مادری زبانوں کا عالمی دن اور نفاذ اردو
اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دینا پاکستان کی بدبختی ہوگی۔
21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہنگاموں، تشدد اور طلبا کی شہادتوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ 1952 میں بنگالی مسلمانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے، قائد اعظم محمد علی جناح کی آمد پر بھی انھوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے جب اپنی تقریر میں اپنے عزمِ مصمم کا اظہار کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوگی تو مشرقی پاکستان کے اساتذہ، طلبا اور سیاستدانوں نے قائد اعظم کے فیصلے کو اہمیت نہیں دی۔بعد ازاں 21فروری 1952کو مظاہرے، لاٹھی چارج اور پولیس کی فائرنگ سے چار طلبا شہید ہوگئے۔ شہدا کی یاد میں آج تک اس دن کو منایا جاتا ہے۔
زبانیں اپنی مخصوص شناخت رکھتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے عمل کی وجہ سے بہت سی زبانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے یا پھر مکمل طور پر معدوم ہوتی جا رہی ہیں، زبانوں کے معدوم ہونے کی وجہ سے ثقافت، روایات، سوچ اور اظہار بیان سے بھی دور ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں 6000 زبانوں میں سے 43 فیصد زبانیں تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں، ان میں سے چند سو زبانوں ہی کو نظام تعلیم میں جگہ دی گئی ہے۔ مادری، نسلی، آبائی یا پیدائشی زبان وہ زبان ہے جو بچہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان نے اپنی کتاب اردو اور فارسی کے روابط میں لکھا ہے۔ اردو پاکستان کی قومی، برصغیر میں رابطے کی، اپنے بولنے والوں کے لحاظ سے عالم اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان کی تشکیل میں بہت سی بولیوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ زبانیں فطری عمل کے طور پر تشکیل پاتی ہیں اس کے پیچھے کوئی شعوری یا ارادی عمل نہیں ہوتا البتہ تمدنی و تہذیبی اثرات رد و قبول کے عمل میں مہمیز کا کام کرتی ہیں۔
زبان جملہ علوم کی ماں ہے، یورپ کی ترقی میں زبانوں سے دلچسپی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے زبانوں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ان کے یہاں چھوٹی بڑی زبانوں کے ماہرین موجود ہیں جب کہ ہم صرف انگریزی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں، ہمارے تعلیمی حکمت سازوں کو ترقی یافتہ اقوام کی طرح اپنی زبان کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بڑی زبانوں کے ماہرین پیدا کرنے چاہئیں۔ ان زبانوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہماری قومی زبانوں کا حصہ ہیں جیسے فارسی، عربی، ترکی وغیرہ۔مشنری اسکولوں کو دیکھتے ہوئے انگریزی اسکولوں کا جب قیام عمل میں آیا اور انگریزی زبان کی اہمیت اور اردو پر برتری کو اجاگرکیا گیا تو گویا اردو بولنا، پڑھنا، لکھنا کمتر سمجھا جانے لگا، والدین کو بڑی بڑی فیسوں کی ادائیگی کے لیے مقروض ہونا پڑا، اس انداز فکر سے پرائیویٹ انگلش اسکولوں کی چاندی ہوگئی اور تعلیمی معیار گرتا گیا، احساس کمتری نے جنم لیا، بیورو کریٹ اور سیاستدانوں کی ملی بھگت نے غربا کے بچوں کی تعلیم کو ادنیٰ اور انگریزی اسکولوں کے طلبا کو اعلیٰ درجے پر رکھا گیا۔
لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جو بچہ اپنے گھر سے اردو بولنا سیکھتا ہے وہ انگریزی زبان میں لاکھ سیکھنے کے باوجود کس طرح طاق ہو سکتا ہے؟ لہٰذا زیادہ تر طلبا انگریزی میں فیل ہوتے ہیں اس طرح انگریزی ذریعہ تعلیم بھی فیل ہو جاتا ہے۔ ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ طلبا اساتذہ کی تہذیب و تربیت کی وجہ سے انگریزی رسم و رواج کو اپنا کر دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی علوم اپنی زبان میں پڑھائے جائیں تو اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
