توشۂ خاص

حکم خداوندی سے انحراف صریحاً تکفیر کے زمرے میں آتا ہے۔


حکم خداوندی سے انحراف صریحاً تکفیر کے زمرے میں آتا ہے۔فوٹو : فائل

کشتہ شمع رسالتؐ حضرت حفیظ تائب
تائب مری آنکھوں میں ہے تنویر پیمبرؐ

تفاخر محمود گوندل

اس باب میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیںکہ حضور سید المرسلین آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سب سے بڑا ثناء خوان خود رب کائنات ہے۔ از روئے قرآن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے ہمہ وقت اپنے محبوب مکرم پر نہ صرف خود درودوسلام کی بارش کر رہے ہیں بلکہ اہل ایمان کو بھی یہ تلقین نہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اس روایت و سنت کو بیدار و زندہ رکھتے ہوئے صاحب یٰسین و طہٰ پر کثرت سے درودو سلام بھیجیں۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ حکم خداوندی سے انحراف صریحاً تکفیر کے زمرے میں آتا ہے یہی وجہ ہے حضور سرور کائنات ؐ پر درود بھیجنا مستقلاً نماز کا حصہ بنا دیا گیا جو اس بات کا اظہار ہے کہ توصیف و ثنائے خدائے لم یزل اور مدح محمد عربی ؐ لازم و ملزوم ہیں ۔ جس رب ذولمنن کے سحاب کرم نے خود اپنے محبوب کو ورفعنا لک ذکرک کی نوید جاں فزا عطا کی ہو اور مالک کوثر و تسنیم بنا دیا ہو اس کی رفعت و عظمت کی گہرائی و گیرائی کو وہی جانتا ہے۔

اس عظیم سعادت یعنی حضور ﷺ کی مدحت و توصیف کا آغاز حضور ؐ کے زمانہ اقدس میں ہی ہو گیا تھا ۔ آپ ؐ کے مداحین و ثناء گستران کی فہرست بہت طویل ہے ان میں صدیق اکبرؓ، علی المرتضیٰ ؓ، کعب بن زوہیرؓ، عبداللہ بن رواحہؓ، حسان بن ثابت ؓ کے علاوہ امام شرف الدین بصیری، نظامی، جامی، قآنی جیسی رفیع الشان ہستیاں شامل ہیں اور اپنے خوش مقدر ہونے پر ناز کر رہی ہیں کہ انھیں بارگاہ ربوبیت سے یہ شرف و توقیر بخشی گئی۔

حضور ؐ کی توصیف ثناء کا دوسرا نام علم بیان و ادب میں نعت ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بڑی بڑی مہتمم بالشان ہستیوں نے سرزمین حجاز کے ثناء خوانوں کی روایت کو تابندگی عطا کرتے ہوئے علم نعت بلند رکھا۔ تقسیم پاکستان کے بعد یوں تو ثناء خوانان مصطفیؐ کی فہرست میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر اس میدان میں جو عزت و نام وری، عظمت و شہرت اور ارتقا و ارتفاع جاں سپارِ مصطفیؐکشتہ شمع رسالتؐ حضرت حفیظ تائب کے حصے میں آیا بلامبالغہ وہ کسی اور کو نہیں مل سکا۔ میں گذشتہ چار سال کے دوران قومی اخبارات میں نعت گوئی کے ضوابط و لازم اور مبادیات پر کئی مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ یہ جتنی بڑی سعادت ہے اتنا ہی مشکل کام بھی ہے۔ ایک جانب مقام معبود دوسری جانب عظمت و مرتبہ عبد ان دونوں انتہائوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس سنت خداوندی و ملائکہ کو زندہ و تابندہ رکھنا بے حد احتیاط کا متقاضی ہے۔ شاید اسی مشکل و تذبذب کے پیش نظر عرفی جیسے صاحب فصاحت و بلاغت کو بھی یہ کہنا پڑا

