فلسطین 2001 سے 2014 تک
کچھ بھی نہیں بدلا۔ فلسطین اکیسویں صدی میں بھی مقبوضہ علاقے کی حیثیت سے داخل ہوا۔ نئی صدی کا۔۔۔
کچھ بھی نہیں بدلا۔ فلسطین اکیسویں صدی میں بھی مقبوضہ علاقے کی حیثیت سے داخل ہوا۔ نئی صدی کا دوسرا عشرہ اپنے وسط میں ہے، لیکن معاملات وہیں رکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ جنوری 2001 طابا مذاکرات کے اختتام پر جو حالات تھے، آج بھی صہیونی حکومت کا موقف وہی ہے۔ تب امید کی جارہی تھی کہ مصر کے وادی سینا کے جنوبی علاقے میں بحیرہ احمر کے حسین علاقے خلیج عقبہ کے نزدیک طابا میں صہیونی حکومت مان جائے گی لیکن وہ نہیں مانی۔ البتہ فلسطینی مذاکرات کار سیانے نکلے اور انھوں نے اگلے صہیونی وزیراعظم کے الیکشن تک مذاکرات ملتوی کردیے۔ وہاں امریکا میں بھی بل کلنٹن کی رخصتی ہورہی تھی۔
ان کا موقف بعد میں درست ثابت ہوا۔ طابا میں 21 تا 27 جنوری جاری رہنے والے مذاکرات میں صہیونی ریاست کے مذاکرات کاروں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی میزبانی میں کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی تجاویز کو ان مذاکرات کی بنیاد بنانے پر اتفاق کیا تھا، لیکن 6 فروری کو جب ایریل شیرون الیکشن جیت گئے تووزیراعظم ایہود بارک نے اعلان کردیا کہ نئی صہیونی حکومت ان معاہدوں کو تسلیم کرنے کی پابند نہیں جو ایہود بارک حکومت نے تنظیم آزادی فلسطین سے کر رکھے تھے۔یاسر عرفات صہیونیوں کی نیت بھانپ گئے تھے لہٰذا انھوں نے دوسری تحریک انتفاضہ کووقت ضایع کرنے والے مذاکرات پر ترجیح دی۔ فلسطینیوں کا کوئی بھی حق تسلیم نہ کرنے والے ایریل شیرون نے تحریک انتفاضہ کی برکت سے 2005 میں غزہ سے یکطرفہ اور غیر مشروط فوجی انخلاء کیا۔ دوسری تحریک انتفاضہ بھی اسی ایریل شیرون کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے شروع کی گئی تھی۔ تقریباً ایک ہزار صہیونی محافظین کے ہمراہ وہ القدس حرم شریف میں گھس آیا تھا، وہاں اس نے اعلان کیا تھا کہ یہ مقدس سرزمین ان کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے ہاتھوں میں ہی رہے گی۔
شیرون کا یہ موقف کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس کی رو کے خلاف تھا۔ بل کلنٹن کی تجاویز پر ایہود بارک نے بیت المقدس پر فلسطینی حکومت کے حق کو بھی تسلیم کیا تھا اور طے پایا تھا کہ بیت المقدس کا عرب علاقہ فلسطینی حکومت کے زیر انتظام رہے گا۔ جولائی 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اجلاس ہوا اور شیرون نے حرم شریف کی حرمت کو ستمبر کے مہینے میں پامال کیا۔ اگلے روز ہی صہیونی فوجیوں نے حرم شریف پر اپنا تسلط جمالیا جس کے نتیجے میں تصادم ہوا جو انتفاضہ الاقصیٰ پر منتج ہوا۔ اس دوسری تحریک انتفاضہ میں فلسطینیوں کی مظلومیت کے ساتھ ساتھ استقامت و شجاعت بھی ایک اور مرتبہ کھل کر دنیا کے سامنے آگئی۔ طابا مذاکرات کی ناکامی کا ملبہ ہمیشہ کی طرح فلسطینیوں پر ڈالا گیا لیکن یورپی یونین کے نمایندہ خصوصی برائے امن عمل (مشرق وسطیٰ) اور اسپین کے مشہور سفارت کار میگوئیل اینجل موریٹینوس کی دستاویز (نان پیپرز) میں بھی اعتراف کیا گیا کہ بیت المقدس، فلسطینی مہاجرین کی واپسی، صہیونی ریاست کی سیکیورٹی اور فلسطینی علاقوں کی حدود پر فریقین میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔ مذاکرات کے اختتام پر جو پریس کانفرنس کی گئی اس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور اس میں وضاحت و صراحت سے اعلان کیا گیا کہ فریقین کبھی بھی معاہدہ طے کرنے کے قریب نہیں پہنچے تھے۔
ان مذاکرات میں 4 ستمبر 1999 میں شرم الشیخ کے یادداشت نامے پر عمل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مذکورہ یادداشت نامے کا مقصد ستمبر 1995 کے معاہدے (اوسلو دوم) سمیت ان تمام معاہدوں پر عمل کروانا تھا جو صہیونی ریاست اور تنظیم آزادی فلسطین کے مابین طے پائے تھے۔ جیسا کہ پہلے تحریر کرچکے کہ ایریل شیرون کی حکومت ان معاہدوں پر عمل کرنے کی پابند نہیں تھی کیوں کہ ایہود بارک کی حکومت نے یہ منافقانہ اعلان کرکے اگلی حکومت کی جان چھڑا دی تھی۔ یہ الگ بات کہ مظلوم فلسطینیوں کی آہوں اور فریادوں نے عرش الٰہی کو لرزا دیا اور شیرون زندگی اور موت کے درمیان معلق ہوکر رہ گیا۔طابا مذاکرات کے بعد ایک اور جنوری کا مہینہ فلسطینیوں کی سیاسی زندگی میں اہمیت اختیار کرگیا۔ 26 جنوری 2006 کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے والے شفاف انتخابات میں حماس کو فلسطینیوں نے منتخب کرکے نئی تاریخ رقم کی۔
اسماعیل ہنیہ حماس حکومت کے وزیراعظم بنے۔ لیکن امریکا کی قیادت میں عالمی منافقین نے فلسطینیوں کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے فلسطینیوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ محمود عباس کی غیر منتخب فلسطینی انتظامیہ کو فلسطینیوں کا نمایندہ تسلیم کرکے امریکا اور یورپی ممالک نے دنیا پر اپنی جمہوریت دشمنی اپنے عمل سے ثابت کی۔حماس کی کامیابی کی سزا دینے کے لیے سال 2006 سے غزہ کو صہیونی افواج نے محاصرے میں لے لیا اور تاحال یہ محاصرہ جاری ہے۔ 2008ء کے دسمبر میں غزہ پر جنگ مسلط کی گئی جو جنوری 2009 تک مزید شدت اختیار کرگئی۔ اس جنگ کے خاتمے پر مبنی سیز فائر کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے سفارت کاری کی لیکن جب اقوام متحدہ میں قرارداد آئی تو خود امریکا نے صہیونی حکومت کے دباؤ پر اس قرارداد سے دوری اختیار کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا۔
جنوری 2014ء تک فلسطین تاریخ کے کئی نشیب و فراز سے گزر چکا ہے۔ فلسطینی ایڈورڈ سعید، محمود درویش اور یاسر عرفات، شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رانتیسی اور فتحی شقاقی سمیت کئی رہنماؤں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اپنی آزادی کو فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل کہنے والا جنوبی افریقا کا انقلابی رہنما نیلسن منڈیلا بھی اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ فلسطینیوں کو ان کے دوستوں سے محروم کرنے کی سازش پر تیزی سے عمل کیا جارہا ہے۔ حماس کے رہنما محمود الزہار ان سازشوں کی جانب اشارہ کرچکے ہیں۔ انھوں نے تکفیری گروہوں کی سازش سے عالم اسلام اور دنیائے عرب کو خبردار کرکے اپنی ذمے داری کو نبھایا ہے۔ حماس حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے اس تاثر کو ایک بیان کے ذریعے رد کردیا ہے کہ فلسطینی احسان فراموش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شام، ایران اور روس سمیت جن ممالک نے فلسطینیوں کی اور ان کی مقاومت کی حمایت کی، فلسطینی انھیں کبھی نہیں بھولیں گے اور ان سے کبھی اپنے تعلقات خراب نہیں کریں گے۔
حماس کے ان دو عظیم رہنماؤں کے یہ بیانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ حماس کی قیادت دشمنوں کی سازش سے واقف ہے۔ دشمن مزاحمت کے محور کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ لبنان اور شام میں فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں میں بھی تکفیری عناصر نے کچھ کم سازشی کردار ادا نہیں کیا۔ بڑی مشکل سے لبنانی حکومت نے فتح الاسلام نامی گروہ کی چالبازیوں کو ناکام بنایا اور اب شمالی لبنان و تریپولی میں تکفیریوں سے نبرد آزما ہے۔ شام میں ان جیسے دوسرے گروہوں کو ناکام بنایا جارہا ہے۔ کیا یہ بات فلسطین کے ہمدردوں اور حامیوں کے لیے باعث شرم و تعجب نہیں کہ لبنان میں ایرانی سفارتخانے پر خودکش حملہ آور فلسطینی عرب مسلمان تھے۔ وہ ایران کہ جو پورے فلسطین کی مکمل آزادی یعنی اسرائیل کی نابودی پر مبنی فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی واحد غیر عرب ملک ہے، اور اسی موقف کا حامی واحد عرب ملک شام ہے لیکن ان دو ملکوں کے عوام کو بھی فلسطینیوں سے متنفر کرنے کے لیے مذموم سازشیں کی جارہی ہیں۔ یہ صورتحال پوری امت مسلمہ اور عرب اقوام کے لیے پریشان کن ہے۔ تکفیری دہشت گرد فلسطین کاز کا بھی وہ حشر کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے افغانستان، پاکستان اور عراق کے معاملے میں کیا ہے۔
حماس قیادت کو مزید فعالیت اور تحرک دکھانے کی ضرورت ہے۔ حماس، تحریک جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین اور الاقصیٰ بریگیڈ کو متحد کرکے اس منحرف انتہاپسند گروہ کو کچلنے کی ضرورت ہے جو صہیونیت کے مقاصد اور اہداف کی تکمیل میں مصروف عمل ہے۔ حماس کی قیادت نئے الیکشن کے لیے بھی ماحول بنائے کیونکہ آٹھواں سال ہے کہ الیکشن نہیں ہوئے۔ فلسطینیوں کے جمہوری مینڈیٹ کو معلوم کیا جانا چاہیے۔ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ بھی فلسطینیوں کے وسیع تر مفاد میں ان اہداف کے حصول کے لیے مقاومتی و مزاحمتی تحریکوں کا ساتھ دے۔ ایسا نہ ہو کہ فلسطین کو بھی عراق ، پاکستان و افغانستان جیسا ایک ملک بنادیا جائے کہ جہاں آئے دن مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جاتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بھی بیک وقت بیرونی دشمن اور منافقین سے جنگ کرنا ہوگی تاکہ یہ سال فلسطین کی آزادی کا سال ثابت ہوسکے۔