ہمارے زعما، علما دین و ملی رہنما ان سب نے اردو میں ہی تعلیم حاصل کی اور کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ دوسری زبان میں بچہ اپنی فطری و ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم مثال قرآن پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے جواب میں سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر 44 میں فرمایا ہے اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں، کیا عجب بات ہے کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب کے لوگ ہیں۔
دوسری سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 4 ہے ترجمہ: ''ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم کی ہی زبان میں پیغام دیا ہے کہ وہ اسے اچھی طرح کھول کر سمجھائے۔'' اس سے بڑھ کر کوئی اور مثال ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اپنی ہی زبان میں بہتر اور اچھے طریقے سے بات سمجھی جاسکتی ہے اور دل کو وہی بات چھوتی ہے جو اپنے معانی و مفاہیم کے ذریعے مکمل طور پر سمجھ میں آجائے۔
اردو زبان کی ترویج کے حوالے سے مولانا اشرف علی تھانوی نے 1939 میں یہ فتویٰ دیا تھا کہ اردو زبان کی حفاظت حسب استطاعت واجب ہے اور باوجود قدرت رکھنے کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجب مواخذہ آخرت ہوگا۔ قائد اعظم نے اپنی تقاریر کے ذریعے بارہا اردو کو قومی زبان کا درجہ اور اسے تسلیم نہ کرنے والے کو پاکستان کا دشمن قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ''اردو'' کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں اور یہ دشمنی اسی وقت وجود میں آگئی تھی جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ تعصب اور نفرت سے بچنا وقت کا تقاضا ہے۔
اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ محض زبان کی خاطر بنگلہ دیش جو اس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھا کتنے بڑے پیمانے پر خونریزی ہوئی، بھارت نے دشمنی کا ایسا بیج بویا کہ پاکستان دولخت ہوگیا اور اپنے اپنوں ہی کے ہاتھوں مارے گئے، شعر و ادب میں یہ داستانیں لہو رنگ سے لکھی گئی ہیں، جنھیں پڑھ کر انسانیت کانپ جاتی ہے، ملک دشمن عناصر اسی کہانی کو دہرانے کے لیے سازشوں کا جال بن رہے ہیں لیکن کوئی سازشیں، کوئی چال ہرگز کامیاب نہیں ہوگی محب وطن پاکستانی ہر لمحہ اس کوشش میں ہیں کہ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کی شناخت اس کی اپنی قومی زبان اردو ہو، اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
دوسرے ملکوں میں جائیں تو بے شمار لوگ اردو بولتے اور پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے، اردو کی باقاعدہ تدریس کے لیے وہاں کی یونیورسٹی میں کلاسیں ہوتی ہیں، طلبا اردو زبان میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں حصول علم خصوصاً اردو سیکھنے کے لیے پاکستان آتے ہیں اور جامعہ کراچی میں داخلے لیتے ہیں ہمارے پڑوسی ملک چین میں بیجنگ یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے جن دنوں ابن انشا نے چین کا دورہ کیا تو ان دنوں مادام شان یوں اردو پڑھانے پر مامور تھیں، اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد استاد اپنی مدت پوری ہونے کے بعد آتے جاتے رہے ہوں گے ''چلتے ہو تو چین کو چلیے'' یہ سفرنامہ بے حد مقبول ہوا۔ جس میں چین کی ثقافت، تہذیب اور اردو زبان سے محبت کو اجاگر کیا گیا۔
اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دینا پاکستان کی بدبختی ہوگی۔ وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں جو اپنی زبان اپنی ثقافت اور مذہب سے محبت کرتی ہیں اور اس کی بقا کے لیے کام کرتی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اردو کو سرکاری بنانے میں اپنا رول ادا کریں وہ کام کر جائیں جو دوسرے نہیں کرسکے۔