عرفی مشتاب، ایں رہ نعت است نہ صحرا است آہستہ ، کہ رہ بردم تیغ است قدم را
مداح رسول ؐ جناب حفیظ تائب کی نعت گوئی کا بہ نظر عمیق جائزہ لیا جائے تو اہل دل و نظر اور اہل فن پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کے اس بے ریا اور پیکرعجزوانکسار ثناء گو کو فن نعت گوئی کے تمام لوازم و موشگافیوں کی پہچان سے کم حقہ اور بدرجہ اتم نواز رکھا تھا۔ جناب تائب کی کلک گوہر بار نے تشبیہات و استعارات اور بدائع وکنایات کو جس ضبط احتیاط کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے اس کی داد میرے امکان میں نہیں۔ اس ضمن میں، میں انھیں نعت گویان مصطفیؐ کا سالار اور مزاج شناس نعت کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا۔ جب ان کا قلم جنبش میں آتا ہے تو کارکنان قضا و قدر الفاظ و معانی کا معدن و مخزن طشتری عقیدت میں سجا کر ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر جناب تائب اپنی منشاء سے ان موتیوں کو قرطاس پر اس طرح بکھیر دیتے ہیں جس طرح ظلمت شب مین چرخ نیلی فام پر نجوم و کہکشاں پوری رعنائی و زیبائی سے فروکش نظر آتے ہیں۔

جنا ب تائب مغفور نے نہ صرف اس سعادت کے تسلسل میں حد ادب و احترام کو کاملاً ملحوظ خاطر رکھا ہے بلکہ نعت گوئی کے دائرہ تفکر کو اس قدر وسعت دی کہ اس میں ملت اسلامیہ کی بے سروسامانی ، بے کسی و بے بسی اس کے سیرت و کردار میں موجود جمود و تعطل اور تواتر سے زوال و انحطاط، شمشیر اغیار کی برق پاشیاں، امت کی زبوں حالی و بے مائیگی اور غیرت و حمیت کے فقدان کو کمال حسن تدبر سے نمایاں کیا ہے مگر جناب تائب نے صریحاً اس تباہی کا ذمے دار خود امت کی بداعمالیوں اور بے تدبیریوں کو ٹھہرایا ہے مثلاً آپ کا یہ شعر تو ضرب المثل کی حد تک زباں زد خاص و عام ہو چکا ہے
؎ کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے، حشر میں آپ کو منہ دکھائیں گے کیا، ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ

جناب تائب نے اس شعر میں علامہ محمد اقبال کے تخیل کو راہ نما بنایا ہے کہ ہمارے اسلاف نے علمی و تحقیقی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہم نے ان سے گریزپائی اختیار کی مگر اہل یورپ نے انہی سے استفادہ کر کے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں۔ حضورؐ کا ایک ایسا عاشق صادق جسے دربار رسالت ؐ میں حاضری کی سعادت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ثروت شعروسخن کے ملکے سے بھی متصف کیا گیا ہو اس کے تخیل کی اڑان اسے ہم دوش کوکب فروزاں کردیتی ہے۔ حضرت حفیظ تائب جس بے عدیل خلوص و عقیدت بے پایاں تصور محبت کے ساتھ دربار رسالت ؐ میں حاضری دیتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک قارئین کی نذر کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں :

؎ پلکوں پہ تھا لرزاں دل دربار رسالت ؐ میں، آساں ہوئی ہر مشکل درباررسالت ؐ میں
ذرا میدان نعت گوئی کے اس بانکے شہسوار کے ذوق تصور کی اڑان ملاحظہ فرمائیں کہ آپ رحمت للعالمین ؐ کے دربار میں حاضری کے لوازم سے کس قدر شنا سا ہیں بندش الفاظ کی موسیقیت اپنی جگہ مگر ذہن بے تاب کی کیفیت کس وجد آفرین انداز میں رقم کی ہے ذار پہلے مصرعے میں پائی جانے والی نزاکت کا جائزہ لیں بار بار اس احساس جمال کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے کہ شاعر کا دل حاضری کے وقت پلکوں پہ لرز رہا ہے اور اس غایت عقیدت و محبت کا کمال یہ ہے کہ جناب تائب کی ہر مشکل آسان ہوتی نظر آتی ہے اور پھر وہ مکمل طور پر طمانیت و تسکین کی دولت سے بہرہ یاب معلوم ہوتے ہیں۔ اس نعت کا ایک اور شعر گنبد خضریٰ میں پائی جانے والے انوار و تجلیات کی برسات کا تذکرہ کس جاذبیت سے کر رہا ہے اور ان سے چشم حفیظ تائب کس طرح مستفیض ہو رہی ہے۔ اس حیات بخش کیفیت کا نقشہ وہ اس انداز میں کھینچ رہے ہیں
؎ فانوس فروزاں تھے آنکھیں بھی منور تھیں، ہر لحظہ تھی کیا جھلمل دربار رسالت ؐ میں حضور ؐ کی بارگاہ میں آپ کا ہر نذرانہ عقیدت بہ احتیاط محبت و بچشم نم رقم کیا گیا ہے جس کی طلاطم خیز موجیں ایک خلوص مند قاری کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
؎ حشر تک اس کی لحد اس نور سے روشن رہے، ہیں درخشاں ماہ و انجم جس کی تابانی کے ساتھ

