کراچی کی بات کریں
خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی کو پھر سے کراچی بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں کہ سب کو اپنا فرض ادا کرنا ہی ہوگا۔
یہ کوئی دو سو سال پہلے کی کہانی نہیں ہے، بلکہ اسی صدی کا سچا واقعہ ہے، جب سندھ کے ایک گاؤں میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے دیہاتیوں نے مٹی کی بڑی بڑی بوریوں سے پشتے بنائے کہ اس طرح سیلاب تباہی نہیں پھیلا سکے گا کچے پکے پشتوں سے جیسے تیسے گزارا ہو ہی رہا تھا، لیکن بارش کے زمانے میں دریا میں ایسی طغیانی آتی کہ سارے علاقے میں خوف کا سا سماں رہتا کہ کب پانی کے ریلے کچے پکے مکانوں اور کھیتوں کھلیانوں کو تباہ کر دے۔
ایسے میں ایک بچہ اپنے مدرسے سے اپنا بستہ سنبھالے اپنے گھر لوٹ رہا تھا کہ اسے پشتے سے پانی رستا نظر آیا، بچے کی کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے اس نے سوچا کہ دوڑ کر جائے اور گاؤں والوں کو خبر کرے لیکن پھر پانی کی رفتار دیکھ کر اس کو محسوس ہوا کہ دوڑ کر جانے اور گاؤں والوں کو خبر کرنے کے چکر میں دیر ہو جائے گی اور اس طرح پانی تباہی پھیلا دے گا۔ بچے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اس نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اس چھوٹے سے شگاف کو بند کرنے کی کوشش کی اس سے کام نہیں بنا تو اپنا بستہ اس پر رکھا اور پھر خود بھی اس شگاف کو بند کرنے کے لیے جت گیا۔
شام ہوگئی، رات بھی گزر گئی، صبح ہوئی تو لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی، دن کی روشنی میں لوگوں نے اس بچے کو دیکھا جو رات بھر سخت موسم میں اس پشتے کے سوراخ کو اپنے نازک سے وجود سے بند کرنے کے جتن کرتا رہا، بچے کی حالت خراب ہوچکی تھی لیکن اس چھوٹے سے بچے کی ہمت و جرأت نے پورے گاؤں کو ڈوبنے سے بچا لیا، لوگوں نے پشتے پکے کر دیے لیکن اس بچے کو برسوں گزر جانے کے بعد آج بھی لوگ بھولے نہیں ہیں وہ سندھ کا ہیرو ہے۔ جسے اپنے گاؤں اپنے کھیتوں کھلیانوں سے ایسی ہی محبت تھی جیسے اپنے گھر سے۔
وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے ہم ہر میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ضمیر فروشی، بے ایمانی اور کام چوری میں ہماری قوم کے کچھ سپوت کچھ زیادہ ہی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو بھی ''آؤکراچی کی بات کریں'' کہتے سن کر ہمت بڑھی لیکن ان چوروں کا کیا کریں جو اپنے ہی گھرکی چیزیں چرا کر فروخت کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔کراچی کی اہم شاہراہ یونیورسٹی روڈ پر جس پر ٹریفک رواں دواں ہے، ایکسپو سینٹر کے سامنے فٹ پاتھ کے ساتھ آہنی جالیوں کو بڑے سکون سے دن کی روشنی میں کاٹا جا رہا ہے اور جب ایک نوجوان اس سے باز پرس کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ اس کا تعلق پولیس سے ہے اور اگر اسے ویڈیو بنانی ہے تو بنائے۔
اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر دیکھا گیا جو محترم اس چوری میں ملوث تھے وہ اپنے حلیے سے پولیس والے تو نہیں بلکہ اچکے لگ رہے تھے اور اگر ان کا تعلق کسی بھی سرکاری ادارے سے ہے تو انھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ شہر کی اس قدر اہم شاہراہ کہ جس کے ایک جانب سوک سینٹر تو دوسری جانب ایکسپو سینٹر ہے یہ دو ایسے اہم مقامات ہیں کہ جن کا تعلق شہر کے تمام علاقوں سے ہے، اس قسم کے کھلے چور گھاس کاٹنے کے بہانے آتے ہیں اور میرے پیار شہرکی خوبصورتی برباد کردیتے ہیں۔
