں ہوا اور انٹرویو میں آپ کو منتخب کرلیا گیا۔15جولائی1937ء کو آپ نے اپنے فرائض منصبی سنبھال لیے۔ آپ اردو کے لیکچرار ہونے کے ساتھ شعبۂ اردو کے صدر بھی تھے۔

جب سی پی انڈیا میں اردو کا کوئی استاد نہیں تھا اس وجہ سے باقاعدہ شعبۂ اردو بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سی پی میں شعبۂ اردو کی بنیاد رکھی اور پہلی مرتبہ ایم اے اردو کے لیے باقاعدہ نصاب مرتب کیا۔ جس وقت آپ نے انٹرویو دیا اس وقت آپ کی عمر 24سال چند ماہ تھی۔1937ء میں آپ نے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا اور پہلی بار اپنے استاد ضیاء احمد بدایونی سے موضوع پر مشورہ چاہا تھا۔ 30 اگست 1937ء کو ضیاء احمد بدایونی نے آپ کے تحقیقی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے 10عنوانات تجویز کیے تھے۔ ان کے مشورے سے آپ نے 1940ء میں حسن غزنوی پر ناگ پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کیا تھا۔ حسن غزنوی فارسی کے مشہور شاعر تھے۔

اس مقالے کی تیاری میں آپ کو اپنے اساتذہ میں سے مولانا ضیاء احمد بدایونی، پرنسپل محمد شفیع اور حبیب الرحمٰن شیروانی کا تعاون ہمہ وقت حاصل رہا۔ یہ مقالہ 1946ء میں مکمل ہوا۔ 4 اپریل 1947ء کو آپ نے پی ایچ ڈی کرلیا تھا۔ مراؤتی کالج کے بعد آپ کا تبادلہ ناگ پور یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے ہوگیا۔ یہاں بھی شعبۂ اردو آپ ہی نے قائم کیا اور اس کے لیے نصاب مرتب کیا۔ 1947ء میں آپ کا تبادلہ مارکس کالج میں ہوگیا مگر یہاں زیادہ وقت نہیں گزارا کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ستمبر1947ء میں ڈاکٹر صاحب کے دونوں بڑے بھائی حاجی نذیر احمد خاں اور حاجی عبدالرحمٰن خاں والدہ صاحبہ محفوظ النساء بیگم کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے بچے سراج احمد خاں اور بیٹی ہاجرہ کو لے کر پاکستان آگئے۔

ادھر مارکس کالج سے پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کو خط لکھا کہ آپ واپس آجائیں اور مارچ تک کام کرکے اپریل سے تعطیل ہونے پر چلے جائیں۔ چناں چہ آپ دسمبر میں ہوائی جہاز سے بمبئی پہنچے وہاں سے ریل میں ناگ پور پہنچے۔ ناگ پور میں کل 20-25 دن کام کیا لیکن پھر بڑے بھائی صاحب نذیر احمد خاں نے کراچی سے تار کیا کہ سراج احمد خاں ڈاکٹر صاحب کے بیٹے کو موتی جھرا نکل آیا ہے لہٰذا آپ نے مستقل طور پر پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا اور گیارہ سالہ گزیٹیڈ پوسٹ ترک کرکے 22 جنوری 1948ء کو ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئے۔

جس وقت آپ نے اس ملازمت کو چھوڑا آپ کی تنخواہ 330 روپے ماہانہ تھی۔ پاکستان آنے کے بعد آپ بغدادی محلہ چاکی واڑا کراچی میں رہے پھر پیرالٰہی بخش کالونی میں مکان خرید لیا۔ آپ کی پہلی شادی آپ کے ماموں عبدالمجید خاں کی صاحبزادی کنیز آمنہ بی سے 14اکتوبر 1936ء کو بھان تلیاں جبل پور میں ہوئی۔

اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر 23سال 6 ماہ اور زوجہ کنیز آمنہ بی کی عمر تقریباً 15 برس تھی۔ آپ حافظ قرآن تھیں۔ ان سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پہلے فرزند کی پیدائش کے ساتھ ہی وفات ہوگئی، دوسرے نمبر پر جبل پور میں کنیز فاطمہ (ہاجرہ) پیدا ہوئیں ، تیسرے نمبر پر جبل پور میں سراج احمد خاں کی ولادت ہوئی۔ (انہوں نے شعبۂ اسلامیات سندھ یونیورسٹی سے ''مکتوبات امام ربانی کی دینی اور معاشرتی اہمیت'' پر 1974 میں پی ایچ ڈی کیا) چوتھے نمبر پر جبل پور میں فرزند ظفر احمد خاں پیدا ہوئے (یہ مجذوب الحال ہیں) پانچویں نمبر پر سیونی میں بیتی صابرہ کی پیدائش ہوئی اور جبل پور میں انتقال ہوگیا۔ چھٹے نمبر پر جبل پور میں عزیز احمد خاں کی پیدائش ہوئی لیکن ان کی بھی کراچی میں وفات ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب کی پہلی اہلیہ کا انتقال 1947ء میں ہوا۔