۔۔۔

کورونا اور نمونیا میں گزارے ہوئے دردناک لمحات اور ان کا مقابلہ
امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی کووڈ 19میں گزارے دنوں کا حال سناتے ہیں

فرحت شیر خان(ڈیکالب، امریکا)

گزشتہ دنوں مجھے اور میری پوری فیملی کو کورونا کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ایک تکلیف دہ وقت تھا جو کہ دوستوں اور رشتے داروں کی دعاؤں سے عافیت کے ساتھ گزر گیا۔ اس بیماری سے گھر میں سب سے زیادہ متاثر میں ہوا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ بیماری کے ان پندرہ، سولہ دنوں کو قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔

ہم لوگ گزشتہ اکیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں۔ میرے دو بیٹے شادی شدہ ہیں اور وہ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں جب کہ میں اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ الگ رہتا ہوں۔ میرا چھوٹا بیٹا جوکہ ڈینٹل اسکول کا طالب علم ہے، اس کے دو بچے ہیں جن کی دیکھ بھال اسکول کے وقت میں میری بیگم کرتی ہیں۔ بیٹا پیر کو اسکول سے آیا تو اس کی طبیعت کچھ نڈھال تھی۔ اس کی بیوی بھی اس کی کلاس فیلو ہے۔ دونوں نے اپنے بچوں کو لیا اور گھر چلے گئے، جہاں رات کو اسے بخار، گلے میں خراش اور کھانسی ہوگئی۔

صبح اس نے ڈاکٹر کو فون کیا تو ڈاکٹر نے کورونا ٹیسٹ تجویز کردیا۔ میاں بیوی دونوں نے ٹیسٹ کروایا تو بیٹے کا مثبت اور بہو کا منفی آیا۔ شام تک دونوں بچے بھی کورونا سے متاثر ہوگئے۔ اس کے دو دن بعد جمعرات کو میری چھوٹی بیٹی کو بخار ہو گیا اس کے اگلے دن بڑی بیٹی اور بیگم کو بھی بخار نے آ لیا۔ دونوں بیٹیوں کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔ بیگم نے ٹیسٹ کرانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب سب کو ہو گیا ہے تو فضول میں ٹیسٹ کیا کروانا۔ میں کیوںکہ صبح صبح جاب پر چلا جاتا تھا اور رات کو لیٹ آتا تھا اس لیے ابھی تک بچا ہوا تھا مگر ہفتے کو میرے گلے میں بھی خراش شروع ہوگئی اور کھانسی اور ہلکا ہلکا بلغم آنے لگا۔ میں نے گرین ٹی بنائی اور اپنے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ واضح رہے کہ سب لوگ الگ الگ کمروں میں قرنطینہ کر رہے تھے۔

اتوار کی رات 3 بجے کے قریب مجھے سخت سردی لگنی شروع ہوگئی اور ایک چادر ایک لحاف اور ایک کمبل اوڑھنا پڑ گیا۔ صبح 4 بجے تک بخار 102 ہو گیا اور پھر بڑھ کر 104 تک جا پہنچا۔ گھر میں دیگر تمام لوگوں کو 100یا 101 سے زیادہ بخار نہیں ہوا۔ میرے بخار میں تیزی آتے ہی گلہ بند ہونے لگا اور سینے میں درد محسوس ہونے لگا۔ جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا۔ ڈاکٹر نے کورونا ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا۔ انھوں نے فوری طور پر کچھ دوائیاں تجویز کیں جن کا استعمال شروع کردیا گیا۔

دوائوں کے ساتھ میں نے ایک دیسی نسخہ بھی استعمال کیا۔ یعنی دو کپ پانی چولہے پر رکھ کر اس میں ادرک، ایک انچ، دار چینی دو انچ، سونف ایک چمچا، ہلدی آدھا چمچا، کلونجی ایک چوتھائی چمچا، سفید زیرہ ایک چوتھائی چمچا، اجوائن ایک چوتھائی چمچا اور چھوٹی الائچی چار دانے ڈال کر اتنا ابالا کہ پانی صرف ایک کپ رہ گیا۔ پھر چائے کے کپ میں جوشاندہ، لیموں اور شہد ڈال کر اس میں گرین ٹی ملا دی اور اس کو دن میں دو مرتبہ استعمال کیا۔ صبح انڈے کے ساتھ ناشتہ کیا اور دوپہر کے کھانے میں صرف خشک میوہ جات کھائے۔ دن میں تقریباً تین مرتبہ پانچ عدد لونگ کے ساتھ بھپارہ لیا۔

تین دن تک میری یہی حالت رہی۔ سردی لگ کر بخار چڑھتا مگر بعد میں کبھی 101 سے اوپر نہیں گیا۔ گلا بہت دُکھتا اور سینے میں بھی درد محسوس ہوتا رہتا۔ کبھی سخت سردی لگتی اور کبھی پورا جسم پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا۔ منہ کا ذائقہ بالکل ختم ہو چکا تھا۔ ساری رات ہر آدھے گھنٹے بعد یا تو پیاس لگتی تھی یا پیشاب آتا تھا۔ نہ نیند آرہی تھی اور نہ کچھ کھانے کو دل چاہ رہا تھا۔ گلے کا درد بڑھتا جا رہا تھا۔ مرغی کی یخنی پینے سے گلے کو تھوڑا آرام آجاتا تھا۔

کورونا کے پانچویں دن بیگم نے گاجر، چقندر اور کینو کا رس مکس کرکے دیا جوکہ منہ کڑوا ہونے کے باوجود اچھا لگا۔ آج کی رات بھی سردی کھانسی اور بخار کی نظر ہوگئی۔ دیسی اور انگریزی علاج دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ چھٹے دن رات کو اتنا پسینہ آیا کہ پورے کپڑے شرابور ہوگئے اور آدھی رات کو کپڑے بدلنے پڑے۔ میری بیماری کے ساتویں دن گھر کے تمام افراد کورونا سے صحت یاب ہوچکے تھے۔

اسی دوران ایک معجزہ بھی دیکھنے کو ملا کہ میرا بیٹا جوکہ سب سے پہلے کورونا کا شکار ہوا تھا اور اس کے دونوں بچے بھی مگر معجزاتی طور پر اس کی بیوی اس بیماری سے محفوظ رہی اور ایک ہی کمرے میں رہنے کے باوجود ایک ہفتہ بعد بھی اس کا ٹیسٹ منفی آیا۔ میرے کورونا کے آٹھویں دن بھی طبیعت میں کوئی بہتری محسوس نہیں ہوئی بلکہ نویں دن تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سانس اکھڑ رہی ہے سینے میں درد شروع ہو گیا۔ دل گھبرانے لگا فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا۔

جنھوں نے بلاتاخیر اسپتال کے ایمرجینسی روم جانے کی ہدایت کردی۔ چھوٹا بیٹا جو کہ ہمارے گھر سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر رہتا ہے، اسے فوری طور پر بلایا گیا جو مجھے اسپتال کی ایمرجنسی میں لے گیا، جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ایمرجینسی اسٹاف نے مجھے وہیل چیئر پر بٹھا کر بیٹے کو گھر جانے کی ہدایت کردی۔ تقریباً پندرہ منٹ میں ای سی جی اور ایکسرے سمیت تمام ٹیسٹ شروع ہوگئے۔ اس وقت تک کوئی دوا شروع نہیں کی گئی، بلکہ صرف آکسیجن لگا دی گئی۔

ایمرجینسی روم میں تقریباً تین چار گھنٹے گزارنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ تمہیں کورونا کے ساتھ نمونیا بھی ہے اور تمہیں پانچ دن کے لیے اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے۔ بہرحال رات تین بجے کے قریب کمرہ نمبر 2023 میں منتقل کردیا گیا۔ کمرے میں جاتے ہی دوبارہ ہر قسم کے ٹیسٹ شروع کردیے گئے نیند بھی آ رہی تھی مگر سو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنے مرحوم ماں باپ کو یاد کرتا رہا۔ تکلیف اپنی جگہ تھی مگر نرسیں مستقل طور پر فون پر ڈاکٹر سے رابطے پر تھیں۔ کورونا کی وجہ سے یہ ایک بند وارڈ تھا جس میں میرے ایک دوست ڈاکٹر شکیل احمد سمیت کسی کو بھی آنے کی اجازت نہ تھی۔ بہرحال ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نرس یا عملہ آ کر کچھ نہ کچھ چیک کرتا رہا اور یہ سلسلہ صبح سات بجے ڈاکٹر کی آمد تک جاری رہا۔ ڈاکٹر شرما نے آتے ہی بہت اچھے طریقے سے بات کی اور اردو میں اس مرض کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد کچھ سکون محسوس ہوا اور آنکھ لگ گئی۔ صبح دس بجے آنکھ کھلی۔ طبیعت میں بہتری اور ناشتے کی طلب محسوس ہوئی۔ نرس کو بلا کر اس بارے میں بتایا نرس نے کہا کہ فون کے ساتھ ہی کینٹین کا مینو پڑا ہے، انھیں کال کرکے اپنا آرڈر دو، وہ کھانا ہمیں لا کر دیں گے اور ایک نرس وہ کھانا لے کر کورونا کے مخصوص لباس میں ہمیں پہنچائے گی۔ اسپتال میں ہندو اور مسلمان ڈاکٹر اور مریض بھی ہوتے ہیں اور کچھ امریکی بھی۔ صرف ویجی ٹیرین ہوتے ہیں۔ اس لیے ناشتے سمیت ہر کھانے میں ایک دو ڈشز یعنی ویجی ٹیرین اور گلوٹین فری ہوتی ہیں۔

ناشتہ کرتے ہی پھر نرسوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دوائیاں اور انجکشن لگنا شروع ہوگئے۔ دوپہر بارہ بجے کے قریب پھیپھڑوں کے امراض کے مسلمان ماہر ڈاکٹر حسین آگئے مکمل چیک اپ کے بعد کہنے لگے کہ گھبرانا نہیں ہے، صحیح وقت پر اسپتال آگئے اللہ خیر کرے گا۔ ان کے جانے کے بعد تقریباً دو بجے وائرل انفیکشن ڈیزیز کی ماہر انڈین نژاد ڈاکٹر ماہل آگئیں جنھوں نے مکمل چیک اپ کے بعد بتایا کہ کیوںکہ آپ کو کورونا کے ساتھ ساتھ نمونیا بھی ہو گیا ہے اس لیے آپ کو کسی اور وائرل سے بچنے کے لیے روزانہ ایک ویکسین لگوانا ہوگی۔

ڈاکٹر ماہل کے جانے کے بعد کینٹین سے سلاد منگوا کر کھائی۔ اسپتال میں دیگر دوائوں اور انجکشنوں کے علاوہ صبح شام پیٹ میں بھی ایک انجکشن لگایا جاتا تھا تاکہ بستر پر پڑے پڑے جسم کے کسی حصے میں کہیں خون نہ جم جائے جوکہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اسپتال کے بیڈ آٹومیٹک تھے جس کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی کیوںکہ آپ نے کچھ کھایا پیا یا باتھ روم گئے تو آکے لیٹے یا کروٹ بھی لی تو آپ کے وزن میں اونچ نیچ اور جسم کا اینگل صحیح کرنے کے لیے پورا بیڈ ہر جگہ سے خود ہی حرکت کرتا تھا اور آپ کے جسم کو ایک کمفرٹ زون میں پہنچا کر رک جاتا تھا۔

اسپتال جاتے ہوئے میری بیٹی بختاور خان نے میرا لیپ ٹاپ اور فون وغیرہ ایک بیگ میں ڈال کر میرے ساتھ کردیا تھا جس کی وجہ سے دوسرے ہی دن فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے دوستوں کو میری بیماری کی اطلاع ہوگئی جس میں سے زیادہ تر دوستوں کا تعلق میڈیا اور کراچی پریس کلب کے ارکان سے تھا۔ میں دعائیں کرنے والے تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اسپتال میں داخلے کے چوتھے دن میری آکسیجن ہٹا لی گئی اور چار گھنٹے تک بغیر آکسیجن کے رکھ کر بتایا گیا کہ میں خود سے 92 فیصد تک آکسیجن لے رہا ہوں، لہٰذا اب میری حالت خطرے سے باہر ہے۔

پانچویں دن کی سہ پہر تمام ڈاکٹروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ مجھے ڈسچارج کرکے گھر بھیج دیا جائے۔ فوری طور پر اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر پہنچ کر غسل کے بعد نماز شکرانہ ادا کی۔ ابھی کم زوری بہت ہے مگر ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ نمونیا کے جانے میں کچھ وقت لگے گا۔ الحمد للہ تمام دوستوں کی دعاؤں کی بدولت آج اس بیماری کے دوران گزارے ہوئے وقت کو ڈائری کی شکل میں تحریر کر رہا ہوں۔ شاید اس کو پڑھ کر کسی کو کورونا اور نمونیا کی صورت حال، احتیاطی تدابیر اور اقدامات کے بارے میں آگاہی ہو سکے اور سب سے بڑھ کر گھبرانا نہیں ہے اور ہمت سے مقابلہ کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں