عقیدت کی خوشبو
عرصہ تین سال ہونے کو ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے وزیرِاعظم نریندر مودی کے دماغ پر ہندو توا کا بھوت سوار ہے۔
عرصہ تین سال ہونے کو ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے وزیرِاعظم نریندر مودی کے دماغ پر ہندو توا کا بھوت سوار ہے، وہاںسترہ کروڑ کے قریب مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ قدیم عرصہ سے آباد ہیں.
کشمیر اکثریتی مسلمانوں کا صوبہ ہے جو دو سال سے قید خانہ بنا ہوا ہے، ابھی چند روز قبل چھ سو سکھ یاتری اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے پاکستان آنا چاہتے تھے لیکن بھارتی حکومت نے انھیں اجازت نہیں دی۔ مودی دور سے پہلے دونوں ممالک کے شہری باہم آتے جاتے تھے، ساڑھے تین سال قبل یہی مودی نواز شریف کی دعوت پر اچانک اس کے ایک فیملی فنکشن پر بغیر ویزا آگیا تھا اور ہوائی اڈے سے سیدھا ان کے گھر پہنچ گیا تھا۔
در اصل مجھے یاد آرہی ہے کئی سال پرانی قتیل شفائی صاحب کے گھر لاہور کی ایک محفل شعر و سخن جس میں ہندوستان سے آئے کنور مہندر سنگھ بیدی اور کئی معروف شعراء نے شرکت کی تھی لیکن بیدی صاحب کا نعتیہ کلام سن کر میں نے چند کالم بعنوان '' عقیدت کی خو شبو'' لکھے جو ہندو اور سکھ شعراء کے نعتیہ کلام پر مشتمل تھے۔ میں نے گزشتہ چند روز محنت کر کے کچھ مزید شعر اکٹھے کیے ہیں۔ جنھیں نذرِ قارئین کر کے پڑھنے والوں کی اور اپنی ضیافت دیدہ و دل کا اہتمام کر کے خوشی اور ثواب کے حصول میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔
تمام نکہت و رنگ و طرب ہیں جس پہ نثار
رسولؐ باغِ نبوت کا وہ گل تر ہے
قدم قدم پہ جلے تیری رہبری کے چراغ
نفس نفس تری تطہیر سے معّطر ہے
(امر سنگھ عارج روپڑی)
کس نے زروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں ان کے نام پر
اﷲ اﷲ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
(پنڈت ہری چند اختر)
اے خاکِ مدینہ ترے اعجاز کے صدقے
ۂے عرش نشیں جو بھی یہاں فرش نشیںۂے
جس نے نہ کیا گنبد خضرا کا نظارہ
وہ آنکھ حقیقت میں کوئی آنکھ نہیں ۂے
(چندر پرکاش جوہر بجنوری)
دل سے نکل کے آگئے جلوئے نگاہ میں
آنکھوں میں رکھ لیا، یہ نظر کا کمال ۂے
تڑپا رہی ۂے کاوش ہجر ِ نبی ؐ مجھے
بیٹھا ہو ا جگر پہ وہ تیر ِ ملال ۂے
(منشی پیارے لال رونق دہلوی)
بلوائیں مجھے واں پہ جو سلطانِ مدینہ
جاتے ہی میں ہو جائوں گا قربانِ مدینہ
مومن جو نہیں ہوں تو میں کافر بھی نہیں شادؔ
اس رمز سے آگاہ ہَیں سلطانِ مدینہ
(مہاراجا سر کشن پر شاد شادؔ)
حلقہ ۂے مہِ نو کا گر یبانِ محمدؐ
ۂے مطلعِ انوار کہ دامانِ محمدؐ
اے رحمتِ عالم! ترے جلووں کے تصّدق
ہم کو بھی دکھا دے رُخِ تاباں محمدؐ
(شیش چندر سکسینہ طالب دہلوی)
حاملِ جلوأ ازل پیکرِ نُورِ ذات تُو
شانِ پیغمبری سے ۂے سرورِ کائنات تُو
تیرے عمل کے درس سے گرم ۂے خونِ ہر بشر
حُسن نمود زندگی، رنگ رُخِ حیات تُو
(پنڈت بالمکند عرش ملسیانی)
ہم نے جس دن سے تیرا جلوئہ رعنا دیکھا
گوشئہ چشم میں بستا ہو کعبہ دیکھا
یہ سمجھ لیں گے کہ گھر دیکھا خد ا کا اے قیسؔ
اپنی آنکھوں سے اگر ہم نے مدینہ دیکھا
(امرچند قیسؔ جالندھری)
تیرہ و تار فضائوں میں تجلّی چمکی
کس کا اعجاز تھا یہ؟ ایک بشر کا اعجاز
ہاں یہ اعجاز اسی صاحبِ اعجاز کا تھا
آج بھی محفل گیتی کا جو ہے چہرہ طراز
(جگن ناتھ آزادؔ)
شانِ معراج سے بس یہ عقیدہ کھلا
مرکزِ عشق ہیں خاتم الانبیاؐ
لابنی بعدی ۂے قول محبوب ؐ حق
ورد اس کا ۂے بھگوان صبح و مسا
(رانا بھگوان داس بھگوانؔ)
رگ حیات میں یہ کیا قرار سا اتر گیا
چمن کا رنگ ریتلی فضا میں کیسا بھر گیا
شگفتہ ۂے کلی کلی حسین پھول پھول ۂے
یہ روز بے مثال ۂے ولادت رسولؐ ۂے
(کالیداس گپتا رضا)
بولا کہ تجھ پہ کیوں مر ی آتش ہوئی حرام
کیا وجہ تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پا سکا
ہندو سہی مگر ہوں ثنا خوان مصطفی ؐ
اس واسطے نہ شعلہ ترا مجھ تک آ سکا
(چوہدری دِلو رام کو ثریؔ)
زندہ ا سلام کو کیا تو نے
حق و باطل دکھا دیا تو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہــےؔ
مر کے جینا سکھا دیا تو نے
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
(کنور مہندر سنگھ بیدی سحر)
اک جہالت کی گھٹا تھی چار سو چھائی ہوئی
ہر طرف خلق خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی
تیرے دم سے ہو گیئں تاریکیاں سب منتشر
پا گئی راحت ترے آنے سے چشم منتظر
(سردار بشن سنگھ بیکل)
ہادیٔ دین متیں ہو تم محمدؐ مصطفیٰ
باعثِ صد فخر ملت رہنما و پیشوا
تم وہ ہو ظلمت مٹا دی دم میں کفروشرک کی
مشعلِ تو حید کی سب کو دکھا کر روشنی
(پیارے لال رونقؔ)