ان برقی ذرائع سے ویسے تو بڑے نقصانات بھی ہیں کہ ان سے ہماری نسل متاثر ہو رہی ہے لیکن سوشل میڈیا سے ایک فائدہ ضرور ہے کہ جو حساس دل رکھنے والے اشخاص ایسے ایسے واقعات وحادثات کی ویڈیوز بنا کر وائرل کردیتے ہیں کہ جن تک پہنچتے پہنچتے ارباب اختیارکو دیر ہو سکتی ہے اور فوری احکامات جاری کرنے پر بھی ادھر ادھر سے اعتراضات بھی اٹھ سکتے ہیں جب کہ عوامی ذرائع شکایات براہ راست متعلقہ ادارے تک خود ہی پہنچا دیتے ہیں، سلام ہے ان تمام حضرات کو جو اپنے علاقے اپنے شہر اور محلے سے اس طرح پیارکرتے ہیں اس کا خیال رکھتے ہیں جیسے اپنے گھر کا رکھتے ہیں۔
پورے ملک میں کراچی کی باتیں کچھ یوں ہوتی ہیں جیسے یہ ملک کا یتیم مسکین شہر ہو جب کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیوکی اپنی رپورٹ کے مطابق کراچی ملک بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہے صرف کراچی کے صدر کی بات کی جائے تو یہاں سے 77.2 بلین روپے ٹیکس 2018 میں وصول کیے گئے اور یہاں ٹیکس فائلرز کی تعداد 72339 ہے اس کے بعد اسلام آباد کے بلیو ایریا کا نمبر ہے جہاں ٹیکس فائلرز کی تعداد 5854ہے جن سے 40 بلین روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔
کراچی کے مختلف اضلاع سے ٹیکس کی وصولیابی کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں ہر ضلع اپنے حصے سے خوب ٹیکس ادا کر رہا ہے چاہے وہ وسطی ہو یا شرقی اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک کے دوسرے شہروں میں غریب بستے ہیں بلکہ کراچی شہر ہر مد میں پورا پورا ٹیکس ادا کر رہا ہے۔
572.59 بلین روپے ٹیکس کی ادائیگی کرکے کراچی نے ظاہرکردیا کہ وہ ملک بھر کا سب سے زیادہ متحرک کمرشل شہر ہے لیکن اس کے باوجود یہاں ابھی تک ایک فعال انفرااسٹرکچر نہیں بن پایا یا جسے بنایا گیا تھا اس میں اس قدر ترمیمات اور من مانی کی گئی کہ شہر میں سڑکوں سے لے کر گلی کوچے اور بازار بے ترتیب سے نظر آتے ہیں جہاں دو منزلہ گھر کی منظوری تھی وہاں چھ منزلہ عمارت کھڑی نظر آرہی ہے نتیجتاً کوئی عمارت داہنی جانب جھکتے جھکتے زمین بوس ہوگئی توکہیں زمین بوس ہونے کی منتظر ہے۔
انسانی جانوں اور مال کا ضیاع الگ، فٹ پاتھ کھو گئے، درخت کٹ رہے ہیں، باغ سمٹ کرگھروں میں کھوگئے، نالے تجاوزات سے پٹ گئے، یہاں تک کہ ندیوں کو بھی نہ بخشا گیا اور تو اور پہاڑوں پر بھی گھروندے بس گئے اور یہ سب ایک دم سے تو نہیں ہوا۔ کیونکہ ہم سب خاموش ہیں۔ ہم خاموش تھے اور اگر آیندہ بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو۔۔۔۔!
خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی کو پھر سے کراچی بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں کہ سب کو اپنا فرض ادا کرنا ہی ہوگا۔ کراچی کے ادھورے پروجیکٹس مکمل کریں۔ نالے گھروں کی تعمیر کے لیے نہیں، پانی کی نکاسی کے لیے استعمال ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں پر مانتے نہیں۔ نالوں کی جگہ اپارٹمنٹس اورگھروں کے سامنے سے نالے گزرنے لگے تو سمندر ہرگھرہر فلیٹ ہر جھگی میں گھس آئے گا۔ سیاست کیجیے لیکن کرپشن نہ چمکائیے کہ اس کے لیے نئے نئے طریقے، حربے استعمال ہو رہے ہیں۔