پہلی اہلیہ کے انتقال کے تقریباً دو سال بعد قمر بیگم صاحبہ سے 30 اگست 1949ء کو آپ کا دوسرا عقد ثانی ہوا، قمر بیگم سے تین بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ آپ کی دوسری اہلیہ کا انتقال 7 فروری 1991ء میں ہوا۔ پاکستان میں آپ کا پہلا تقرر اسلامیہ کالج کراچی میں ہوا۔ کالج نیا قائم ہوا تھا چناں چہ آپ ہی شعبۂ اردو کے صدر منتخب ہوئے۔ یہاں بھی آپ نے نصاب مرتب کیا۔ یہاں تقریباً دو برس کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر صاحب کا پہلا مضمون 1948ء میں اورینٹل کالج میگزین لاہور میں شائع ہوا جو ان کے مقالے ''حسن غزنوی'' کی پہلی قسط تھی پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان اقساط کے علاوہ پاکستان میں پہلا مضمون اسلامیہ کالج کے پہلے میگزین 1949ء میں ''چند علمی نکات'' کے عنوان سے شائع ہوا۔

ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے کہنے پر 1950ء میں آپ اردو کالج کراچی میں شعبۂ اردو کے صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ آپ اردو کالج میں تقریباً 6برس سروس مکمل کرکے 1956ء میں مستقل طور پر کراچی سے حیدرآباد آگئے۔ سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر علامہ آئی آئی قاضی کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے 14جولائی 1956ء کو سندھ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے چارج لیا۔

ڈاکٹر صاحب کا تقرر سوا آٹھ سو روپے ماہوار پر ہوا۔ 1972ء میں ڈاکٹر صاحب کی عمر 60 سال ہوگئی، چناں چہ آپ ریٹائرڈ ہوگئے لیکن سندھ یونیورسٹی نے ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی یہ توسیع چار مرتبہ ایک ایک سال کے لیے ہوتی رہی، یوں آپ نے 20 سال سندھ یونیورسٹی میں گزارے اور 1985ء میں جامعۂ سندھ نے آپ کی علمی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا۔ جون1959ء میں آپ نے ناگ پور یونیورسٹی سے ڈی لٹ بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا معتبر ترین حوالہ آپ کی تحقیقی خدمات ہیں۔ آپ نے مفید مشوروں پر مشتمل ایک مضمون 1961ء میں ''فن تحقیق'' لکھا۔

بہ طور ماہرلسانیات بھی تھے آپ کا نمایاں اور قابل ذکر کام '' فارسی پر اردو کا اثر'' ہے جس میں ایسے بہت سے الفاظ دیے گئے ہیں جو اردو کی وساطت سے فارسی میں داخل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اہم کارنامہ ان کا تحقیقی مضمون ''اردو املا کی تاریخ'' ہے۔ اس میں قدیم اردو کے نمونے پیش کیے گئے ہیں اور حرف پر تنقید علاقائی حروف کی اشکال کی مدد سے کی گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی لغت نویسی ان کی شبانہ روز محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں ان کا اولین باقاعدہ اور باضابطہ کام ''سندھی اردو لغت'' ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو صرف و نحو پر کتاب لکھی جس کا عنوان ''اردو صرف و نحو'' ہے۔ اس میں اردو نحو کے قواعد اور اصولوں کو مثالوں کے ذریعے واضح کیاگیا ہے۔ آپ نے ایسے الفاظ کی تفصیل فراہم کی جن کا املا غلط رائج ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ''ہمارا تلفظ '' کے عنوان سے ایک مختصر کتابچہ تحریر کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے نصاب کو مرتب کیا بلکہ بچوں کا نصاب بھی ترتیب دیا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے آپ کا ایک مضمون ''نظریۂ پاکستان'' کے عنوان سے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل ہے۔

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے بھی اس مضمون کی جامعیت، اختصار اور افادیت کے پیش نظر اپنے نصاب میں شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی علمی، ادبی اور تدریسی خدمات کا اعتراف ملکی سطح پر متعدد بار ہوچکا ہے۔ آپ کو ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز کے علاوہ بہت سے اعزازات و انعامات حکومت اور دیگر اداروں کی طرف سے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں کی ادبی و تعلیمی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ اقبال ایوارڈ، جامعۂ سندھ کی طرف سے ماہر تعلیم کا طلائی تمغا، انجمن ترقی اردو کراچی کی جانب سے نشان سپاس، پاکستان نیشنل اکیڈمی کی طرف سے نشان سپاس، قائداعظم ایوارڈ ، بلدیہ اعلٰی حیدرآباد کی جانب سے تاج پوشی اور نشان بلدیہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات و انعامات شامل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں 100سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں، جن میں علمی نقوش ، حالی کا ذہنی ارتقا، ادبی جائزے، تحقیقی جائزے، جامع القواعد حصہ نحو، سرگذشت کابل، حسن غزنوی حیات اور ادبی کارنامے، تاریخ بہرام شاہ غزنوی (انگریزی) اقبال اور قرآن، ہمارا علم و ادب اور دیگر کتب شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بے شمار شاگرد ہیں۔ آپ کے کچھ نام ور شاگردوں کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابن انشاء، ڈاکٹر نجم الاسلام، ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر سید معین الرحمٰن، فخر علی عباسی، پروفیسر انوار احمد زئی اور دیگر۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے خاں 25 ستمبر 2005 کو 93 برس میں انتقال کرگئے۔ آپ احاطہ مسجد غفوریہ ٹول پلازہ سپرہائی وے بائی پاس حیدرآباد میں آسودۂ خاک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں